اپالو میں چلنے کے لیے، جب پروفیسر کے دوست نے اسے بہت مجبور کیا تو وہ حیرت سے بولا:
’’میں اپالو میں جاکر کیا کروں گا۔ مجھے چاند پر نہیں جانا ہے۔‘‘
’’وہ چاند والا اپالو نہیں۔ میں تو زمین کے ایک ہوٹل کی بات کررہا ہوں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں وہاں جاکر بھی کیا کروں گا۔‘‘
’’وہاں نئے سال کا خوبصورت چہرہ دیکھو گے۔‘‘
ہوٹل کے ہنگامے میں پروفیسر کے ہوش و حواس گم ہوگئے۔ اس کے دوست نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
’’یہی ہنگامہ تو زندگی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’میری عینک کہاں ہے۔‘‘ پروفیسر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔
’’تمہاری ناک پر۔‘‘
’’ہائیں! میری آنکھ کی طرح میری عینک بھی خراب ہوگئی کیا؟‘‘
’’زندگی اب چاند سے آگے جانے کا نام ہے۔ اور تم زندگی بخش اس خوبصورت رات کا مذاق اڑاتے ہو۔‘‘
چاند سے آگے، اور آگے… لیکن اس کے بعد۔‘‘
پھر ، ایک ہوٹل کے فلور پر رنگ برنگی روشنیوں کا رقص شروع ہوا۔
پروفیسر نے حیرت سے پوچھا:
’’یہ کیا؟‘‘
’’روشنی کا ناچ!‘‘
’’بندر کا ناچ میں نے تمہارے ساتھ ایک بار اسکول کے دنوں میں ضرور دیکھا تھا، لیکن یہ…‘‘
پروفیسر نے بالکل بچوں کی طرح روشنی کے پیچھے اپنے دیدے گھماتے ہوئے کہا۔ پھر روشنی نے ایک روشن بدن کو فلورپر لاکھڑا کیا۔
پھر جسم تھرکا۔
جام کھنکے۔
اور تھوڑی دیر بعد چیختی چلاتی روشنی کا رقص ایک لمحے کے لیے بند ہوگیا۔
اور شور اٹھا۔
’’نیا سال مبارک۔‘‘
پھر جو روشنی واپس آئی تو رقاصہ کے جسم پر صرف روشنی کا ہی لباس تھا۔
پروفیسر نے کئی بار آنکھیں کھولیں اور بند کیں۔
’’ارے یہ کیا چیز ہے؟‘‘
’’تم نے پہچانا نہیں، یہ تو وہی…‘‘
’’نہیں… نہیں…‘‘ پروفیسر کھڑکی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔
’’تم نے بھی خاک پہچانا، ٹھہرو میں ڈارون کو بلا لاتا ہوں شاید وہ پہچان لے۔‘‘
——