حضرت سیدنا ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص جماعت سے بالشت بھر جدا ہوا، اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے نکال دیا۔‘‘ (احمد، ابوداؤد)
اس حدیثِ نبویؐ میں مسلمانوں کو باہم متحد (یعنی ایک جماعت کی صورت میں) رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی الگ نہ ہوں۔ کیونکہ اگر وہ مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوئے تو ان کا یہ الگ ہونا ایسا ہی ہے جیسے وہ اسلام کے دائرے سے باہر نکل گئے۔
مسلمانوں کا جماعت (یعنی وسیع تر برادری) سے منسلک رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ میری امت کی اکثریت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ گویا یہ بات امت مصطفوی کی خصوصیات میں سے ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ امت کے افراد اعمال و کردار کے اعتبار سے بگاڑ کا شکار ہوجائیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کسی گمراہی پر متفق اور مجتمع ہوجائے۔ یہ امتِ محمدیہ ﷺ پر اللہ تعالیٰـ کا انتہائی کرم ہے کہ وہ بحیثیت جماعت ہمیشہ ہدایت اور نیکی پر متحد اور مجتمع رہے گی، اس لیے حضورﷺ نے مسلمانوں کو تاکید فرمائی: ’’تم جماعت کو لازم پکڑو، (اس لیے کہ) جماعت پر اللہ (کی حفاظت) کا ہاتھ ہے۔‘‘
مسلمانوں کی جماعت سے نکل جانے والے کا کیا حشر ہوتا ہے اس کے بارے میں حضورﷺ نے ایک مثال دے کر مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ شیطان آدمی کے لیے بھیڑیا ہے۔ جیسا کہ بکری کا (دشمن) بھیڑیا ہوتا ہے جو موقع ملتے ہی اس بکری کو اٹھا لے جاتا ہے، جو ریوڑ سے بھاگ نکلی ہو، یا ریوڑ سے الگ ہوگئی ہو، یا ریوڑ کے کنارے پر ہو۔ اس لیے (اے مسلمانو!) تم اپنی (حفاظت کے لیے ہمیشہ) جماعت کے ساتھ رہو۔ ‘‘(عن معاذ بن جبلؓ)
جماعت کے ساتھ منسلک رہنے سے ہر مسلمان بیرونی خطروں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ اس کے قلب کو ہر وقت یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اس کارگاہِ حیات میں وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ ہے لہٰذا کوئی دشمن اس پر حملہ آور ہوکر اسے نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
اس میں شک نہیں کہ کسی مسئلے پر امت کا سو فیصد متفق ہونا یا ایک رائے رکھنا ایک دشوار امر ہے، کیونکہ اختلاف رائے ایک فطری اور منطقی عمل ہے۔ اختلافِ رائے کے موقعوں پر حضورﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ امت مسلمہ کی بڑی اکثریت (جماعت) کے ساتھ رہیں، اور ایمان کی پیروی کریں کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت شر و فساد اور ضلالت و گمراہی پر کبھی جمع نہیں ہوگی۔ اس بات کی وضاحت حضورﷺ کی اس حدیث سے بخوبی ہوتی ہے۔ فرمایا:
’’کسی مسئلے پر دو افراد کا ایک کے مقابلے میں جمع ہونا محفوظ تر ہے۔ اور اسی طرح چار، تین کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ پس تم پر اکثریتی جماعت کی پیروی لازم ہے، کیونکہ اللہ رب العزت میری امت کو سوائے ہدایت کے کسی غلط بات پر جمع نہیں ہونے دے گا۔‘‘ (مسند احمدبن حنبلؓ)
حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
حرز جاں کن گفتۂ خیر البشر
ہست شیطان از جماعت دور تر
’’اللہ کے رسول کا یہ قول حرزِ جان بنالو کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے۔‘‘
رحمت عالم ﷺ نے عامۃ المسلمین کو تفریق سے بچانے اور باہم متحد رکھنے کا یہی طریقہ تجویز فرمایا ہے کہ وہ ہر حال میں جماعت سے منسلک رہیں۔ حضورﷺ نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے کو کفر کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ دینِ مصطفوی کا منشا یہ ہے کہ مسلمان ایک متحدہ ملت کی حیثیت سے زندگی گزاریں اور باہمی اشتراک و تعاون سے اس عظیم فریضہ کو انجام دیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ملتِ واحد بنا کر اٹھایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’اے مسلمانو! سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور منتشر نہ ہو اور یاد رکھو، اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ (آل عمران:۰۳ ۱)
ہماری ملی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اتحادو اتفاق سے اپنا رشتہ توڑا ان کی ہوا اکھڑ گئی، ان کی ساکھ بگڑ گئی، اور وہ عزت و وقار سے محروم ہوگئے۔ جس طرح کہ آج کل ان کی ہوا اکھڑی ہوئی ہے۔ ان کی ساکھ بگڑی ہوئی ہے اور وہ عزت و وقار سے محروم ہوگئے ہیں۔
اللہ کی آخری کتاب ہدایت تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیتی ہے۔ حضورﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جس طرح دیوار کی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے مل کر مضبوط قلعہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی جماعت بھی ایک (مضبوط) قلعہ ہے اور یہ قلعہ اس وقت تک بچا رہے گا (یعنی دشمنوں سے محفوظ رہے گا) جب تک ایک اینٹ دوسری اینٹ سے ملی رہے گی۔ جب یہ اینٹ اپنی جگہ سے کھسکے گی، تو پوری دیوار دھڑام سے زمین پر آجائے گی۔ آج استعماری قوتوں کی سازش کے باعث مسلمان جس ابتلاء سے گزر رہے ہیں، یہ خاص طور پر مسلمان ملکوں کے سربراہوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ کاش وہ سر جوڑ کر بیٹھیں، خود متحد ہوں اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی باہم متحد کریں تاکہ یہ بکھری ہوئی اینٹیں یعنی منتشر مسلمان مل کر ایک مضبوط قلعہ بنیں، ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ۔
——