مسجدِ اقصیٰ کے وجود کو خطرہ

عمر اسلم صمدانی

۲۱؍اگست کا دن اس اعتبار سے ہماری معاصر ملی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے کہ آج سے ۴۲؍سال پہلے ۲۱؍اگست ۱۹۶۹ء کو ایک یہودی روہان ڈینس نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی ناپاک جسارت کی تھی، اس لیے کہ یہودیوں کے مطابق یہودی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کو ۲۱؍اگست کو ہی مسمار کرکے اس کی جگہ مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ ۲۱؍اگست کو مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگانے کی یہ واردات نمازِ فجر کے فوراً بعد ہوئی تھی اور اس میں مسجد کا ایک بڑا حصہ جسے مسجد قبلہ کہتے ہیں، جل کر راکھ میں تبدیل ہوگیا۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد قبلہ کے ۴۴۰۰ مربع میٹر رقبے میں سے تقریباً پندرہ سو مربع میٹر ربقہ جل کرراکھ ہوگیا۔ مزید براں اس حادثے میں صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے بنائے ہوئے منبر کا بیشتر حصہ بھی جل کر راکھ ہوگیا۔ کیونکہ مسجدِ اقصیٰ کو جلانے کی یہ واردات ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئی تھی۔ اس لیے اسرائیل کی صہیونی حکومت نے فائر برگیڈ کو مکمل طور پر مسجدِ اقصیٰ میں لگنے والی آگ بجھانے سے منع کردیا۔ آخر کار مسجد سے خاصے فاصلے پر واقع فلسطینی شہروں رام اللہ اور الخلیل سے آنے والی فائر بریگیڈ کی گاڑیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں لگنے والی آگ کو بجھایا، لیکن اس وقت تک مسجدِ اقصیٰ اور اس میں واقع مسجد قبلہ کا بیشتر حصہ جل کر راکھ میں تبدیل ہوگیا تھا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اسرائیل کی جدید صہیونی ریاست کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ چنانچہ مئی ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کی جدید صہیونی ریاست قائم کی گئی تھی تو اس کے دو بنیادی مقاصد قرار دیے گئے تھے۔
اولا: مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا۔
ثانیاً: اسرائیل کی حدود ایک طرف دریائے فرات سے دریائے نیل تک اور دوسری طرف صحرائے سینا سے مدینہ منورہ تک وسیع کرکے عظیم تر اسرائیل کے نام سے ایک عظیم الشان صہیونی ریاست قائم کرنا جس کا مقصد عالمی صہیونی طاقتوں کے مفادات کی نگہداشت کرنا ہو۔
یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ یہی دو مقاصد تھے جن کے لیے عالمی صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈر ہرزل نے ۱۹۰۰ء کے اوائل میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ سے مل کر پیش کش کی تھی کہ اگر وہ فلسطین کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کردیں تو انھیں اس کے بدلے میں بہت زیادہ دولت پیش کی جائے گی جس سے وہ اپنی حکومت کے تمام مصارف اور قرضوں کی ادائیگی بھی کرسکیں گے، انھیں اس بات کی بھی پیش کش کی گئی کہ اگر وہ ان کے مطالبہ کو مان لیں تو وہ اس کے لیے ان کو ذاتی طور پر بھی اتنی دولت دیں گے کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ سلطان عبدالحمید نے تھیوڈر ہرزل کی اس پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور فرمایا کہ فلسطین ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہے بلکہ ملتِ اسلامیہ کی ملکیت ہے اور وہ اس کی حفاظت اپنے خون سے کریں گے۔ تھیوڈر ہرزل نے سلطان کا یہ ایمان افروز جواب سنا تو اس نے انھیں وہیں دھمکی دی کہ وہ اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ چنانچہ اسی دھمکی کے مطابق ایک صہیونی آلہ کار مصطفی کمال کے ذریعے جس کا اپنا تعلق یہودی قبیلے دونمہ سے تھا، سلطان عبدالحمید کا تختہ الٹ کر خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا اور یوں فلسطین پر صہیونی قبضے کی راہیں ہموار ہوگئیں۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۸ء میں جب فلسطین میں اسرائیل کی ناجائز حکومت معرض وجود میں آئی تو اس کے ناجائز قیام میں برطانیہ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے بھی بھرپور رول ادا کیا اور اس حقیقت کو جانتے ہوئے ادا کیا کہ یہ ایک ناجائز حکومت ہے اور اس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔
۱۹۴۸ء میں اپنے قیام کے بعد اسرائیل کی ناجائز حکومت نے اپنی ساری کوششیں مختلف حیلوں بہانوں سے انہی دو مقاصد کے لیے وقف کردیں۔ مزید بدقسمتی سے ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں عربوں کی شکست کے نتیجے میں بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔ اور یوں پورا بیت المقدس اسرائیل کے ناجائز تسلط میں آگیا۔ جس کے بعد اسرائیل کے لیے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے مغربی استعماری طاقتوں کے تعاون سے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنا نسبتاً آسان ہوگیا۔ ان میں سے دو ہتھکنڈے بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔
اولا: مختلف حیلوں بہانوں سے مسجدِ اقصیٰ اور اس کی ملحقہ عمارتوں کو گرانا یا مسمار کرنا تاکہ بتدریج ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی راہیں ہموار ہوسکیں اور ۲۱؍اگست ۱۹۶۹ء کو مسجدِ اقصیٰ کو جلانے کی کوششیں اسرائیل کے انہی ہتھ کنڈوں کی ایک کڑی تھی۔
ثانیا: ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جن فلسطینی مہاجرین کو ترک کرنا پڑا، ان کی جگہ بڑی تعداد میں یہودی آبادکاروں کی بستیاں قائم کرنا تاکہ عظیم تر اسرائیل کے قیام کی راہیں ہموار ہوسکیں۔
مسجدِ اقصیٰ میں آتش زنی کے اس افسوس ناک واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ یا فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف عربوں کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ قبلہ اول کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے ہر مسلمان کا مسئلہ ہے۔ مسجدِ اقصیٰ وہ مبارک مقام ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ سفر معراج کے موقع پر عرش پر تشریف لے گئے تھے۔ یہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے، یہ کس قدر افسوس ناک بلکہ شرمناک بات ہے کہ اسرائیل کے چند لاکھ متعصب یہودی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی موجودگی میں مسجدِ اقصیٰ کو جلانے یا گرانے کی جسارت کریں۔ اس سلسلے میں دوسری تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسرائیل کی صہیونی حکومت ۱۹۴۸ء کے بعد بالعموم اور ۱۹۶۷ میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد بالخصوص مسلسل ایسے اقدامات، سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے، جن کا مقصد بتدریج مسجدِ اقصیٰ کو منہدم کرکے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے۔ بلکہ اس کے لیے انھوں نے بجٹ بھی مخصوص کردیا ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصہ باب المغاربہ کا انہدام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ابھی تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ انھوں نے مسجدِ اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے سرنگیں کھود کر کھوکھلا کرنا شروع کردیا ہے تاکہ خدانخواستہ مسجد اقصیٰ خود بخود منہدم ہوجائے اور وہ اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرسکیں۔
وقت آگیا ہے کہ مسلم امت کے حکمراں اور عوام اس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے آگے بڑھیں، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے:
(۱) دنیا کے تمام مسلمان حکمران اور عوام اس حقیقت کو پوری طرح شعوری طور پر تسلیم کریں کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف عربوں کا مسئلہ ہے بلکہ یہ قبلہ اول کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے ہر مسلمان کا مسئلہ اور ان کے ایمان کا حصہ ہے۔
(۲) او آئی سی کا فوراً سربراہی اجلاس بلایا جائے جس میں اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے انہدام اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے مذموم منصوبے سے باز آئے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسلامی دنیا اس کے خلاف سفارتی اور معاشرتی کارروائی کرے۔
(۳) تمام مسلم ممالک امریکہ پر بھرپور سفارتی دباؤ ڈالیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالے جن میں سرِ فہرست اسرائیل کی ۱۹۶۷ء سے پہلے کی حدود تک کی واپسی ہے۔
(۴) اسرائیل کی مسجدِ اقصیٰ کے خلاف کسی بھی کارروائی پر مسلم امت نظر رکھے اور کسی بھی سازشی عمل کی اطلاع ملنے پر پوری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج ہو تاکہ اسرائیل اپنی من مانی سے باز آسکے۔
(۵) اخبارات و رسائل میں خصوصی ضمیمے شائع کرکے اس افسوسناک سانحے کی سنگینی کو پوری قوت سے واضع کیا جائے اور امت میں اس کے سلسلے میں بیداری لائی جائے۔
(۶) اخبارات کے علاوہ تمام ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا سے اس موقع پر خصوصی پروگرام پیش کرکے دنیا کو خصوصاً مسلم امہ کی رائے عامہ کو بیدار اور منظم کیا جائے۔
(۷) علماء کرام اور مساجد کے خطباء اس موقع پر اپنے خطبوں اور تقاریر میں مسئلہ فلسطین خصوصاً قبلہ اول کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ملی شعور کو اجاگر کریں اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے مذموم یہودی منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔
ہمیں یقین ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ہم بحیثیت مسلمان قبلہ اول کی آزادی اور مسجدِ اقصیٰـ کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ادا کرسکیں گے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146