قحط پڑتا ہے تو لاکھوں لوگ بھوک سے مرنے لگتے ہیں اور قحط کی خبر ہر اعتبار سے عالمگیر ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ قحط ایک انتہائی غیر معمولی صورتِ حال ہے اور بھوک سے لاکھوں افراد کا ہلاک ہوجانا دل دہلانے والا ہے۔ لیکن پوری دنیا میں مطالعے کا قحط پڑگیا ہے اور اس سے ہر سال لاکھوں افراد روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی موت کا شکار ہورہے ہیں لیکن یہ صورتِ حال ابھی تک اخبارات میں ایک کالم کی خبر بھی تخلیق نہیں کرسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جسمانی غذا، اس کی قلت اور اس قلت کے مضمرات کو سمجھتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہیں کہ انسان کو جس طرح جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی غذا بھی درکار ہوتی ہے اور مطالعہ اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ معاشرے میں جن لوگوں کو حقیقتِ احوال کا تھوڑا بہت انداز ہ ہے انھوں نے مطالعے سے گریز اور اس کو نظر انداز کرنے کے سلسلے میں طرح طرح کے عذر تراش لیے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عذر یہ ہے کہ کتابیں، رسالے اور اخبارات مہنگے ہوگئے ہیں۔ اور یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن اس حوالے سے جب ہم اپنے معاشرتی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہولناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم دو کروڑ کا گھر خریدتے ہیں،لیکن اس میں لاکھوں کی کئی کئی گاڑیاں رکھتے ہیں۔ اس گھر میں زندگی کی مہنگی آسائش موجود ہوتی ہیں مگر چھوٹا سا کتب خانہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایک وقت وہ تھا جب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھروں میں بھی سو ڈیڑھ سو کتابیں ضرور ہوتی تھیں، مگر اب ہماری جھونپڑیوں میں تو کیا ’’محلوں‘‘ میں بھی کتب خانہ نہیں ہوتا۔ ہم پانچ ہزار کا جوتا خریدتے ہیں اور اسے سستا سمجھتے ہیں، لیکن ۲۰۰ روپے کی کتاب کو ہم مہنگا کہتے ہیں۔ اس صورتِ حال نے معاشرے میں ’’مطالعے کا قحط‘‘ پیدا کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قحط سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ برصغیر کی معاشرت میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ آج ہمارا کوئی ادبی رسالہ چند سو یا چند ہزار سے زیادہ شائع نہیں ہوتالیکن ساٹھ ستر سال پہلے اردو کے بعض ادبی جرائد کی ماہانہ اشاعت ۷۵؍ ہزار سے زیادہ تھی۔ اس وقت بعض شاعر، ادیب اتنے مقبول تھے کہ ان کو فلمی اصطلاح میں ’’سپر اسٹار‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں پانچ دس ہزار افراد کے مشاعرے چھوٹے یا اوسط درجے کے کہلاتے تھے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس فضا کا سب سے بڑا سہارا ہماری زبانی روایت Oral Traditionتھا۔ اس زمانے میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں کہانیاں سنانے والا، لہک لہک کر نظمیں پڑھنے والا اور پہیلیاں بوجھنے والا نہ ہو۔ اس زمانے کی کہانیاں متنوع ہوتی تھیں۔ ان میں مذہبی اور تاریخی قصے تھے۔ بادشاہوں، جنوں اور پریوں کی کہانیاں تھیں۔ ان میں انسان کی روح، قلب، ذہن اور تخیل کے لیے بہت کچھ تھا۔ ان قصوں اور کہانیوں سے بچوں میں مذہبیات اور ادب کا ذوق پیدا ہوجاتا تھا اور بچے اس ’’سمعی علم‘‘ کے ساتھ آسانی سے کتاب کی محبت میں گرفتار ہونے کے قابل ہوجاتے تھے۔ اس گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں معاشرے میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنا ہے تو اپنی کہانیاں کہنے، نظمیں سنانے اور پہیلیاں بوجھنے کی زبانی روایت Oral Tradition کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ یعنی ہمارے والدین کو اپنے بچوں، دادا دادی اور نانا نانی کو اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں اور بڑے بہن بھائیوں کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک بار پھر کچھ نہ کچھ وقت نکالنا ہوگا۔
اس سے صرف مطالعہ کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوگا بلکہ خاندانی مراسم بھی بہتر ہوں گے اور ان میں محبت و تعلق کے خیالات و جذبات کی ’’نئی سرمایہ کاری‘‘ بھی ہوگی۔ غورکیا جائے تو ہماری زبانی روایت یا Oral Traditionمیں دو بڑی خوبیاں تھیں، وہ برجستہ بھی تھا اور مرتب یا institutionalizedبھی۔
مطالعے کے رجحان کو مزید مرتب اور منظم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم مطالعے کو اپنے پورے تعلیمی نظام کا جزولاینفک بنادیں۔ اس کی روایتی صورت تو یہ ہے کہ ہمارے معمول کے تدریسی نظام میں لائبریری کے لیے کچھ وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس وقت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور ہفتے میں کم از کم تین پیریڈ لائبریری کے لیے مختص ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر اسکول، ہر کالج اور ہر یونیورسٹی میں ایک اچھا کتب خانہ موجود ہو۔ تاہم مطالعے کو تعلیمی نظام کا ناگزیر حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پانچویں جماعت سے کتاب بینی ایک لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرائی جائے۔ اس مضمون میں بچوں کو کسی بھی موضوع بالخصوص ادبی نوعیت کی تین کتابیں پڑھنا اور پھر ان پر ایک تبصراتی اور تجزیاتی مضمون لکھنا ضروری ہو۔ بڑی جماعتوں بالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر کتابوں کی تعداد مزید بڑھادی جائے اور طالب علموں کے لیے ضروری ہو کہ وہ کتابوں پر لکھے ہوئے اپنے مضمون کو پوری جماعت کے سامنے سنائیں اور اس پر اگر کوئی اعتراض ہو تو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔ اس طرح مطالعہ نہ صرف یہ کہ ابتدا ہی سے بچوں کی ’’عادت‘‘ بن جائے گا بلکہ ان کی فہم کی سطح بھی بلند ہوگی اور ان کی اظہار کی تمام صلاحیتیں بھی فروغ پائیں گی۔
ہر سطح کے تعلیمی نظام میں تقریر اور تحریر کے مقابلوں کو اس طرح ادارتی صورت دینے کی ضرورت ہے کہ ان مقابلوں کی پوری عمارت مطالعے پر کھڑی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے تقریری مقابلوں میں ساری توجہ زورِ بیان پر دی جاتی ہے۔ حالانکہ خطابت میں اصل چیز صداقت اور مواد ہے۔ جس تقریر میں صداقت نہیں اور جس تقریر میں مواد کی سطح بلند نہیں وہ بے کار بلکہ چیخ و پکار ہے۔ ہمارے تقریری و تحریری مقابلوں کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ ان کے لیے بہت چھوٹے انعامات اور اعزازات رکھے جاتے ہیں، حالانکہ ان کے لیے انعام اور اعزاز اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ شرکاء مقابلہ جیتنے کے لیے اپنے پورے وجود کی قوت صرف کردیں۔ ایسے مقابلے اگر ضلعی، صوبائی اور قومی سطح پر منعقد ہونے لگیں تو ان کے معیار اور ساکھ دونوں میں اضافہ ہوگا اور مطالعہ طالب علموں کے لیے محض ’’مشغلہ‘‘ یا Part Timeنہیں رہے گا، ایک ’’اہم ضرورت‘‘ بن جائے گا۔
ہماری قومی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس میں طاقت، دولت، شہرت اور ان کی اقدار کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ یہ چیزیں چند شعبوں مثلاً سیاست، کھیل، اداکاری اور گلوکاری سے وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ چنانچہ نئی نسل کے ہیروز یا تو کھلاڑی ہیں یا اداکار، گلوکار یا سیاست دان۔ اس منظر نامے میں نہ کہیں علم موجود ہے نہ صاحبِ علم۔ چنانچہ ہماری نئی نسلوں کے لیے علم اور تخلیقی سرگرمیوں میں کوئی کشش نہیں۔ اس صورتِ حال کی تبدیلی کے لیے ہیروز کی تبدیلی اور ہیروز کی فہرست میں ترجیحات کے اعتبار سے ردوبدل ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اقتدار اہلِ علم کے ہاتھ میں ہو، تاکہ علم اور طاقت کی یکجائی اجتماعی زندگی کا مرکزی حوالہ بن جائے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار اس لیے بنیادی ہے کہ مثالیوں یا Idealsکے حوالے سے ان کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے۔ اخبارات کو طے کرنا ہوگا کہ اگر وہ کھلاڑیوں، اداکاروں اور گلو کاروں کے لیے ہفتے میں ایک صفحہ مختص کرتے ہیں تو انھیں اہلِ علم کے لیے ہفتے میں کم از کم تین صفحات وقف کرنے ہوں گے، یا اگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہفتے میں کھلاڑیوں اور اداکاروں کو ایک گھنٹہ دیتے ہیں تو انھیں اہلِ علم کے لیے تین گھنٹے صرف کرنے ہوں گے۔ ہیروز کی اس پیشکش میں پورے معاشرے کے لیے ایک پیغام ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہم پورے معاشرے کو علم اور مطالعہ سے منسلک کرسکیں گے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مطالعے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کررہی ہیں۔ کتابوں کی قیمتیں کم کرنے کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ ہم اپنے ملک میں ہی کاغذ پیدا کرنے لگیں، دوسرے یہ کہ اشاعتی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ہر قابلِ ذکر کتاب کے مجلد یا Hard Boundاور غیر مجلدPaper Backایڈیشن شائع کریں تاکہ کم آمدنی والے افراد بھی غیر مجلد کتاب خرید کر اپنے شوقِ مطالعہ کی تسکین کرسکیں۔ کتابوں کی قیمتوں کو کم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں شائع ہونے والی کتابوں کی شرحِ منافع کی حد مقرر کردی جائے۔
مطالعے کے فروغ کی ایک صورت یہ ہے کہ کتاب کو معاشرے کا سب سے بڑا اور قیمتی ’’تحفہ‘‘ بنادیا جائے۔ یہاں تک کہ معاشرے میں کتاب کا تحفہ دینا اور لینا فخر اور مسرت کی بات بن جائے۔ لیکن ان تمام کاموں سے پہلے معاشرے کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مطالعے کے فوائد بے شمار ہیں۔ انسان کے مشاہدات و تجربات اور خیالات بہت ہونے کے باوجود کم ہی ہوتے ہیں، لیکن مطالعہ مشاہدات، تجربات اور خیالات کا سمندر ہے، اور جو سخص کتاب پڑھتا ہے، یہ سمندر اس کی ذاتی متاع بن جاتا ہے۔ مطالعے کی اہمیت یہ ہے کہ صرف ایک کتاب کا اچھی طرح مطالعہ انسان کو کچھ سے کچھ بنادیتا ہے۔ انسان جب کتاب پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ کسی اور طرح کا آدمی ہوتا ہے، اور جب وہ کتاب ختم کرتا ہے توکسی اور طرح کا شخص بن چکا ہوتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک کتاب انسان کو اتنا بدل سکتی ہے تو سو کتابیں انسان کو کس طرح تبدیل کرسکتی ہیں!
مطالعے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو مرتب اور منظم انداز میں سوچنا اور اظہار کرنا سکھاتا ہے۔ اور انسان کی کند ذہنی اور گونگا پن دور ہوجاتا ہے۔ مطالعہ کند ذہن شخص کو اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت عطا کردیتا ہے، اوسط ذہنی صلاحیت کے حامل شخص کو ذہین بنادیتا ہے۔ اور ذہین شخص کو مطالعہ عبقری یا Geniusبنادیتا ہے۔ مطالعہ خود آگہی اور ماحول شناسی کا ذریعہ ہے اور ان دونوں چیزوں کے بغیر انسان اپنی زندگی کی معنویت کا تعین نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک اچھی اور بڑی کتاب سے زیادہ سستی چیز کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اچھی اور بڑی کتاب دو سو روپے کی کیا دو ہزار، دو لاکھ یا دو کروڑ روپے کی ہو تو بھی سستی ہے کیونکہ وہ مٹی کو سونا، حیوان کو انسان اور قبیح کو جمیل بناسکتی ہے۔
——