دوام گل کو جہاں میں نہ گل نشینوں کو
تو پھر غرور یہ کیسا ہے مہ جبینوں کو
شکوہ قیصر و کسریٰ، جلال تیموری
ڈرا سکا نہ ترے بوریا نشینوں کو
ہمارےقدموں پہ سر رکھ کہ رو دیا ساحل
جلا کے آئے ہیں اس پار ہم سفینوں کو
اسے کہو کہ ہمارا قصور بھی لکھ دے
جو لکھ رہا ہے سزا ہم بلند بینوں کو
غرور اوڑھ کے نکلا تھا ، ڈھل گیا سورج
تو اپنے پاؤں تلے رکھ سدا زمینوں کو
تھکی تھکی سی اذانیں بجھا بجھاساامام
کہ انشراح عطا کر ہمارے سینوں کو
سنا ہے صحرا میں سیلاب آنے والا ہے
کہ سانپ ڈھونڈنے نکلے ہیں آستینوں کو
کچھ اور جاہ پرستوں کو چاہئے بزمی
صلیب و دار بہت ہیں بہشت بینوں کو