ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔‘‘(سورہ احزاب آیت نمبر ۷۰ )
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘(سورہ البقرہ آیت نمبر ۸۳ )
خوش کلامی کا ثواب صدقہ کے برابر بتایا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’نیک بات کہنی اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔‘‘ (البقرۃ: ۲۶۳) حدیث میں آیا ہے کہ جو دونوں جبڑوں کے بیچ یعنی زبان پر قابو رکھے گا وہ جنت میں جائے گا۔(صحیح بخاری)
اسلام میں جس قدر اہمیت عبادت کو ہے اسی قدر اہمیت اخلاقیات کو بھی ہے۔ اسلام محض چند عقائد و عبادات کا نام نہیں بلکہ یہ ایسا ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر نظر رکھتا ہے۔ اس نے جہاں مسلمانوں کو اخلاقیات کی تعلیم دی وہاں ان کو فطری آداب بھی سکھائے۔
دینِ اسلام کے تعلیم کردہ آداب گفتگو میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نرمی اور خوش کلامی کا پہلو اس میں نمایاں ہو۔ گفتگو سے انسان کی خصلت و طبیعت، اخلاق و کردار، اچھے اور برے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا میں جھگڑے اور فسادات زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ انسان اگر اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر ترش کلامی سے اجتناب کرے اور گفتگو کے دوران خوش اخلاقی اور خوش کلامی کے اسلامی آداب کو اپنا شعار بنائے تو نہ صرف گھریلو فساد اور جھگڑوں میں بہت حد تک کمی ہوسکتی ہے بلکہ تمام کام خوش اسلوبی اور عمدگی سے انجام پاسکتے ہیں۔
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کے پاس بھیجا تو ہدایت فرمائی کہ’’ اس سے نرمی سے بات کرنا۔‘‘ (طٰہٰ: ۴۴) انسان کو اظہارِ مطلب کے لیے زبان عطا ہوئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ گفتگو کا مقصد و معنی درست ہوں، پھر اُن کے اظہار کا طریقہ مناسب ہو۔ اگر کوئی مخاطب ایسا ہو جو ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک میں کمی کرے تو اسلام کی ہدایت ہے کہ ایسے جاہل کا جواب بھی تلخ نہ دیا جائے بلکہ خوش کلامی سے جواب دیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب ناسمجھ ان کو مخاطب کریں تو وہ جواب میں سلامتی کی بات کہیں۔‘‘ (سورہ الفرقان ،آیت نمبر: ۶۳)
آپﷺ کی سیرت پاک میں حسن اخلاق اور خوش گفتاری کے پہلو سرفہرست اور تابناک نظر آتے ہیں۔ فیضانِ نبویؐ ہی کا خوشگوار اثر تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے کہ درندہ صفت انسان فرشتہ صفت انسان بن گئے۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی ہمارے عقائد کی جان اور روح ایمان ہے، جس کی بدولت ایک مثالی معاشرے کی تخلیق میں مدد ملتی ہے۔ ایک دن ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کامل اسلام کس مسلمان میں ہے؟
آپؐ نے فرمایا:’’اس مسلمان میں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔‘‘
اسلامی آداب گفتگو میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی کو گفتگو حسبِ ضرورت کرنی چاہیے کیونکہ احادیث میں ایسے لوگوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے جو فضول باتیں کرتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپؐ نہ تو عادتاً سخت گو تھے اور نہ ہی کسی سے سختی سے پیش آتے تھے۔ طبیعت میں انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے۔ کسی سے سخت بات کرنی پڑتی تو بھی اشارہ کنایہ میں نرمی سے سمجھاتے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کی خوش کلامی ہمارے لیے ایک اعلیٰ مثال ہے۔
——