یہ بات ہر مسلمان کو بخوبی معلوم ہے کہ عید قرباں ایک رب کے فرماں بردار باپ اور بیٹے کی یاد میں منائی جاتی ہے جبکہ والد ابراہیم علیہ السلام کو نیند کی حالت میں اللہ کی طرف سے یہ پیغام ملتا ہے کہ تم اپنے لختِ جگر اسماعیلؑ کو میری راہ میں قربان کردو۔
یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذیٰ تریٰ۔
’’اے میرے پیارے لختِ جگر یقینا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھ کو ذبح کررہا ہوں پس تو غور کرلے کہ تیری کیا رائے ہے۔‘‘
تو سعادت مند بیٹا اپنے پرعزم لہجہ میں جواب دیتا ہے کہ
یا ابت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین۔
’’اے ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو کر گزرئیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘
یہ دراصل اس لیے تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام نوعِ انسانی کو یہ بات بتلانا چاہتا تھا کہ تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تمہارے اندر اپنی محبوب سے محبوب ترین چیز کو اللہ کے راستے میں قربان کردینے کا جذبہ موجزن نہ ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے راستے میں بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور اللہ کی طرف سے ہر آزمائش میں اسی کی توفیق سے پورے اترے ہیں یہاں تک کہ بیٹے کی قربانی کرکے خواب کو حقیقت میں ڈھال دیا۔
قربانی کے اس پس منظر کے بعد ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس قربانی کا مقصد کیا ہے؟ اسماعیل علیہ السلام کی اس قربانی سے ملت اسلامیہ کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ ضرورت پڑنے پر اللہ کے راستے میں جان جیسی عزیز چیز بھی قربان کی جاسکتی ہے۔ جانوروں کی قربانی کے ذریعے اس تصور کو تازہ کیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر قربانی ہر اس ایثار کا نام ہے جو انسان ایک دوسرے کے لیے کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا، کسی کے دکھ درد میں شامل ہونا، اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن میں قربانی کی روح مضمر ہے۔ آج جبکہ ہم اپنی زندگی پر غور کرتے ہیں تو کائنات کی ہر چیز انسان ہی کے لیے قربانی دیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ انسان اس سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پہلی بات پر تو کھرے اترتے ہیں یعنی ایک سے ایک خوبصورت و قیمتی جانور کو قربان کردیتے ہیں لیکن ہم دوسرے پہلو میں بالکل صفر نظر آتے ہیں (مقصد قربانی کو بھول جاتے ہیں)۔ بھائی بھائی کے لیے قربانی نہیں دیتا ، پڑوسی پڑوسی کے لیے قربانی نہیں دیتا اور نہ اولاد والدین کے لیے قربانی دینے کو تیار ہے۔ آج نہ جانے ایسے بہت سے واقعات اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں جن میں صرف یہی نظر آتا ہے کہ اگر ایک فریق دوسرے فریق کے لیے قربانی دیتا تو صدیوں کی دشمنی دوستی میں بدل جاتی۔
اب ضروری ہے کہ ہم قربانی کے مقصد کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں اس مقصد کو عملی جامہ پہنائیں اور یہ بھی عہد کریں کہ اپنی ہر چیز کو اس مالکِ حقیقی کے لیے قربان کردیں گے جس نے اس کائنات کو خلق کیا ہے۔ سماج اور خلق اللہ کے لیے اس آیت کے مصداق بننے کی کوشش کریں گے:
ویؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ۔ (القرآن)
’’اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود بھی محتاج ہوں۔‘‘
——