یونیفارم تبدیل کرتے ہی ماہا کچن میں آئی۔
’’آہا… کڑی کی خوشبو آرہی ہے… واہ مزہ آگیا۔‘‘ ہاتھ دھوتے ہی اس نے پلیٹ میں روٹی رکھی، کڑی لی، اور ٹی وی لاؤنچ میں چلی گئی۔
اس کی پسندیدہ کارٹون سیریز ٹام اینڈ جیری چل رہی تھی۔ صوفے پر ہی وہ ٹانگیں پسار کر بیٹھ گئی۔ نظریں اسکرین کی طرف تھیں اور ہاتھ منہ میں نوالہ لے جانے بلکہ اندر لے جانے میں مصروف تھے۔ ابو اندر داخل ہوئے… ان سے یہ منظر دیکھ کر رہا نہ گیا، بولے:
’’ماہا بیٹے! یہ کھانے کا غلط طریقہ ہے اور غیر انسانی بھی۔ کھانا دھیان سے کھاؤ، بعد میں کارٹون دیکھ لینا۔‘‘
ماہا نے جلدی جلدی بڑے بڑے دوچار نوالے لیے اور پھر اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔
ابوماتھے پہ بل ڈالے کچن میں پہنچے اور امی سے کہنے لگے: ’’آخر اسے منع کیوں نہیں کرتیں، غلط حرکت سے میرا تو خون جل جاتا ہے۔ کتنی بڑی ہوگئی ہے لیکن…!‘‘
امی نے جواب دیا: ’’میں بچوں پر اتنی سختی کی قائل نہیں ہوں۔ اس طرح بچے ڈھیٹ بن جاتے ہیں۔‘‘
’’سبحان اللہ! کیا منطق ہے۔ کھانا کھانا ایک عبادت ہے، اگر دھیان اور سکون سے کھایا جائے، ہر لقمے پر غور کیا جائے، بنانے والے نے کس کاریگری سے ہماری پیٹ پوجا کا بندوبستہ کیا ہے… کائنات کی ہر شے کو محض ایک لقمے کے لیے مصروفِ عمل رکھا ہے… اور اس بارے میں بتانے سے ماہاڈھیٹ ہوجائے گی؟‘‘ وہ قدرے غصے میں تھے۔
’’افوہ آپ تو لٹھ لے کر پیچھے پڑجاتے ہیں۔ اگر گھر میں بچوں کو ان کی بات مان کر یہ احساس دلائیں کہ ہم ان کے خیرخواہ ہیں تو یہ کیا بری بات ہے؟‘‘ امی بھی بحث کے موڈ میں تھیں۔
’’خیرخواہی کسے کہتے ہیں؟ اگر منہ کے بجائے ناک میں لقمہ چلا جائے، کھانے میں نقصان دہ چیز ہو جو بغیر دیکھے لقمہ لینے سے معدہ میں پہنچ جائے، اپنی انگلیاں غلطی سے چبا ڈالے… یہ خیر خواہی ہے؟‘‘ اب ابو کو سخت غصہ آگیا تھا۔
’’آپ سے بحث کون کرے!‘‘ امی نے لاجواب ہوکر کان لپیٹ لیے۔
٭٭٭
’’ماہا ذرا میری بات سننا۔‘‘ اس کی امی نے اسے آواز دی۔
’’اچھا آتی ہوں، تھوڑا سا ہوم ورک رہ گیا ہے۔‘‘ ماہا نے جواب دیا۔
امی کی ٹانگ میں دو تین دن سے شدید درد تھا، آج وہ دوائی لینے ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں مکمل آرام اور ٹانگ سیدھی رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
وہ کھانے کے بعد دوائی لینا چاہ رہی تھیں، جب کہ دوائی، ان کے کمرے میں میز کی دراز میں پڑی تھی۔
اتنے میں ابو وہاں پہنچ گئے۔ ’’کیا بات ہے، ماہا کو کیوں باربار ڈسٹرب کررہی ہو؟‘‘
’’مجھے دوائی، اندر کمرے سے منگوانا ہے…!‘‘
’’میں لے آتا ہوں‘‘ابو تیزی سے اندر گئے اور د وا لے آئے۔ باہر ڈور بیل سن کر ابو دروازے کی طرف چلے گئے۔
امی انتظار میں تھیں کہ کب کوئی آئے اور پانی کا گلاس تھمائے اور وہ دوا لینے کے قابل ہوں۔ کام والی ماسی بھی کب کی واپس جاچکی تھی اور درد کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔
امی نے پھر پکارا : ’’ہے کوئی جو پانی لادے؟‘‘
خاموشی ہی خاموشی ’’ارے کوئی پانی لائے۔‘‘
آخر تھک ہار کر وہ درد والی ٹانگ کو گھسیٹتے گھسیٹتے پانی لانے اور پینے میں کامیاب ہوئیں۔ اتنا سا چلنے سے ٹانگ کے درد میں اضافہ ہوگیا تھا اور سانس بھی بے طرح پھول رہا تھا۔
موبائل پر میسج ٹون سن کر امی نے فون اٹھایا اور دیکھا وہ ماہا کی دوست فریحہ کا میسج تھا۔ انھوں نے آواز دی:
’’ماہا، فریحہ کا میسج ہے… اور موبائل فون میرے پاس ہے۔‘‘
ماہا ایک لمحہ میں پلک جھپکتے ہی بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوگئی۔
فریحہ اس کی بہترین دوست تھی جو چند ماہ قبل اپنے ابو کے ٹرانسفر کی وجہ سے فیصل آباد شفٹ ہوگئی تھی۔
’’کہاں ہے؟ کہاں ہے موبائل… کہاں ہے موبائل…‘‘ بھاگنے کی وجہ سے ماہا کا سانس پھول رہا تھا اور وہ موبائل فون ہاتھ میں لے کر تیزی سے بٹن پریس کررہی تھی۔ شاید جواب لکھ رہی ہوگی۔
امی تو بس ایک ہی بات سوچ رہی تھیں: یہ قیامت کی نشانی ہے، والدین سے زیادہ دوست عزیز ہوجائیں گے اور یہ ایسا غلط بھی نہیں… دوست کے میسج کی ٹون سنتے ہی ماہا کے تاثرات سے اس حدیث کے سو فیصد صحیح ہونے کا یقین ہوگیا تھا۔ ماں جائے بھاڑ میں بے شک سو دفعہ بلاتی مرجائے۔
——