والدین کے بارے میں گفتگو کرنا بہت آسان ہے۔ مگر عملاً خدمت کرنا مشکل ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان اور صبر و برداشت چاہیے۔ سب سے بڑھ کر اولاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین سے محبت آمیز، نرم لہجے میں بات کرے جیسا کہ قرآن میں ہے (سورہ بنی اسرائیل) انھیں اف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو۔ تمہارے کندھے ان کے آگے جھکے رہیں۔ ہمیشہ نرمی سے بات کرو۔ پھر سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ ماں کی تکلیف کا احساس دلاتے ہیں کہ اس نے تجھے کس مشکل سے جنم دیا۔ اپنا دودھ پلایا، نازو نعم سے پرورش کی۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری فرماں برداری کے بعد تجھے لازم ہے کہ اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری کر، جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا، والدین سے حسنِ سلوک اور احسان کو بھی لازمی قرار دیا۔ صرف قرآن بلکہ احادیث سے بھی ثابت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی اس کی تاکید کی۔ اور نافرمان اولاد پر لعنت کی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنگ کے موقع پر جہاد کے لیے جب لوگ آتے تھے تو آپ ﷺ یہ پوچھتے تھے کہ کسی کے والدین بوڑھے تو نہیں ہیں، جن کے والدین بوڑھے ہوتے تھے ان کو اجازت نہیں ملتی تھی۔ حکم دیتے تھے کہ تمہارے لیے والدین کی خدمت جہاد سے افضل ہے۔
اویس قرنی کو سب ہی جانتے ہیں کہ وہ عاشقِ رسول تھے پوری زندگی عشق میں تڑپتے گزری۔ مگر حضورﷺ کی زیارت سے محروم رہے کیوں کہ بوڑھی ماں کی خدمت کا فرض ان کے کندھوں پر تھا۔ اللہ تعالیٰ بہت قدردان ہے وہ اپنے نیک بندوں کے درجات بلند کردیتا ہے۔ دنیا میں بھی عزت نصیب ہوتی ہے۔ اور آخرت کے کیا کہنے۔ یہ تب ہی ہوگا جب ہم اللہ پاک کا حکم سامنے رکھتے ہوئے اس کے اطاعت گزار بندے بن جائیں۔ اور حکم خدا کے مطابق والدین کی خدمت کریں۔ آج کی اولاد کل خود والدین بنے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرمانبردار بندوں میں لکھ لے۔ اپنے والدین کا حق اور اپنا فرض سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
——