میں تمھیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ گھ رسے جاتے ہوئے اگر تم مجھے خدا حافظ نہیں کہہ سکتیں تو ایسی بات بھی نہ کیا کرو جسے سوچ سوچ کر میں سارا دن کڑھتا رہوں۔‘‘ وہ دفتر جا رہا تھا کہ بیوی کی کوئی جلی کٹی بات اس کے کان میں پڑی۔ وہ جلتا بھنتا دفتر پہنچا اور ابھی بیٹھا بھی نہ تھا کہ منیجر نے بلا لیا۔
’’پچھلے دو سال کے کھاتوں کا حساب مع چیکوں کی تفصیل کے ٹائپ کر کے لے آؤ۔‘‘ منیجر نے اسے دیکھتے ہی یوں کہا جیسے وہ جاتے ہی یہ سارا کام پانچ منٹ میں کر کے لے آئے گا۔
’’جی بہتر!‘‘ کہتے ہوئے وہ منیجر کے کمرے سے یوں لوٹا جیسے اسے قید یا مشقت سنادی گئی ہو۔
’’دو سالوں کا ریکارڈ اور چیکوں کی تفصیل! یہ کوئی کن فیکون والا معاملہ تو نہیں تھا کہ کہہ دیا ہوجا اور ہو گیا بلکہ دو سال پرانی فائلوں کو چاٹتی ہوئی دھول سے دشمنی مول لینی پڑے گی اور چیک بکوں کی تلاش کا کرب بھی سہنا پڑے گا۔‘‘ یہ کام آج کیا ایک ہفتے میں بھی نہیں ہونے والا۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا اور کرسی کھینچ کر چائے کی پیالی کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ کچھ دماغی تناؤ کم ہوسکے۔ اچانک بیوی کی بات اس کے ذہن میں تازہ ہوگئی اور منیجر کا بتایا ہوا کام اس بات کے پیچھے چھپ گیا۔ اس نے چائے کا ایک گھونٹ گھرا اور آہستہ آہستہ اسے حلق سے نیچے اتارنے لگا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ چائے اس کے زخموں پر مرہم کا کام کر رہی ہے اور اسکے سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’’پہلے گھر کا کام کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے پل بھر کو سوچا اور پھر قریبی دوستوں کے چہروں کے اتار چڑھاؤ اس کے ذہن پر ابھرنے لگے۔ سب سے پہلے وہ کریم بخش سے ملے گا۔ یہ اس کا افسر ہی نہیں بلکہ کالج کے زمانے میں اس کا جگری یار بھی تھا۔ ایک بار سیاسیات کے پروفیسر نے کریم بخش کو لکچر کے دوران مسکرانے پر کلاس سے ایک ہفتہ کے لیے باہر نکالا تو وہ بھی اس کے پیچھے نکل گیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کریم بخش اسے دیکھتے ہی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوگا، بازو پھیلا کر چھاتی سے لگائے گا اور اپنا کام چھوڑ چھاڑ کے اس سے باتیں کرے گا، پرانے زمانے کی باتیں، کالج کی یادگار باتیں پھر گھر کی خیریت دریافت کرے گا، بچوں کی تفصیل پوچھے گا اور یہ تو ضرور پوچھے گا کہ جسے تم نے کالج میں پسند کیا تھا شادی اسی کے ساتھ ہوئی یا… پھر چائے آجائے گی اور باتوں باتوں پر حلق میں اتر جائے گی پھر کریم بخش گھر ساتھ چلنے کے لیے کہے گا۔
’’بس تم سے مل لیا ہے، گھر پھر کبھی آؤں گا، وہ یہ کہہ کر خاموش ہوجائے گا لیکن سوچتا رہے گا کہ کریم بخش سے کیسے کہے کہ وہ اسے صرف ملنے نہیں آیا بلکہ ایک ضرورت اسے یہاں تک کھینچ لائی ہے۔ وہ ایک منگتا بن کر آیا ہے، سوالی اور نجانے کیا کیا بن کر… وہ جب تک اس سے دل کی بات نہیں کہتا کریم بخش اس کی عزت کرے گا، دوستی کا بھرم رکھتا رہے گا اور اپنی محبتیں اس پر نچھار کرے گا لیکن جوں ہی اس کی زبان ضرورت کے الفاظ ادا کرے گی، اس کے چہرے پر سرد مہری کے آثار نمایاں ہوجائیں گے۔ اس کی پیشانی پر لکھے بول، سنگتا کہیں کا، میں سمجھا ملنے آیا ہے… چل بھاک یہاں سے۔ پڑھتے ہی اسے اپنے بے لباس ہونے میں شبہ نہیں رہے گا۔
’’اگر میٹنگ نہ ہوتی تو میں تمہارے ساتھ بیٹھتا، پھر بھی گھنٹے بھر کی بات ہے، تم بیٹھتا چاہو تو بیٹھو!‘‘ یہ کہتے ہوئے ک ریم بخش نوٹ بک میں بال پوائنٹ رکھ کر بے نیازی کے ساتھ دفتر سے نکل جائے گا۔ اس سے زیادہ وہ اس کی کیا توہین کرسکے گا۔ یہ سوچتے ہی وہ ڈھے سا گیا۔
’’نہیں! کریم بکش مفرور افسر ہے اس کے پاس نہیں جانا چاہیے۔‘‘
مظہر قریشی کے ساتھ کسی زمانے میں اس کی گاڑھی چھنتی تھی بڑا معقول او رسیدھا سادہ آدمی ہے۔ افسر ہوتے ہوئے بھی اس میں افسروں والے ناز نخرے نہیں۔ وہ اس کے دفتر میں داخل ہوگا تو مظہر بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کرے گا اور یہ بھی ممکن ہے دو چار افسر پہلے ہی اس کے پاس بیٹھے ہوں۔ وہ سب سے اس کا تعارف کرائے گا اور بفرض محال کوئی کرسی خالی نہ ہوئی تو وہ ایک اور کرسی منگوا کر اسے اپنے پاس بٹھائے گا۔ اس کے ساتھی افسروں کے جاتے ہی وہ دونوں اکیلے رہ جائیں گے۔
’’جی ہاں، سوئے اتفاق ایسا ہوتا رہا کہ آپ اس شہر تو میں دوسرے میں!‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ یوں مسکرائے گا جس کا جواب دیتے ہوئے اسے حقیقی شرم آئے گی۔
کلرک ہوں۔‘‘ یہ غیر متوقع جواب دینے کے بعد وہ مظہر سے آنکھیں ملانے کی بجائے اپنی نظریں سامنے پڑے پیرویٹ تلے دبانے کی کوشش کرے گا۔
’’بس! … تمھیں تو ہیڈ کلرک ہونا چاہیے تھا، اس کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ یہ پوچھتے ہوئے مطہر صرف حیرانی کا اظہار نہیں کرے گا بلکہ اس کے چہرے پر ناگواری اور نفرت کے تاثرات واضح ہوجائیں گے۔ اتنے میں چپراسی دونوں کے سامنے چائے رکھ کر باہر جا چکا ہوگا۔
’’کوئی خاص وجہ نہیں۔‘‘ ایک شرمندگی سی اس کے چہرے پر آکر گزر جائے گی اور سامنے پڑی یخ ہوتی چائے اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب مظہر کو اس میں کوئی دلچسپہی نہیں رہی۔ اس لیے وہ ٹیلی فون ڈائریکٹری سے نمبر ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوستوں سے گپ شپ کرتا رہے گا۔ ایسے میں اسے اپنا وجود کتنا بے معنی اور حقیر سا لگے گا۔
’’میں چلتا ہوں۔‘‘ وہ دفتر سے باہر نکلتے ہوئے آخری نگاہ مظہر کے چہرے پر ڈالے گا اور اپنا دایاں ہاتھ پیشانی تک لاتے ہوئے اسے سلام کرے گا۔ مظہر ٹیلی فون پر کسی سے غیر ضروری باتیں کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہہ دے گا۔ یوں وہ دل کی بات دل میں لیے وہاں سے چلا آئے گا۔
اچانک اسے یوں لگا جیسے تخیل کی دنیا سے نکل کر حقیقت کے آنگن میں آگیا ہو، یوں وقتی طور پر اسے ذہنی اذیت سے نجات مل گئی۔ وہ اٹھا اور ریکارڈ روم جاکر مطلوبہ فائلیں تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد وہ ایک فائل حاصل کرنے میںکامیاب ہوگیا لیکن اس دوران وہ اتنی دھول پھانک چکا تھا کہ دوسری ڈھونڈنے کی ہمت نہ رہی مگر چھٹی میں ابھی دو گھنٹے پڑے تھے۔
’’کیوں نہ چیک بکیں تلاش کرلی جائیں!‘‘ اس نے سوچا اور الماری کھول کر کھڑا ہوگیا۔ سب سے اوپر والا خانہ، نہیں… اس سے نیچے والا نہیں… خانہ نمبر تین، اس میں بھی نہیں… آخری اور سب سے نیچے والا خانہ، بالکل نہیں…
اسے پریشانی ہونے لگی اور وہ الماری بند کر کے کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔ دفتر بند ہونے سے آدھ گھنٹہ قبل اسے یاد آیا کہ تمام چیک بکیں منیجر کے دفتر کے سیف میں بند ہوئی ہیں لیکن اس وقت وہ منیجر کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا کیوں کہ وہ اکثر اس کی توہین کرتے ہوئے بدتمیزی پر اتر آتا تھا۔ اس نے کئی بار سوچا کہ ایسی کلرکی سے تو بہتر ہے وہ چاٹ کی ریڑھی لگالے مگر پھر خیال آتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایسا اور اس جیسا ہر خیال ایک پتھر بن کر اس کے جسم و روح کو سنگسار کر دیتا اور پھر اس کی انگلیاں ٹائپ رائٹر کی چابیوں پر متحرک ہوجاتیں۔
اگلے دن اس نے دفتر پہنچتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ دوسری فائل ڈھونڈ نکالی۔ اب منیجر کے کمرے میں جانے کے لیے اس کے پاس جواز تھا۔
’’میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘ اس نے پردہ ایک طرف سرکا کر منیجر سے پوچھا۔
’’میں نے کل تمہیں ایک ضروری رپورٹ ٹائپ کرنے کے لیے کہا تھا!‘‘ منیجر نے ’’ہاں آؤ‘‘ کے بجائے اس سے سوال کیا تو وہ کڑھ کر رہ گیا۔
’’جی، وہ چیک بکیں سیف میں پڑی ہیں، لینے آیا ہوں۔‘‘ اس کی نظریں سیف پر جم کر رہ گئی تھیں۔
اچانک اسے اپنے پاؤں میں چھنا کے کی آواز آئی، اس نے جھک کر دیکھا، چابیوں کا گچھا پڑا تھا۔ اس کا جی چاہا اس گچھے کو پاؤں کی ٹھوکر سے واپس منیجر کی میز پر پھینک دے اور اسے واضح الفاظ میں کہے ’’افسر بڑا نہیں ہوتا، اچھا انسان بڑا ہوتا ہے۔‘‘ لیکن وہ اس کی سرشت سے اچھی طرح واقف تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اس کی چخ چخ سے بھاگتا تھا۔
اس نے جھک کر چابیوں کا گچھا اٹھایا اور تھوڑی دیر میں مطلوبہ چیک بکوں کا بنڈل ڈھونڈ کر اپنی میز پر آگیا۔ اگرچہ منیجر کے روپے نے اس کی حوصلہ شکنی کی تھی تاہم وہ مطمئن تھا کہ اب اس کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ اس نے کام کا آغاز کرنے سے پہلے چائے کی پیالی منگوائی اور سڑک سڑک کر پینے لگا۔ اسے ٹائپ رائٹر پر کام کرتے ہوئے چائے پینا اچھا نہیں لگتا تھا۔
اس نے دو سفید کاغذ ٹائپ رائٹر میں پھنسا کر درمیان میں کاربن رکھا اور کام شروع کر دیا۔ اب اس بات کا خصوصی دھیان رکھنا تھا کہ فائل میں ٹائپ شدہ رپورٹ اور چیک میں بھری رقم برابر ہونی چاہیے۔ اس کی انگلیاں ٹائپ مشین پر رواں دواں تھیں۔ ورق پہ ورق الٹتے ہوئے وہ دل میں خوش ہو رہا تھا کہ کام جتنا بڑا دکھائی دیتا ہے اتنا ہے نہیں بلکہ چھٹی سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ختم کرلے گا۔ لیکن ایک ورق الٹ کر اگلے چیک پر نظر پڑی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ رپورٹ اور چیک کی رقم میں پورے دو لاکھ کا تفاوت تھا۔ اس نے پھر غور سے دیکھا مبادا غلط پڑھ رہا ہو لیکن وہ ٹھیک پڑھ رہا تھا۔
حیرانی کے ساتھ اسے پریشانی اس لیے ہوئی کہ پچھلے تین سال سے وہی رپورٹ بناتا اور چیک میں رقم بھرتا تھا جب کہ منیجر پہلے رپورٹ کی پڑتال کرتا اور پھر چیک پر دستخط کرتا تھا۔ رپورٹ پر سب کچھ ٹھیک تھا، منیجر کے دستخط بھی موجود تھے لیکن پتہ نہیں کیوں اسے شک گزرا کہ یہ پورٹ اس کی ٹائپ کی ہوئی نہیں ہے بلکہ کسی اناڑی ٹائپسٹ کا کارنامہ ہے۔ اس نے چیک بک فائل میں رھی اور منیجر کیھ پاس چلا گیا۔ وہ اس وقت اپنے کسی دوست کے ساتھ گپ شپ کر رہا تھا۔ اس نے فائل کھول کر سامنے رکھتے ہوئے سمری اور چیک کی رقم پر قلم رکھ دیا، منہ سے کچھ نہیں بولا۔ منیجر نے دونوں رقوم دیکھیں اور پھر اس کی آنکھوں میں یوں جھانکا جیسے نظروں سے اس کی بینائی نوچ لے گا۔
’’تھوڑی دیر بعد آؤ۔‘‘ منیجر نے اس سے کہا او روہ واپس آگیا۔
تقریباً بیس منٹ کے بعد منیجر نے اسے بلایا، وہ پھر فائل اٹھائے اس کے پاس پہنچ گیا۔
’’بیٹھو، منیجر نے کہا۔
’’شکریہ جناب۔‘‘ کہتے ہوئے وہ کرسی پر یوں بیٹھا جیسے ابھی اٹھ کر بھاگ نکلے گا۔
’’سنو، میں تھوڑا بدتمیز ضرور ہوں لیکن میرے دل میں ہمدردی کا سمندر موجزن ہے۔ یہ سامنے تو نظر نہیں آتا، محسوس کیا جاتا ہے۔ میں کچھ دنوں سے یہ محسوس کر رہا ہوں کہ تم کسی الجھن میں ہو، کوئی بات تمہارے ہونٹوں پر آکر گم ہوجاتی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اکیلے میں خود کلامی کرتے ہو۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی غم بانٹنے والا نہ ہو، لیکن تم تھوڑے سے بے وقوف ہو کیوں کہ گلاب کی شاخ پر کانٹے دیکھ لیتے ہو، لیکن تمہیں خوشبو بکھیرتا پھول نظر نہیں آتا۔ غمگسار زمین میں نہیں اگتا، تلاش کرنا پڑتا ہے مگر تم میں جستجو کی ہمت نہیں۔
’’میرے بچے نہیں لیکن میں عیال داروں کے مسائل سمجھتا ہوں۔ اتنے عرصے سے میرا غضب تم پر برس رہا ہے، تم نے کبھی اف نہیں کی۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اپنے دفتری کام میں ماہر ہو لیکن تم میں ایک کمی ضرور ہے، تم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جناب آج آپ کا موڈ اچھا ہے یا آپ اچھے لگ رہے ہیں۔ یہ چاپلوسی یا خوشامد نہیں ہوتی بلکہ دفتری آداب ہیں اور تمھیں ایک بات اور بھی بتاؤں، پیاسا سمندر کے کنارے بیٹھ کر یہ کہتا رہے کہ میں پیاسا ہوں، میں پیاسا ہوں تو اس میں سمندر کا کوئی دوش نہیں کیوں کہ وہ دیکھتا ہے نہ سنتا ہے، اس کی کوئی لہر پیاسے کے حلق میں خود نہیں اترتی۔ تم بھی ایسے ہی پیاسے ہو، تمہاری کرسی سمندر کے کنارے پڑی ہے، لیکن تم سسک رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی افسر اپنے کلرک سے ایسی بات نہیںکرتا مگر میں نے تمہیں پڑھ لیا ہے، تم ان لوگوں م یں سے ہو جو صرف اتنی زمین پر اکتفا کرتے ہیں جس پر ان کے پاؤں آسانی سے ٹک جائیں اس سے زیادہ کی خواہش تو کرسکتے ہیں مگر جستجو نہیں کرتے، ایسے لوگ کاہل ہوتے ہیں اور انہیں زمانہ بہت پیچھے چھوڑ جاتا ہے… یعنی تم جیسوں کو!‘‘
منیجر کی ایک ایک بات اس کے دل میں اتر رہی تھی، وہ اس گفتگو میں اتنا محو ہوگیا کہ اسے یاد ہینہ رہا، وہ اس کے پاس کس کام سے آیا تھا۔ اس کے تصور میں منیجر کی دوسری شخصیت ابھر رہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس نے بڑی کھری باتیں کتنی وضاحت سے کی ہیں لیکن کچھ باتیں وہ پھر بھی نہیں سمجھ پایا۔
’’ہاں، اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے‘‘ منیجر نے بات ختم کرتے ہی اس سے پوچھا لیا۔
سر! وہی رپورٹ اور چیک کی رقم مین فرق!‘‘ اسے بہت دور سے اپنے آپ کو کھینچ کر لانا پڑا۔
’’میرا مطلب اس سے نہیں تمہارے ذاتی مسئلہ سے تھا لیکن اگر تم چاہتے ہو کہ پہلے دفتری کام کرلیا جائے تو چلو اس پہ بات کرلیتے ہیں۔‘‘ منیجر اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو اسے یوں لگا جیسے اس کی زندگی میں پہلی بار بہار آئی ہو، پہلی بار پھول مہکے ہوں، اسے سرشاری کا احساس ہوا، اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے ذہن کی بند کھڑکیاں کھل گئی ہوں اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہونے لگا ہو۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس مسئلے کا خوب صورت حل تلاش کرلیا اور اطمینان کی ٹھنڈک اس کی رگ و پے میں دوڑ گئی۔
’’توپھر یوں کرو۔‘‘ منیجر نے اسے مشورہ دیا۔
’’جناب! آپ کی بات بجا لیکن ایک قباحت پھر بھی ہوگی اور وہ یہ کہ …! اس بار اس نے منیجر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو لیکن کچھ تو کرنا ہوگا۔‘‘ منیجر کی پیشانی پر پریشانی کی عبارت ابھر آئی۔
’’میرے خیال میں اگر یوں کرلیا جائے تو ہم جانچ پڑتال سے بھی بے فکر ہوجائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکان تھی۔
’’میں اسی لیے کہتا ہوں کہ تم اپنے کام میں ماہر ہو، تمہاری بات مجھے اچھی لگی، کام کرتے رہو۔‘‘ منیجر نے اسے کہا تو وہ اٹھ کر اپنے دفتر آگیا۔
اسے اپنی ذہانت پر فخر کا احساس ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی ایک بات نے منیجر کو اس کا قائل کرلیا تھا۔ ایک گھنٹے کا باقی کام اس نے نصف گھنٹے میں کیا اور اب رپورٹ پر منیجر کے دستخط باقی تھے۔
وہ رپورٹ فائل میں لگا کر منیجر کے پاس لے گیا۔ اس نے جائزہ لیتے ہوئے دستخط کردیے۔ وہ واپس جانے لگا تو منیجر نے اسے بلا لیا ’’بیٹھو بھئی چائے پیتے ہیں!‘‘
’’شکریہ جناب! شام کی چائے بھی ہمیشہ بچوں کے ساتھ پیتا ہوں۔‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’اب کہو تمہیں کتنی رقم چاہیے؟‘‘ منیجر نے اچانک اسے کہا۔
’’نہیں جناب، مجھے کچھ نہیں چاہیے!‘‘ اس نے کہنے کو تو کہہ دیا لیکن چند لمحوں کے لیے بیوی کی بات کی بازگشت اس کے کانوں میں گونجنے لگی، اس نے سوچا، مہربان ہوتی قسمت کو نامہربانی نہیں کرنا چاہیے لیکن بات اس کے منہ سے یوں نکل چکی تھی جیسے تیر کمان سے۔ ایک پچھتاوے کی سی کیفیت اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی۔
’’پورے ایک لاکھ ہیںـ منیجر نے کڑکڑ کرتے نئے نوٹوں کا بنڈل اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’اتنے روپے میں کیا کروں گا؟‘‘ اس نے انتہائی حیرانی سے منیجر کی طرف دیکھا۔
’’اور یہ پچیس ہزار میری طرف سے! چاہو تو کل تم چھٹی کرسکتے ہو، منیجر نے فراخ دلی سے کہا۔
’’جناب یہ تو بہت بڑی رقم ہے۔اس کی نظریں منیجر کے چہرے سے ہوتی ہوئی روپوں پر آکر رک گئی ت ھی۔
’’جب اتنی رقم تمہاری جیب میں ہوگی تو حسرتیں اور ضرورتیں خود رو پودوں کی طرح تمہارے دل میں خود بخود اگنے لگیں گی تب تمہیں یہ روپے بھی بہت تھوڑے لگیں گے، چلو اٹھاؤ، یہ رقم اور کل چھٹی کرلینا پرسوں ملاقات ہوگی!‘‘
منیجر نے خود اس کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
اس نے رقم جیب میں ٹھونسی اور منیجر کا ممنون ہوتے ہوئے اپنے دفتر آگیا۔ فائل الماری میں رکھ کر تالا لگایا اور اطمینان سے بیٹھ کر چائے پی۔ تھوڑی دیر بعد چھٹی ہوئی اور وہ گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ آج خوشی سے اس کے قدم من من بھر کے ہو رہے تھے مگر گھر تو شاید کوسوں دور ہوگیا تھا۔ وہ گھر پہنچا تو شام گہری ہوچکی تھی اور مشرق سے رات کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔
اس نے سوچا، صبح چھٹی ہے وہ جھوٹ موٹ دروازے تک جاکر بیوی کو اتنی بری رقم کی اچانک خبر سنائے گا تو وہ کتنی خوش ہوگی۔ لہٰذا وہ بیوی کو کچھ بتائے بغیر اتنی بڑی خوشی سینے میں دبائے لیٹ گیا مگر رات بھر کروٹیں بدلتے ہوئے صبح کا انتظار کرتا رہا۔ آخر کسی پہر خوشی پر نیند غالب آگئی اور وہ سوگیا۔ آنکھ کھلی تو معمول کے مطابق بچے اسکول جاچکے تھے۔ اس نے اتھ کر غسل کیا، اتنے میں بیوی ناشتہ لے آئی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر اس نے ویسا ہی کیا جیسا سوچ رکھا تھا، وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتا دروازے تک پہنچ گیا۔ بیوی ڈیوڑھی میں چپ چاپ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا آج کچھ نہیں کہوگی؟‘‘ اس نے مڑکر بیوی کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔
بیوی ندامت سے بولی ’’آپ تو جانتے ہیں میرا میکہ مذہبی گھرانہ ہے۔ ماں باپ کی تربیت نے میرا ذہنی سانچہ ایسا بنا دیا ہے کہ طبیعت گناہ کی کوئی بات گوارا نہیں کرتی۔ کل میں نے غصے میں آپ کو نہ جانے کیا کیا کہہ دیا… مجھے معلوم ہے کہ آپ حلال روزی کماتے ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے… بس کبھی کبھی نئے زمانے کی نئی ضرورتیں مجبور کرتی ہیں تو آپ سے کوئی فرمائش کر بیٹھتی ہوں، مگر بعد کو دیر تک کڑھتی ہوں کہ اپنے مجازی خدا کو ناحق پریشان کیا… اب دفتر جائیے اور دل لگا کر کام کجیے۔ میں اسی میں خوش ہوں کہ میرے اور میرے بچوں کے حلق سے حرام کا ایک لقمہ بھی نہیں اترتا۔‘‘
اس نے بیوی کے اجلے چہرے سے نگاہیں پھیر لیں… اس کا جی چاہا کہ جیب میں پڑے سوا لاکھ روپے چولہے میں جھونک کر راکھ کردے۔lll