کالے صاحب

اوپندر ناتھ اشک

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے بنگلے سے باہر نکل کر شری واستو نے رسٹ واچ کی طرف دیکھا، ۸ بجے تھے، اس کے پاس پورا ایک گھنٹہ تھا۔ چپراسی سے معلوم ہوا تھا کہ صاحب ۹ بجے واپس آئیں گے تو کیوں نہ وہ گجانن کو الٰہ آباد میں اپنی آمد کی خوش خبری سْناتا آئے۔ ایک پنتھ دو کاج میں ہمیشہ اس کا اعتقاد رہا ہے بلکہ اگر کسی پنتھ میں دو کے بدلے چار کاج ہوں تو وہ ان سب کو ایک ساتھ نمٹانے سے کبھی نہ چوکتا تھا، یہی سبب تھا کہ چھ سات سال قبل تیس چالیس روپے ماہوار کے کلرک سے ترقی کرکے وہ اس قلیل عرصے میں ڈپٹی کلکٹر ہوگیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ڈپٹی کلکٹر ہونے کے بعد اسی چْستی، چالاکی اور چابک دستی کی بدولت وہ چھوٹے غیر اہم اضلاع کو پھاندتا ہوا الٰہ آباد جیسے اہم اور بڑے ضلع میں تعینات ہوگیا تھا۔
آج ہی صبح اس نے الٰہ آباد میں قدم رکھا تھا اور آج ہی وہ اپنے اعلیٰ افسر کے ہاں حاضری دینے جا پہنچا تھا لیکن ڈی۔ ایم، لکھنؤ سے دورے کے سلسلے میں آنے والے کسی منسٹر کی خدمت میں حاضری دینے گئے ہوئے تھے۔ اس لیے شری واستو کے پاس ایک گھنٹہ خالی تھا۔ گجانن اس کا بچپن کا دوست تھا۔ ایلن گنج میں رہتا اور یونیورسٹی میں لیکچرر تھا۔ یہ سوچ کر کہ وہ ابھی گھر پر ہی ہوگا شری واستو نے اتنے وقت میں اسی کے یہاں ہو آنے کا فیصلہ کیا۔ کچہری کے پاس سے گزر کر وہ سڑک پر آ کھڑا ہوا۔
ایک روز اسی کچہری کا وہ سب سے بڑا حاکم بنے گا۔ یہ خیال آتے ہی فخر سے اس کی ایڑیاں قدرے اٹھ گئیں اور اس کے ہاتھ بشرٹ کے اکڑے ہوئے کالروں پر سے ہوتے دامن پر آ کر رک گئے اور پنجوں پر ایک دو بار زور دیتے ہوئے اس نے آگے پیچھے سے بشرٹ کو درست کیا تبھی اس کی نظر سامنے بارہ دری کے قریب ۲ رکشے والوں پر پڑی جو غالباً اسی کے بارے میں بحث کرتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ ’’رکشا‘‘ اس نے صاحبی انداز سے گلے میں الفاظ کو قدرے امیٹھتے ہوئے آواز دی۔
’’جی حضور!‘‘ دونوں رکشے اس کے سامنے آ کر رک گئے۔
’’کیوں بھئی گھنٹے کے حساب سے چلو گے؟‘‘
’’کہاں جائیں گے؟‘‘ پہلے رکشے والے نے پوچھا۔
’’کہیں بھی جائیں!‘‘
’’کیا گھنٹہ ملے گا؟‘‘
’’جو بھی ریٹ ہوگا۔‘‘
’’روپیہ گھنٹہ لیں گے‘‘
’’دس آنے لیں گے۔‘‘
’’۱۰ آنے ملیں گے۔‘‘
’’اَجی حضور آپ اِدھر آئیے۔‘‘ دوسرے رکشے والے نے ہانک لگائی۔
’’ہاں ہاں، تم لے آئو۔‘‘
اور دوسرے رکشے کے برابر آتے ہی شری واستو اچک کر اس پر بیٹھ گیا۔ بشرٹ کو دونوں طرف سے ذرا کھینچ کر اس نے درست کیا اور پتلون کو قدرے اوپر اٹھالیا تاکہ اس کی کریز خراب نہ ہوجائے۔ وہ پیچھے کی طرف پیٹھ لگا کر آرام سے نہیں بیٹھا۔ اسے خوف تھا کہ بشرٹ مسل نہ جائے۔ ڈی ایم سے ملنے تک وہ اسی طرح خوش پوش اپ ٹو ڈیٹ رہنا چاہتا تھا۔ رکشے پر وہ اس طرح اکڑ کر بیٹھا تھا گویا ڈی ایم سے مصافحہ کرکے ابھی آ کر کرسی پر بیٹھا ہو، سیدھا اکڑا ہوا چاق و چوبند!
رکشے والا خاکی سوٹ پہنے تھا۔ سوٹ بہت میلا بھی نہ تھا، شکل سے بھی وہ عام رکشے والا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ الٰہ آباد کے رکشے والوں میں دیہاتیوں کی کثرت ہوتی تھی۔ فصل کا موسم نہ ہو اور کام سے فرصت ہو تو قرب و جوار کے دیہاتی اپنے لحیم شحیم جسموں پر کھادی کی بنڈیاں اور کمر میں انگوچھے باندھے پوٹلیوں میں ایک وقت کا راشن لیے الٰہ آباد کی جانب چل پڑتے اور شام کو پہنچتے ہیں۔ رات کے لیے رکشا لیتے اور سواری سے کرایہ لے کر ہی دوسرے وقت کا ستو خریدتے ہیں۔
انہی رکشے والے دیہاتیوں کی سہولت کے لیے بہت سے پنواڑیوں نے پان بیڑی سگریٹ کے ساتھ ستو کے تھال بھی سجا رکھے ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے اہرام میں ہری مرچیں گھسی ہوئی عجیب بہار دیتی ہیں۔ یہ دیہاتی رکشے والے رکشا چلاتے چلاتے ذرا وقت پاتے ہیں تو سیر آدھ سیر ستو لے کر دکاندار ہی کی تھالی میں گوندھ کر لوندا سا بنا لیتے ہیں اور ہاتھ پر رکھ کر نمک مرچ کی مدد سے حلق سے اتار کر قریب کے کسی نل سے دو گھونٹ پانی پی لیتے ہیں۔ کہتے ہیں گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس روایتی گیدڑ اور ان دیہاتیوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دن دن بھر اور اکثر دن اور رات بھر رکشا چلا کر جہاں وہ سال سال بھر کا لگان کما کر لے جاتے ہیں وہاں پھیپھڑوں کو بھی دق کے جراثیم کی آماجگاہ بنا لیتے ہیں۔
رکشا چلاتے چلاتے ان کی پسلیاں نکل آئی ہیں، پھر بھی گرانی کے اس زمانے میں بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ رکشا کھینچنے پر مجبور ہیں۔ شری واستو الٰہ آباد ہی کا رہنے والا تھا۔ وہ ان دونوں طرح کے رکشے والوں سے بخوبی واقف تھا لیکن اس کا یہ رکشے والا اسے ان دونوں سے سے جدا نظر آیا۔ اِدھر رکشے والوں کی ایک تیسری قسم بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ رونالڈکولمن کی طرح باریک سی مونچھیں رکھے فوجی پینٹ یا بشرٹ یا صرف ٹوپی پہنے جنگ سے فرصت پائے ہوئے بے کار فوجی رکشا چلانے لگے ہیں۔
رکشا چلاتے وقت ان کا سر کا ترچھا پن سائیکل کی گدی پر بیٹھے ہوئے ان کی کمر کی اکڑ اور پیڈل گھماتے ہوئے باہر کی طرف ان کے گھٹنوں کا پھیلائو پہلی ہی نظر میں ان کے فوجی ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ ہونٹوں کے داہنے یا بائیں گوشے میں بیڑی دبائے تیسری جنگِ عظیم کے خواب دیکھتے مصر، ایران، اٹلی، جرمنی، وہاں کی آزاد فضا اور گوری نازنینوں کے تصور میں غرق وہ دندناتے ہوئے رکشا چلائے جاتے ہیں۔ آزادی نے انہیں گڑگڑانا بھلا کر احسا س خودی سے سر اٹھانا سکھا دیا ہے، چونکہ بیشتر نیم تعلیم یافتہ ہیں اس لیے خودی کی حدود کہاں غرور اور اکھڑپن سے جا ملتی ہیں یہ نہیں جانتے۔ مول بھائو زیادہ نہیں کرتے اور سواری کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں گویا وہ مال غنیمت میں پائے ہوئے دشمن کے شہری ہوں۔
یہ رکشے والا اگرچہ فوجی وردی پہنے ہوئے تھا لیکن اس میں نہ وہ فوجیوں کی سی اکڑ تھی نہ اس کے چہرے پر دوسرے فوجیوں کے مانند خشک آٹے کا تنائو۔ اس کے برعکس وہاں گندھی ہوئی لوئی کی سی نرمی اور لچک تھی۔ ’’کیوں جی تم فوج میں کام کرتے تھے؟ شری واستو نے اکڑوں بیٹھے بیٹھے اکتا کر جسم کو قدرے ڈھیلا چھوڑتے ہوئے پوچھا۔ رکشے والے نے پیچھے کی طرف دیکھا۔
’’نہیں صاحب فوج میں ہم کیا کام کرتے!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر طنز آمیز اور پر حقارت مسکراہٹ دوڑ گئی۔ جس میں ہلکے درد کی جھلک بھی شری واستو کی آنکھوں سے چھپی نہ رہی۔ وہ مسکراہٹ گویا کہہ رہی تھی کہ فوج کی ملازمت جیسا گرا ہوا کام ہم کیوں کرتے۔ ’’تو کیا رکشا چلاتے ہو؟‘‘ شری واستو کا مطلب تھا کہ کیا چار چھ رکشے رکھ کر ان کی آمدنی سے گزر بسر کرتے ہو۔ رکشے والا ہنسا، ’’اَجی صاحب کہاں یہاں تو یہ رکشا بھی اپنا نہیں، کرائے پر لے کر چلاتے ہیں۔‘‘
شری واستو کو اس کی آواز میں شرافت کا مہذب عنصر دکھائی دیا۔ اسے اس مہذب رکشے والے کے ساتھ کچھ ہمدردی ہوئی تو ایسا جان لیوا کام تم کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا ’’رکشا چلانے سے تو پھیپھڑوں پر بڑا زور پڑتا ہے۔ دن رات ہل اور پھائوڑا چلانے والے دیہاتی تو اسے کھینچ سکتے ہیں تمہارے جیسے شہریوں کے بس کا یہ کام نہیں۔‘‘
’’جی! ہم کیا اپنی خوشی سے چلاتے ہیں۔ بیوی اور چار بچے ہیں، ماں ہے، ۲ بیوہ بہنیں ہیں اتنے بڑے کنبے کا بار اکیلے ہمیں پر ہے۔‘‘
’’تم اور کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’ہم کو کوئی دوسرا کام آتا نہیں صاحب۔‘‘
’’تو کیا تم ہمیشہ رکشا چلاتے ہو؟‘‘
’’جی نہیں صاحب۔ جب سے ملک کو آزادی ملی ہے۔‘‘ وہ خاموشی سے چند لمحے رکشا چلاتا رہا پھر ماتھا ٹھونکتے ہوئے بولا ’’انگریز یہاں سے گئے کالے صاحب آئے کہ ہماری قسمت پھوٹی۔ دیسی صاحبوں کو نہ ہمارے کام کی سمجھ نہ پرکھ، نہ ہم ان کے کام کے نہ وہ ہمارے۔ ہم نے تو درخواست دی تھی کہ ہمیں کوئی دوسرا کام نہیں آتا ہمیں گورے صاحبوں کے ساتھ ولایت بھیج دیجیے، پر ہماری کسی نے نہیں سنی۔‘‘
’’تو کیا کرتے تھے تم؟‘‘
’’ہم کمشنر ڈک صاحب کے یہاں کام کرتے تھے۔ ۵۰ روپیہ ماہانہ پاتے تھے۔ رہنے کے لیے ۲ کمرے تھے۔ کپڑے صاحب دیتے تھے۔ معاف کیجیے گا…‘‘ اور رکشے والا بات کرتے کرتے ذرا جھجکا۔ ’’نہیں نہیں کہو۔‘‘ شری واستو نے پھر اکڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی تو صاحب کے یہاں ہم پہنا کرتے تھے‘‘ رکشا والے نے اپنی بات پوری کی۔
شری واستو پھر ڈھیلا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ بھی پیچھے لگ گئی اور سوٹ کے مسلے جانے کا بھی اسے خیال نہ رہا۔
’’انگریزوں کے راج میں جو موج تھی وہ اب کہاں۔‘‘ رکشے والا کہتا گیا۔ ’’دن تہوار پر انعام ملتے تھے۔ ہمارے ہی نہیں بیوی بچوں تک کے کپڑے بن جاتے تھے۔ اب بتائیے اتنا ہم کہاں سے پائیں ،کیسے بیوی بچوں کا پورا کریں، لاچار ہو کر رکشا چلاتے اور خون سکھاتے ہیں۔ کسی دن اسی طرح لڑھک جائیں گے۔ ’’پر آخر بات کیا ہے تم کسی دیسی صاحب کے ہاں کام کیوں نہیں کرتے۔ کمشنر کی جگہ کمشنر ہے اور کلکٹر کی جگہ کلکٹر۔‘‘ رکشے والے نے پھر پیچھے کی طرف دیکھا۔ ’’دیسی صاحب ہمیں کیا خاک رکھیں گے صاحب۔‘‘ اس نے کہا اور اس کے لبوں پر وہی حقارت طنزآمیز تبسم کھیل گیا۔
’’کیا کرتے تھے تم کمشنر ڈک کے ہاں؟‘‘
شری واستو نے تجسس آمیز جھلاہٹ سے پوچھا، ’’کک تھے؟‘‘
’’جی نہیں خانساماں گیری ہم سے نہیں ہوتی۔‘‘
’’تو کیا کرتے تھے، بیرے تھے…؟‘‘
شری واستو پھر اکڑ کر بیٹھ گیا ’’تو اس میں کیا دقّت ہے، تم دوسری جگہ نوکری کر سکتے ہو۔ ہمارے ہی یہاں ایک بیرا ہے۔‘‘
’’جی نہیں ویسے بیرے ہم نہیں تھے۔ ہم کھانا وانا لانے کا کام نہیں کرتے تھے۔ ہم صاحب کے کپڑے دیکھتے تھے۔‘‘
’’ہاں ہاں کپڑے وپڑے دیکھتے ہوگے، بوٹ ووٹ صاف کرتے ہو گے۔‘‘
’’جی نہیں بوٹ تو بھنگی صاف کرتا تھا۔ ہم صرف کپڑے دیکھتے تھے۔‘‘
’’کیا دیکھتے تھے سارا دن کپڑوں کا؟‘‘
’’اب صاحب کیا بتائیں، آپ سمجھیں گے نہیں۔‘‘ رکشے والے نے ذرا سا مڑ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’انگریز لوگوں کی بڑی باتیں تھیں، ایک وقت ایک سوٹ پہنتے تھے، رات کا الگ، دفتر کا الگ، دن کے آرام کا الگ، سیر سپاٹے کا الگ، پھر ڈنر سوٹ، گولف سوٹ، پولو سوٹ، شکار سوٹ… ان سب کو ٹھیک جگہ پر رکھنا، دھوبی کو لینا دینا، صاحب کو پہنانا۔ یہی کام تھا ہمارا، دیسی صاحب کیا سمجھیں، کیا پرکھیں ہمارا کام، دن رات مہینوں برسوں ایک ہی سوٹ گھسائے جاتے ہیں۔ یہی صاحب جو اس کوٹھی میں رہتے ہیں، کبھی دیکھا ہے ان کو؟…‘‘ رکشے والے نے ایک بڑی کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’کبھی کبھی ایسا سوٹ پہنتے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ کالج کے دنوں کا سنبھالے ہوئے ہیں، جہاں دفتر لگاتے ہیں وہاں بال روم تھا، سینچر کی رات کو کیا کیا رونقیں ہوتی تھیں اور باغیچہ دیکھا آپ نے، اس کی کیا درگت ہوئی ہے۔ کبھی انگریز صاحب کے زمانے میں اس کی بہار دیکھتے، وہی باغیچہ، کیا یہ ساری سول لائن انگریز صاحبوں کے نام کو رو رہی ہے، اتنے بڑے بڑے بنگلے، اتنے بڑے بڑے باغیچے بیوہ کے سر کی طرح منڈے دکھائی دیتے ہیں۔
شری واستو کو اس رکشے والے کی حقارت آمیز گفتگو اور ہندوستانی طرزِ رہائش کے متعلق اس کے خیالات نہایت مذموم لگے اگرچہ وہ خود انگریزی ٹھاٹھ باٹ سے رہنا اور سوٹ بوٹ پہننا پسند کرتا تھا لیکن اس وقت اسے انگریزی تمدن سے متعلق ہر چیز اور ہر بات سے نفرت ہو گئی۔ اس لاعلم کو ذرا سا نا علم بنانے کے خیال سے اس نے کہا ان کے اور اپنے کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے، رہنے، سہنے میں بڑا فرق ہے۔ وہ لوگ گوشت، مچھلی کھانا، شراب پینا بْرا نہیں سمجھتے، گائے، اور سورکا گوشت کھاتے ہیں، ہمارے ہاں ان کو چھونا بھی پاپ ہے۔ ان کی عورتیں ناچتی ہیں ہمارے ہاں…
’’کچھ نہیں صاحب‘‘ رکشے والے نے اس کی بات کاٹ کر اور رکشا کے پیڈل پر اپنے جوش میں مزید زور دیتے ہوئے کہا۔ ہم لوگوں کا دیس غلاموں کا دیس ہے۔ غریب ہونے سے ہم نے غریبی کو جنت بنا دیا ہے۔ پیسے والے ہو کر بھی ہم عادت سے غریب بنے رہتے، روپیہ بینکوں میں جمع رکھتے اور دال روٹی پر قناعت کرتے ہیں۔ ہم کو ہمارا صاحب بتاتا تھا کہ ہندوستان جب آزاد تھا تو لوگ خوب کھاتے پیتے، ناچتے گاتے، عیش مناتے تھے، نہ یہ پردہ تھا، نہ کھانے پینے پر پابندی۔ ہمارا صاحب کہا کرتا تھا کہ پیسے کا فائدہ اس کی روٹیشن میں ہے، اسے خرچ کرنے میں ہے، بینک میں جمع کرنے میں نہیں۔
روپیہ خرچ ہوتا ہے تو ملک کے کاری گر، مزدور، دکاندار سب کام پاتے ہیں، نہیں تو بے کاری بڑھتی ہے۔ ہمارا صاحب سال کے سال فرنیچر اور دروازے کھڑکیوں پر روغن کراتا تھا۔ ۶ مہینے میں وہائٹ واش کراتا تھا۔۲ مالی، ۲ بیرے، خانساماں، دھوبی، بھنگی اس کے ہاں نوکر تھے، پھر اس کے دم سے ڈبل روٹی والے، انڈے والے، کرسی والے اور نہ جانے کون کون سبھی روزی پاتے تھے۔ شری واستو کے دل میں ایک شعلہ سا لپکا اس کا جی چاہا اْٹھ کر صاحب کے اس کتے کی گدی پر زور کا ایک گھونسا دے لیکن رکشا کافی تیز چلا جا رہا تھا۔ آخر اس نے اپنا غصہ اپنے پیشرو گورے افسروں پر اتارا۔
’’ان سالوں کا کیا ہے عوام کو لوٹتے تھے اور موج اڑاتے تھے۔‘‘ اس نے تضحیک کے لہجے میں کہا۔ ’’عوام کو یہ کیا کم لوٹتے ہیں،‘‘ رکشے والے نے پلٹ کر نہایت مسکین طنزآمیز ہنسی کے ساتھ کہا۔ چھوٹے سے لے کر بڑے افسر تک سب کھاتے ہیں، وہاں تو بڑے افسر کچھ لحاظ کرتے تھے یہاں تو آپا دھاپی مچی ہوئی ہے۔ بس لینا جانتے ہیں دینا نہیں۔ انگریز لیتا تھا تو ۱۰ آدمیوں کا پیٹ پالتا تھا۔ یہ لیتے ہیں تو جمع کرتے ہیں، کھائیں اڑائیں بھی کیا عادت بھی ہو، وہی دھوتی کرتا پہنے اندر باہر سب جگہ بنے رہتے ہیں۔ پندرھویں بیسویں مہینے، دو مہینے پر حجامت بناتے ہیں، نائی، دھوبی، بیرا، خانساماں ان سے کیا پالیں گے۔ شری واستو دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ گیا لیکن خاموش رہا کہ اس کمینے کے منہ کیا لگے۔
’’دور کیوں جائیے۔‘‘ رکشے والا اپنی رَو میں کہتا گیا۔ ’’رکشے تانگے والے ہی کو لیجیے۔ بڑے سے بڑا سیٹھ رکشا کرے گا تو بھائو تائو کرنا نہ بھولے گا۔ یہیں ایلن گنج میں ایک آنریری مجسٹریٹ رہتے ہیں۔ بڑے آدمی ہیں چوک میں ان کا ایک پریس بھی چلتا ہے۔ ہمیشہ یہاں اڈے پر آ کھڑے ہوتے اور چاہتے ہیں کہ ایک ہی سواری کے پیسے دینے پڑیں۔ دوسری سواری نہ ہو تو آدھ آدھ گھنٹے کھڑے رہتے ہیں، انگریز معمولی فوجی بھی ہو تو کبھی بھائو تائو نہ کرتا تھا، پھر جیب میں روپیہ ہوا تو روپیہ دے دیا اور دو ہوئے تو دو دے دیے۔ ایک بار ہمارے صاحب کی موٹر بگڑ گئی تھی۔ یہیں ایلن گنج سے کچہری تک جانے میں ۵ روپے کا نوٹ اس نے رکشے والے کو دے دیا تھا۔
گجانن کا گھر آگیا تھا شری واستو اچک کر اٹھا لیکن وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ وہ ہے نہیں۔ اپنا کارڈ چھوڑ کر شری واستو مڑا اور رکشا میں سوار ہوتے ہی اس نے رکشے والے سے کہا کہ جلدی لے چلے۔ کچہری کے سامنے اترتے وقت اس نے گھڑی دیکھی۔ ایک گھنٹہ دس منٹ ہوئے تھے۔ دوسرا وقت ہوتا تو وہ ۱۰ آنے گھنٹہ کے حساب سے ۱۲ آنے سے زیادہ نہ دیتا لیکن اس رکشے والے کو ۱۲ آنے دینے میں اسے کچھ ہچکچاہٹ ہوئی۔ گورے صاحبوں کی قبر پر لات مارتے ہوئے اس نے کہا ایک گھنٹے سے کچھ ہی منٹ زیادہ ہوئے ہیں۔ ۲ گھنٹے بھی لگائیں تو ایک گھنٹے کے ۴ آنے ہوتے ہیں لیکن یہ لو ۲ روپے۔ ۱۴ آنے ہماری طرف سے انعام سمجھ لو۔‘‘
رکشے والے نے تقریباً فوجی طریقے سے سلام کیا اور شری واستو فخر سے ایڑیوں کو ذرا اٹھاتا ہوا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے بنگلے کی طرف چلا۔ ’’کیوں کیا ملا؟‘‘ پہلے رکشے والے نے جو ابھی تک اڈے پر کھڑا تھا زور سے پوچھا۔ ’’۲ روپے۔‘‘ ’’۲ روپے!‘‘ ’’ہاں ۲ روپے۔ کسی دیسی صاحب سے میں نے کبھی کم لیا جو اس سے لیتا۔ سالے ان کالے صاحبوں سے نمٹنا میں ہی جانتا ہوں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146