ملک کی شمال مشرقی ریاست آسام میں فرقہ وارانہ فساد نے ایک مرتبہ پھر ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس فساد میں درجنوں لوگ مارے گئے اور کئی لاکھ لوگ جن میں صد فیصد مسلمان ہیں، راحتی کیمپوں میں عوام کے راحتی سامان پر زندگی گزار رہے ہیں۔ آسام میں اگرچہ مسلم کش فساد کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی وہاں بدترین قسم کے مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔لیکن اس فساد کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کو اور ریاستی حکومت نے مرکز کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے اور دونوں ہی کانگریس کی حکومتیں ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ گوگوئی نے پہلے تو مرکز پر مطلوب فوج بروقت مہیا نہ کرنے کا الزام لگایا اور پھر بعد میں اس قسم کا بیان دیا کہ ’’اگر فساد پر کنٹرول نہ کیا گیا تو قتلِ عام کا اندیشہ ہے۔‘‘
اس کے کچھ دن بعد انہی وزیر اعلیٰ نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ آسام میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا سبب جہالت و ناخواندگی ہے۔ اس آخر الذکر بیان کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آسام میں عوام کو خصوصاً بوڈو قبائل کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اور یہ یقینا بوڈو قبائل کے لیے قابلِ تشویش اور قابلِ نفرت ہے۔ جبکہ اول الذکر بیان ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کے ہرگز شایانِ شان نہ تھا کہ وہ خود ریاست میں نظم و نسق کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وزیرِ اعلیٰ آسام گوگوئی اس فساد پر کنٹرول کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے مگر ایسا انھوں نے اس لیے نہیں کیا کہ وہ فسادی بوڈو قبائل کو اندرونِ خانہ خوش کرنا اور آسام کے عوام کی توجہ ریاست میں جاری پارٹی انتشار اور باہمی چپقلش کی طرف سے ہٹاناچاہتے تھے۔ وزیراعلیٰ کو اچھی طرح معلوم تھا اور ہر وزیرِ اعلیٰ کو معلوم رہتا ہے کہ ریاست کی سیاسی و انتظامی صورتِ حال کیا ہے۔ اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس وقت وہ پارٹی کی آپسی جنگ میں سخت دباؤ کا شکار ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ کانگریس کی ایم ایل اے رومی ناتھ کی ایک مسلم نوجوان سے شادی کرلینے کے بعد مئی کے اواخر ہی سے خود کانگریس کا ایک طبقہ ان کے خلاف رسہ کشی میں مصروف تھا۔ اور ممکن ہے انہی عناصر نے اس صورتِ حال کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر طول دینے میں اہم کردار ادا کیا ہو۔
ان باتوں کی تصدیق ایشین کمیشن آف ہیومن رائٹس کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جو اس نے آسام کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد تیار کی ہے۔ مذکور کمیشن نے یہ بات واضح طور پر کہی ہے کہ فساد کو روکا جاسکتا تھا اور اس کے نہ رکنے کی بڑی وجہ افسران کی کوتاہی اور فوجی افسران کا فوجی دستوں کو بروقت متحرک نہ کرنا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’آسام کے حالیہ فساد یقینا روکے جاسکتے تھے مگر روکے نہیں گئے، کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک ہر افسر نے مجرمانہ انداز میں کوتاہی برتی جن میں کوکراجھار کے تھانہ انچارج سے لے کر ہندوستانی فوج کے اعلیٰ عہدے دار تک سب شامل تھے۔ جن میں وزارت دفاع کے سکریٹری، فوجی سربراہ، ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشن اور کمانڈر آف ایسٹرن کمانڈ شامل تھے۔‘‘
مذکورہ باتوں کی صحت پر اگر یقین کرلیا جائے تو پھر آخر اعتماد کرنے اور امن وامان قائم رکھنے اور قائم کرنے کے لیے کس کی طرف ہندوستان کے عوام دیکھیں۔ یہ ایک بڑا سوال ہے جو وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعظم کے سامنے ہونا چاہیے۔
سیاسی پارٹیوں کی آمدنی
نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق سیاسی پارٹیاں عوامی چندے کی بنیاد پر خاصی کمائی کررہی ہیں۔ مذکورہ ادارے نے کچھ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ملک کی سبھی قابلِ ذکر پارٹیاں خواہ حکومت میں آسکیں یا نہ آسکیں مگر پارٹی کو خاصی کمائی ہوجاتی ہے۔ نیشنل الیکشن واچ نے ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۱ء تک کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں اور ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ پیش کردہ حسابات کی روشنی میں یہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
ان اعداد و شمار کے مطابق ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کانگریس چندہ اگانے میں بھی سب سے آگے رہی ہے اور اس نے ۲۰۰۸ کروڑ روپے حاصل کیے۔ ۹۹۴ کروڑ روپے حاصل کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی دوسرے نمبر پر رہی اور ۴۸۴ کروڑ لے کر بی ایس پی تیسرے نمبر پر ہے، ۴۱۷ کروڑ جمع کرکے مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی چوتھے نمبر پر اور سماج وادی پارٹی صرف ۲۷۹ کروڑ روپے حاصل کرکے پانچوے نمبر پر رہی ہے۔
یہ اعداد و شمار ملک میں بڑھتی تیز رفتار مہنگائی ملک کی گرتی معیشت اور غیر اطمینان بخش اور نچلی سطح کو پہنچتی GDPکی شرح کو دیکھتے ہوئے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ۵-۲۰۰۴ء میں GDPکی شرح %7.5اور مہنگائی %6.5تھی اور سونا اس وقت ۶۳۰۰ روپے تولہ تھا۔ جبکہ ۱۲-۲۰۱۱ء میں GDPکی شرح گر کر%6.9اور مہنگائی بڑھ کر %9.72 ہوگئی اور سونا سال ۲۰۱۱ کے آخر میں ۲۸۰۰۰ روپے تھا اور اس وقت ۳۲۰۰۰ سے اوپر ہے۔
بڑھتی مہنگائی، عام آدمی کی گرتی آمدنی، بے روزگاری اور ملکی معیشت کی بگڑتی صورتِ حال میں اگر سیاسی پارٹیوں کی آمدنی اور ان کے چندے کے نظام کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی معیشت اگرچہ مائل بہ زوال ہے مگر سیاسی پارٹیوں کے خزانے میں کسی قسم کی کمی اور اخراجات میں تنگی کے امکانات کم سے کم ہیں اور ظاہر ہے نیشنل الیکشن واچ نے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ ان تفصیلات کی بنیاد پر کیے ہیں جو سیاسی پارٹیوں نے انھیں فراہم کی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے اخراجات کا اندازہ عام آدمی بہ خوبی لگاسکتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں جتنی آمدنی کاغذات میں بتارہی ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ وہ حاصل کرتی ہیں اور اس کا اعلان نہیں ہوتا۔ان اعداد و شمار میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ %85سے زیادہ چندہ دہندگان کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ قانونی طور پر سیاسی پارٹیاں اس بات کے لیے پابند نہیں ہیں کہ وہ ۲۰۰۰۰ یا اس سے کم چندہ دینے والوں کے ناموں کی تفصیلات حکومت کو پیش کریں ، مزید یہ کہ جو لوگ سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیتے ہیں انھیں ٹیکس میں بھی چھوٹ ملتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی زیادہ تر کمائی کو پن بیچ کر ہوئی ہے۔
ادھر مختلف صنعتی گھرانوں نے اپنے ٹرسٹ بناکر سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینا شروع کیا ہے جس سے سیاسی پارٹیوں کی کمائی مکمل طور پر غیر قانونی یا بلیک ہونے کے بجائے اس کا کچھ حصہ تو قانونی طور پر جائز ہو ہی گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک سیاسی پارٹیوں کے لیے چندہ کا کوئی ایسا نظام وضع نہیں ہوپایا ہے جس میں چندہ دینے والوں کی صد فیصد آمدنی کا قانونی ہونا بھی یقینی ہوسکے اور سیاسی پارٹیوں کو بھی وہ قانونی طور پر ہی حاصل ہو۔ ہمارے الیکشن کے نظام میں سیاسی امیدوار جس ’دریا دلی‘ سے روپیہ اڑاتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارا ’کالا دھن‘ یا تو الیکشن ہی کے لیے بچا کر رکھا جاتا ہے یا الیکشن ہی کے وقت نکالا جاتا ہے۔
الیکشن واچ کے ذریعہ جاری کردہ معلومات اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے چندے کے نظام کو زیادہ شفاف اور ذمہ دارانہ بنایا جائے۔ نیز الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کے اخراجات پر قدغن لگا کر اسے ملکی معیشت کے استحکام کے لیے استعمال کیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کی آمدنی اور سیاست دانوں کے خزانے جب تک عوام کی نظروں کے سامنے نہیں رہیں گے وہ ان میں جائز و ناجائز طریقے سے دولت بھرنے میں لگے رہیں گے۔
شمشاد حسین فلاحی