بڑھاپا مگر جوانوں کی طرح!

حکیم الطاف احمد

کچھ لوگ بڑھاپے میں جوان رہتے ہیں ایسے ہی ایک نوجوان بوڑھے کو میں جانتا ہوں اس کا نام ہم فضل دین تصور کرلیتے ہیں۔ وہ اکہتر برس کا جوان تھا۔ میں اسے اس لیے جوان کہتا ہوں کیونکہ اس میں سفید بالوں کے سوا بوڑھوں والی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اپنے سفید بالوں کو پگڑی سے چھپائے رکھتا تھا وہ اپنے گھر کے اندر بھی پگڑی پہنے رہتا تھا، حتیٰ کہ وہ اس وقت بھی پگڑی سر سے نہیں اتارتا تھا جب وہ ننگے پاؤں ہوتا، وہ اپنے علاقے کی فلاحی کمیٹی کا صدر تھا، وہ سب کو پسند کرتا تھا اور سب اسے پسند کرتے تھے۔ اسے اچھے کھانے پسند تھے اور ساری زندگی اس نے بسیار خوری کی تھی، اسے ذیابیطس تھی اور ایک بار اس پر فالج کا معمولی حملہ بھی ہوچکا تھا۔ اپنے رشتہ داروں کے اصرار پر وہ ایک ڈاکٹر سے ملا۔ ڈاکٹر نے اسے خوراک میں کم کرکے وزن گھٹانے کو کہا۔ فضل دین کو اس کی نصیحت پسند نہ آئی، اس لیے وہ دوبارہ کبھی اس کے پاس نہ آیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اسے ڈاکٹر کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے تھا، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیوں:
غذا
ایک ماہر غذائیت نے اپنی لیبارٹری میں ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ اس نے ۳۰۰ چوہوں کو جنھوں نے حال ہی میں دودھ چھوڑا تھا تین گروپوں میں تقسیم کیا۔ گروپ اے کے چوہوں کو اس نے اوسط سے کم خوراک دی گو یہ خوراک ویسے بڑی متوازن تھی۔گروپ بی کے چوہوں کو اس نے بہت زیادہ خوراک دی۔ تیسرے گروپ سی میں شامل چوہوں کو اس نے وہی خوراک دی جو گروپ بی کے چوہوں کو دی گئی مگر ان کو خاص طور پر بنائے گئے پنجروں میں بند کردیا گیا تاکہ وہ زیادہ آسانی سے حرکت نہ کرسکیں، اس تجربے کے نتائج حیران کن تھے۔ گروپ اے کے چوہے جن کو اوسط سے کم خوراک دی گئی تھی ۱۵۰۰ سے زیادہ دنوں تک زندہ رہے۔ گروپ بی کے چوہوں کی عمریں ۱۰۰۰ دن تھیں، جبکہ تیسرے گروپ سی کے چوہوں کی عمریں جن کو زیادہ حرکت کی اجازت نہ تھی ۷۰۰ دن تھیں۔
اسی نوعیت کے کئی دوسرے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ خوراک کا پیٹرن اور رہن سہن کا انداز کسی فرد کی عمر کے دورانیے کا تعین کرنے میں اہم عوامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان عوامل کی اہمیت وراثت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بسیار خوری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا موٹاپا دل کی بیماریوں، بلڈ پریشر اور برین اسٹروک وغیرہ کا باعث ہوتے ہیں۔ بڑھاپے میں پیدا ہونے والی صحت کی خرابی کی وجہ بڑھاپا نہیں ہوتا بلکہ متذکرہ بالا بیماریاں اور ہماری غذائی عادات ہوتی ہیں، انشورنس کمپنیوں سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ۴۰ اور ۴۵ سال کی عمر کے درمیان موٹاپا صحت پر مضر اثرات ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ ساڑھے بارہ کلو زیادہ وزن زندگی میں ۲۵ فیصد کمی کردیتا ہے، جب کہ اس سے زیادہ وزن اور بھی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ اس کا علاج ممکن ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے بسیار خوری سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اچھی خوراک سے مراد خوراک کی مقدار نہیں بلکہ متوازن غذا ہے۔ پتلے لوگ کم کھاتے ہیں مگر بڑھاپے تک جسمانی طور پر فٹ رہتے ہیں۔ وزن میں کمی کرنے والے حضرات کی زندگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ وزن بڑھانا آسان ہوتا ہے جبکہ بعد میں وزن کم کرنا کہیں مشکل ہوجاتا ہے۔
جسمانی ورزش
اچھی صحت کے لیے جسمانی ورزش بھی بڑی اہم ہوتی ہے، جسمانی ورزش نہ کرنے والوں کا حال بھی گروپ سی کے چوہوں جیسا ہوتا ہے ہمارے جدید معاشروں میں آرام کرسی پر بیٹھ کر کام کرنے والے تیس سالہ آدمی کے سینے میں دھڑکنے والا دل ایسا ہوتا ہے جو کہ ۵۰ سال کی عمر والے آدمی کا ہونا چاہیے۔ باقاعدہ ورزش دل کو نارمل کے قریب لے آتی ہے۔
دماغی صحت
جسمانی ورزش عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہوتی ہے مگر یہ شے کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ انسان کو متحرک چاق و چوبند اور ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ اس بات میں حقیقت نہیں ہے کہ بڑھاپے میں ذہنی استعداد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ماضی میں یہ تاثر ۵۰ سالہ افراد کی ذہنی صلاحیتوں کا مقابلہ ۲۰ سالہ افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتائج درست نہیں تھے کیونکہ بیس سال کی عمر کے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ تعلیم یافتہ تھے اور کہیں زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ۵۰ سال کی عمر کے گروپ کے افراد کو اپنے زمانے میں اتنی زیادہ تعلیمی سہولیتیں میسر نہیں تھی، جتنی کہ دوسرے گروپ کو تھیں۔ حال ہی میں کیے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ذہنی چستی میں عمر کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ ذہنی سستی، ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔
ایک سے زیادہ دلچسپیاں
بڑھاپا زندگی سے لطف اندوز ہونے اور ایک مفید شہری بننے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوتا مگر اس کے لیے انسان کو ایسی سرگرمیوں میں دلچسپی پیدا کرنی چاہیے جو کہ مسرت اور آسودگی کا باعث ہوں۔ ضروری نہیں ایک انسان ساری عمر ایک ہی پیشہ یا طرزِ زندگی اختیار کیے رہے۔ ضروری نہیں کہ ایک استاد ہمیشہ استاد، ڈاکٹر ہمیشہ ڈاکٹر اور دوکاندار ہمیشہ اسی پیشے سے چمٹا رہے۔ فنون سے دلچسپی رکھنے والا ڈاکٹر اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والا بزنس مین معاشرے کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک سے زیادہ دلچسپیاں رکھنے والے بعض افراد زیادہ بہتر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں چیلنج پیش کرتی ہیں اور انسان کو ذہنی طور پر مصروف رکھتی ہیں اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد انسان بور نہیں ہوتا بلکہ وہ پرسکون ہوجاتا ہے اور وہ دوسری سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔
بڑے بوڑھوں کے لیے
اب ان کے بارے میں کچھ بات ہوجائے جو بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ یعنی جو نانا، نانیاں یا دادا دادیاں بن گئے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے بوڑھے بوڑھیاں جو خود کو باقاعدہ کام کاج میں مصروف رکھتے ہیں ان کی زندگی زیادہ پرسکون اور آسودہ ہوتی ہیں اور وہ دوسروں کے لیے بھی آرام اور مسرت کا باعث ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک بوڑھا رہتا تھا پہلے وہ کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا مگر بڑھاپے میں وہ یہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اب اس کے بچے کھیتی باڑی کرتے تھے مگر بوڑھا گھر میں خالی نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ جوانی میں اس نے بڑھئی کا کام سیکھا تھا، اب وہ پورے گاؤں کا چکر لگاتا اور لوگوں کی چارپائیاں مفت مرمت کردیا کرتا تھا۔ اگر کسی دن گاؤں میں کسی کو اس کی مدد کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ اپنے اوزار لے کر درخت کے نیچے بیٹھ جاتا اور لکڑی کے کھلونے بناکر بچوں میں تقسیم کرتا رہتا۔ بچے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور اس سے کھلونوں کی فرمائش کرتے۔ میرے اپنے دادا دوکان چلایا کرتے تھے مگر بڑھاپے میں وہ دکان پر نہیں جاتے تھے۔ ان کو زخموں پر لگانے کے لیے ایک خاص مرہم بنانا آتا تھا، یہ مرہم اس زمانے میں جب ابھی جدید ادویات دیہاتوں میں نہیں پہنچی تھیں بڑی کارآمد تھا۔ میرے دادا جان بڑھاپے میں یہ مرہم بناتے اور لوگوں کے زخموں پر لگا کر ان کا علاج کیا کرتے۔ میں خود انھیں دن بھر یہ مرہم کپڑے کی پٹی پر لگا کر اسے لوگوں کے زخموں پر لگاتے دیکھا کرتا۔ اس مرہم کی تیاری پر ان کے صرف پانچ روپے خرچ ہوتے تھے مگر اس کی تیاری کی محنت اور اس کے ذریعے لوگوں کا علاج ایسا اطمینان قلب فراہم کرتا جس کا نعم البدل کوئی نہیں تھا۔
دیکھا گیا ہے کہ متحرک لوگوں میں زیادہ عزت نفس ہوتی ہے اور مستقبل کے بارے میں ان کا نظریہ بھی زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146