جہاں گھروں میں بیٹیاں نہیں ملتیں

نعیم احمد

سیتا خوف کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس پر مسلسل ڈر سوار رہتا ہے۔ اْسے خطرہ ہے کہ اس کے پانی یا کھانے میں زہر ملا دیا جائے گا۔ سیتا رات کو دیر تک جاگتی اور کوئی کھٹکا سن کر فوراً چوکنا ہوجاتی ہے۔ اْسے اندیشہ ہے کہ اس کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ ۸ سالہ لڑکی کے باپ، سانگ سنگھ کا کہنا ہے ’’مجھے نہیں معلوم کہ سیتا میں یہ خوف کہاں سے پیدا ہوا۔ دیودا کے باسی تو بہت پہلے بیٹیوں کو مارنا چھوڑ چکے۔‘‘
راجستھان بلکہ بھارت کے اکثر علاقوں میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ وجہ ؟ وہی جہیز کا عذاب۔ آج کل بھارت میں اسی لڑکی کو اچھا رشتہ ملتا ہے جس کے والدین لاکھوں روپے کا جہیز دے سکیں۔ جہیز کی شرح پھر کروڑوں روپے تک جاتی ہے۔اسی معاشی بوجھ سے بچنے کی خاطر بھارت میں ہزارہا خاندان بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے ہیں۔ یہ خوفناک اور انسان دشمن رجحان ان علاقوں میں زیادہ ہے جہاں تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ راجستھان کے جیسلمیر سے ۵۰ میل دور واقع گائوں، دیودا بھی ایسا ہی مقام ہے۔ اس گائوں میں بھٹی راجپوتوں کے ڈیڑھ سو گھرانے آباد ہیں، لیکن وہاں لڑکی خال خال ہی نظر آتی ہے۔
سہ پہر ہوتے ہی وسیع و عریض صحرا میں بنے اس نخلستان میں بچے نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ درختوں سے جھولا جھولتے یا میدان میں من پسند کھیل کھیلتے ہیں۔ لیکن ان بچوں میں کوئی لڑکی بمشکل ہی دکھائی دیتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دیودا میں تین سو لڑکے ہیں تو صرف چار لڑکیاں… بقیہ بیٹیاں اس رسم کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جو جہیز کی صورت میں لڑکیوں کے والدین کے سروں پر تلوار بن کر لٹکتی رہتی ہے۔ حد یہ ہے کہ پچھلے ۱۰ برس میں دیودا میں صرف دو شادیاں ہوئی ہیں
۔ گائوں میں اتنی لڑکیاں ہی نہیں تھیں کہ ان کی شادیاں ہوتیں۔ پچھلے مہینے یہ گائوں اچانک قومی افق پر نمایاں ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی بیٹیاں قتل کرنے کا گھنائونا عمل بھی ! ہوا یہ کہ مقامی تھانے دار کو اطلاع ملی کہ دیودا کے رہائشی جوڑے، گلاب سنگھ اور بانی نے اپنی نوزائیدہ بیٹی مار ڈالی ہے۔ جب تھانے دار نے تفتیش کی تو اْسے دال میں کچھ کالا نظر آیا۔ مقتول بچی کے دادا، اندرسنگھ نے دعویٰ کیا کہ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے چل بسی۔ لیکن خاندان میں پھیلی بے چینی اور گھبراہٹ دیکھ کر تھانے دار کو شک ہوگیا۔
پھروہ اس ہسپتال میں پہنچا جہاں بچی کا جنم ہوا تھا۔ بچی کو جنم دینے والی ڈاکٹرنی نے اسے بتایا کہ بانی کی بچی صحت مند پیدا ہوئی اور اْسے کوئی بیماری نہ تھی۔ تھانے دار کو یقین ہو گیا کہ گلاب سنگھ اور بانی نے اپنی بیٹی کو ٹھکانے لگایا ہے۔ تھانے دار بیٹیوں والا تھا اور راجستھانیوں کی اس روش سے واقف تھا کہ وہ اپنی بچیاں قتل کر ڈالتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ اس مکروہ فعل کو سامنے لانے کا اچھا موقع ہے۔ چنانچہ اس نے جوڑے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ اندازہ لگائیے کہ یہ راجستھان میں بیٹی کو قتل کرنے والے ماں باپ کے خلاف درج ہونے والی پہلی ایف آئی آر ہے۔
دراصل کئی سال پہلے بھارتی میڈیا نے بیٹیاں قتل کرنے والوں کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اس کے بعد والدین چوری چھپے اپنی نوزائیدہ بیٹیاں ٹھکانے لگانے لگے۔ لہٰذا اب خاندان یا قریبی رشتے داروں کے علاوہ کوئی جان نہیں پاتا کہ چپ چاپ ایک بچی مار ڈالی گئی۔ چونکہ دیہات میں خاندانی نظام بہت مضبوط ہے لہٰذا کوئی بھی جرم افشا کرکے نکو نہیں بننا چاہتا۔ بس یہ مشہور کردیا جاتا ہے کہ بچی بیمار تھی لہٰذا چل بسی یا کوئی اور وجہ ڈھونڈ لی جاتی ہے۔ پھر تھانے دار نے بچی کی لاش حاصل کی اور اْسے پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا۔ لیکن لاش گل سڑ چکی تھی لہٰذا ڈاکٹر موت کی وجہ نہ جان سکے۔ چنانچہ اْسے فورینسک لیبارٹری بھجوا دیا گیا۔ وہاں سے آنے والی رپورٹ نے انکشاف کیا کہ بچی کو زہر دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ اس خبر کو مقامی میڈیا نے نمایاں انداز میں پیش کیا۔
عورت کا مقام
دیودا میں لڑکی کو دس گیارہ سال کا ہوتے ہی گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ وہ پھر اشد ضرورت کے وقت ہی باہر نکلتی ہے۔ تب بھی وہ اوڑھنی ضرور لیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گائوں کی سرپنچ (مکھیا) ایک عورت ہے، کیونکہ دیہی پنچایتی نظام میں خواتین کا کوٹہ مخصوص ہے۔ لیکن اتت کور عوامی اجتماع سے خطاب نہیں کر سکتی، بھٹی راجپوت روایات کے مطابق وہ زنان خانے میں رہتے ہوئے سارے کام نمٹاتی ہے۔ باہر وہ اسی وقت نکلتی ہے جب مندر جانا ہو۔
بعض لوگوں کے نزدیک خواتین کو گھر کی چاردیواری میں رکھناانھیں قید کرنے کے مترادف ہے جبکہ دیگر لوگ کہتے ہیں کہ خاتون گھر ہی میں اچھی لگتی ہے اور یہ اْسے عزت دینے کا انداز ہے۔ بہرحال یہ اپنے اپنے نقطہ نظر کا معاملہ ہے۔ تاہم راجستھان کے دیگر دیہاتوں میں اب خواتین کو آزادی مل گئی ہے۔ نیز وہاں آباد مردوں کو یہ احساس بھی ہو چلا ہے کہ لڑکیوں کی کمی بڑا مسئلہ بھی ہے۔ دراصل وہاں لڑکوں کو دْلھن نہیں ملتی، لہٰذا بیٹیوں والے والدین کی چاندی ہوگئی ہے۔ اب وہ حسب دلخواہ لڑکے سے بیٹی کی شادی کرتے ہیں اور جہیز بھی زیادہ نہیں دیتے۔
مزیدبراں راجستھان میں وٹے سٹے کی شادیوں والی پرانی رسم بھی لوٹ آئی۔ چنانچہ اب لڑکے والوں کو کسی خاندان سے بیٹی لیتے ہوئے انھیں اپنے ہاں سے بھی ایک لڑکی دینی پڑتی ہے۔ گو اب اس نظام کو پسند نہیں کیا جاتا، لیکن وٹے سٹے کے چند فوائد بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فائدہ یہ ہے کہ کوئی مسئلہ جنم لے، تو بات عموماً زیادہ نہیں بڑھتی۔ کیونکہ شوہروں کو علم ہوتا ہے کہ ان کے خاندان کی بیٹی بھی بیوی کے میکے میں ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ والدین کو یہ ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ بیٹی کو استطاعت سے باہر جہیز دیں۔ کیونکہ انھیں علم ہوتا ہے کہ بیٹی کا مستقبل محفوظ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض والدین لڑکیوں کی شدید کمی دیکھ کر بیٹیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ انھیں مالی فائدہ ہوسکے۔ سچ ہے، دنیا کے رنگ نرالے! دریں اثنا حکومت نے کم از کم سرکاری ہسپتالوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ہونے والے بچے کی جنس والدین کو نہ بتائیں تاکہ اسقاطِ حمل میں کمی آسکے۔ کئی والدین یہ جان کر کہ بیٹی کا حمل ہے، اْسے گرا دیتے ہیں۔ بعض سماجی تنظیموں نے حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ جوں ہی کوئی لڑکی جنم لے، اس کے نام سے مخصوص رقم فکسڈڈیپازٹ میں رکھوا دی جائے۔ پھر جب شادی کا موقع آئے، تو وہ اسے مل جائے، تاہم حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ریاست میں احتجاج
جب میڈیا میں یہ خبر عام ہوئی کہ دیودا میں والدین ہی کے ہاتھوں ایک بیٹی قتل ہو گئی، تو راجستھان کے شہروں میں سماجی راہنمائوں اور خواتین نے اس خوفناک روایت یا عمل کے خلاف مظاہرے کیے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ سنگین جرم کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جیسلمیر میں ہونے والے مظاہرے میں کئی بھٹی راجپوت خواتین بھی شوہروں کے بغیر شریک ہوئیں۔ انھوں نے بیٹیوں کو قتل کرنے کی رسم کے خلاف زوردار نعرے لگائے اور زبردست احتجاج کیا۔ ان میں سرخ گھاگھرے اور سیاہ اوڑھنی میں ملبوس ۴۰ سالہ ریکھا دیوی بھی شامل تھی۔
وہ کہتی ہے ’’چندسال قبل مجھے مجبور کیا گیا کہ اپنی بچی کو مار ڈالوں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس جرم کے خلاف احتجاج کیا جائے جو میری جیسی عورتیں مجبوراً روزانہ انجام دیتی ہیں۔‘‘ راجستھانی عورتوں کے عزم اور استقلال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ شاید مستقبل میں وہ وقت بھی آجائے جب سیتا کنور جیسی سیکڑوں بچیاں اور لڑکیاں آرام و چین کی نیند سو سکیں گی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146