وہ ایک پسماندہ ملک میں پیدا ہوا تھا اور وہ بھی ایک عام آدمی کے گھر… اس سلسلے میں اسے ساری دنیا سے شکایت تھی۔کبھی کبھی مایوسی اور غصے کے عالم میں کہتا: ’’واہ مولا واہ! اتنی بڑی دنیا بنا ڈالی۔ مجھے کسی ڈھنگ کی جگہ ڈال دیا ہوتا۔‘‘
اس کی کھوپڑی میں زلزلہ آتا تھا، تو وہ اُبل کر اندر ہی اندر کھولنے لگتا تھا۔
’’دنیا میں کہیں ڈھنگ کی کوئی جگہ رہ گئی ہے! ہر طرف لوٹ مار ، خون خرابہ، زندگی کی ارزانی، انسان کی تذلیل اور …‘‘
وہ اپنی آنکھوں، کانوں اور ناک کے شٹر گرائے رکھتا تھا۔ اس کے باوجود مٹی اور فضا سے اٹھتے تعفن کے بھبکے کسی نہ کسی طرح اس کے دماغ میں گھس جاتے تھے۔
وہ ڈوبتے سورج کے ساتھ دفتر سے لوٹ رہا تھا۔ تنگ گلی مختلف عمر اور سائز کے بچوں سے اٹی پڑی تھی۔ وہ ان سے بچتا بچاتا، کانوں کی لویں کھینچتا، بڑی مشکل سے اپنے کوٹھڑی نما کمرے تک پہنچا۔ وہ تالا کھولنے کو جھکا، تو ٹھٹک کر رہ گیا۔ دروازے کی دہلیز پر اخبار کا ایک ٹکڑا ہلکے ہلکے سر پٹخ رہا تھا۔
اسے کبھی اخبار سے دلچسپی نہ رہی تھی … اور اگر ہوتی بھی تو مسلسل سولی پر لٹکا بجٹ اسے اس عیاشی کی اجازت نہ دیتا۔ اس نے دو انگلیوں سے اخبار کا ٹکڑا اٹھالیا۔
’’چلو! پونچھنے پچھانے کے کام آئے گا۔‘‘
اس نے دروازہ کھولا اور بساندھی، گیلی تاریکی میں اتر گیا۔ٹٹول کر اکلوتا بٹن تلاش کیا اور بلب روشن کردیا۔ کمرا مختصر سائز کے باوجود خالی خالی تھا۔ بانس کی چوںچوں چارپائی پر میلا کھیس سلوٹوں میں الجھا تھا۔ ایک معذور کرسی کے خالی فریم میں گتا پھنسا کر اسے میز بنالیا گیا تھا۔ ایک کونے میں مٹی کی صراحی، پلاسٹک کا گلاس اوڑھے اونگھ رہی تھی۔
اس نے پاؤں کے انگوٹھے سے ایک ایک کرکے چپل اتارے اور چارپائی کے نیچے دھکیل دیے۔
اس نے بار بار سوچا تھا کہ کچھ کر کراکے ایک پنکھا خرید لے لیکن …
گاؤں میں اس کے دو عدد بچے، ایک عدد بیوی اور زندہ ماں باپ تھے۔ کبھی کبھار وہ اللہ کا شکر ادا کرلیا کرتا تھا کیونکہ اس کی دونوں بڑی بہنیں بیاہی جاچکی تھیں۔
شادی کی رات اس نے انتظام کررکھا تھا … اسے یقین تھا کہ وہ اپنی بیوی کو رضا مند کرلے گا کہ فی الحال بچہ سازی کے لیے حالات قطعاً موزوں نہیں … ممکن ہے آگے چل کر آمدنی میں کچھ اضافہ ہو… پھر دیکھا جائے گا۔
اس نے بیوی کی خاموشی کو مکمل رضا مندی سمجھ لیا۔
اس کے ماں باپ اٹھتے بیٹھتے صدیوں پرانے نسخے کا ورد کرنے لگے: ’’آنے والا اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔‘‘
اس نے کوئی ڈھائی سال تک بند باندھے رکھا … پھر ملنے والوں کی آنکھیں کھلے عام اس کی مردانگی پر شک کرنے لگیں … اس نے انتہائی کرب اور دکھ سے بند توڑ دیا۔
شہر میں نوکری کیسے ملی؟
اس کے باپ کی پگڑی جگہ جگہ رلتے مٹی ہوگئی۔ کسی نے رحم کھا کر بے ذائقہ، خشک سوکھی ہڈی ڈال دی۔
اس کے اندر، ارد گرد، خواب مکھیوں کے مانند بھنبھناتے رہتے تھے:
’’اگر تقرری کسی کھیلتی کودتی جگہ پر ہوجائے، تو سال بھر میں ساری دنیا گھر ڈال لوں گا۔ سب سے پہلے گاؤں میں چار برجوں والی حویلی بنے گی۔ پھر اس بدبودار کوٹھڑی پر لات مار کرکسی اچھےعلاقے میں لگژری فلیٹ میں منتقل ہوجاؤ ںگا … اماں، ابا، بیوی اور بچے …
اس کے ذہن کی لگامیں تن گئیں۔ گھوڑا پچھلے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور بری طرح ہنہنانے لگا:
’’آدمی کے پاس اتنا سب کچھ ہو تو بیوی بچوں کو بلانے کی کیا ضرورت ہے۔ شہر میں ہر طرف رنگ برنگی تتلیاں اڑتی پھرتی ہیں۔‘‘
اخبار کا ٹکڑا کرسی نما میز پر چپ چاپ پڑا تھا: ’’دیکھ لیتے ہیں، ہم نے کونسی رقم لگائی ہے؟‘‘
اس کی نگاہیں سرخی پر پڑیں اور وہیں چپک کر رہ گئیں … اس نے کاغذ کا ٹکڑا مروڑ کر جلدی سے دور پھینک دیا۔
غربت اور تنگ دستی سے بھی زیادہ بوجھل خوف دھک سے اس کے کلیجے پر گرا اور کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔
اس کا ذہن گرم ہواؤں کی زد پر تھا۔
’’دروازے پر دستکیں ہوتی ہیں، دروازہ کھولتے ہی نقاب پوش اندر گھس آتے ہیں۔ سب کچھ لوٹ لے جاتے ہیں۔ ذرا بھی اکٹر دکھائی اور گولی۔ اور کبھی کبھی تو آدمی ہی کو ساتھ لے جاتے ہیں۔‘‘
اس کا پہلا ردِ عمل تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گاؤں بھاگ جائے۔
پھر اس کے احمقانہ پن نے اس کے سر پر گھونسا مارا۔
’’اتنے سارے لوگ کھائیں گے کہاں سے؟ زندہ رہنے کے لیے کھانا لازمی قرار دیا گیا ہے… کیوں؟‘‘
اسے ابا پر غصہ آگیا۔
’’بچا بچایا جو تھا، بیٹیوں کی شادیوں پر اجاڑ دیا۔ ہم لوگ اتنے احمق کیوں ہیں؟‘‘
اس نے رونے کی کوشش کی مگر آنسو نہیں نکلے۔ وہ ہنسنے لگا۔
’’ہم سے تو جنگل کے جانور اچھے ہیں …. کوئی فکر نہ فاقہ۔‘‘
اس کا خوف اس کی گردن پر سوار ہوکر اس پرچابک برسانے لگا … وہ سرپٹ بھاگنے لگا۔
’’دروازے کے پیچھے ایک چین لگالی جائے … دستک پر ذرا سا کھولا اور خطرہ دیکھ کر کھٹ سے بند کرلیا۔
اس نے گردن گھما کر کمرے کا جائزہ لیا۔
’’اچھا ہے، اندر آنے کا یہی ایک رستہ ہے۔‘‘
دھڑام سے دروازے سے کوئی چیز ٹکرائی۔ وہ اچھلا اور اس نے اپنے ڈھول کے مانند بچتے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔
دروازہ بری طرح سے منمنایا تھا۔
’’حرامیوں کو فٹ بال کھیلنے کے لیے یہی جگہ ملتی ہے۔ گلی گلی، گھر گھر، گراؤنڈ بنا رکھا ہے۔‘‘
وہ خوف کی ایک نئی لہر میں بہ گیا۔
’’دروازہ ایک لات کی مار بھی نہیں … اسے دیمک چاٹ چکی ہے، اندر سے کھوکھلا ہو چکاہے۔‘‘
وہ خوف کو دباتا ہوا اٹھا اور دروازے کو ٹھوکنے بجانے لگا … پھر مایوس ہوکر چارپائی کی طرف لوٹ آیا۔
’’چین کیا کرے گی! اب ایک ہی صورت ہے، پہلے دروازے کو مضبوط بنایا جائے پھر ….‘‘
اب اسے رقم کی فکر ہوئی ….
وہ تھوڑی دیر اپنے بجٹ کی راکھ میں کوئی چنگاری تلاش کرتا رہا۔
’’اس ہفتے گاؤں جانا ملتوی … یہ رقم دروازے پر لگے گی۔‘‘
وہ گھوم پھر کر خستہ حال بستی کے سب سے خستہ حال بڑھئی کو پکڑ لایا۔
بڑھئی کو اس بستی کے ہر شخص کا حال معلوم تھا۔
’’ویسے تو اس دروازے کا وقت پورا ہوچکا ہے۔ لیکن اندر سے کچھ لکڑیاں جوڑ دی جائیں تو شاید کچھ دن اور چل جائے!‘‘
وہ بڑھئی کے ساتھ لکڑیوں کے کباڑی بازار گیا اور اس کی راہنمائی میں سیکنڈ ہینڈ لکڑیاں خرید لایا۔ وہیں سے اسے چین بھی مل گئی۔
بڑھئ نے بڑی جلدی کام مکمل کرلیا … اور چین بھی لگادی۔
اس نے دروازے کا معائنہ کیا۔ تھوڑا سا کھول کر چین کی مضبوطی جانچی … پھر مطمئن واپس چارپائی پر لوٹ آیا۔
ذہن میں کلبلاتے کیڑے پرسکون ہوگئے۔
وہ ایسی نیند سویا جو ایک عرصے سے اسے نصیب نہ ہوئی تھی۔
اچانک رات کے کسی پہر دروازہ بج اٹھا۔ نیند پھیکی پڑ کر ساتھ نہ دے رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس کے حواس بیدار ہوئے۔
وہ اعتماد سے اٹھا اور بلب روشن کرکے دروازے کی طرف بڑھا۔
دستکیں جاری رہیں۔
وہ چیخا۔
’’کون ہے؟ کیا کام ہے؟ کیوں دروازہ توڑ رہے ہو؟
جواب میں ایک نرم، ڈری ہوئی آواز ابھری۔
’’بھائی! ہم آپ کو ہوشیار کرنے آئے ہیں … بستی میں ڈاکو لٹیرے گھس آئے ہیں۔‘‘
آواز جانی پہچانی تھی، اپنی سی تھی۔
تجسس اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دروازے تک لے گیا۔
اس نے چٹخنی کھولی … چین رہنے دی۔
’’کہاں ہیں ڈاکو؟ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
ایک ٹھنڈی نال اس کے تپتے ماتھے پر ٹک گئی۔
وہ وہیں کھڑے کھڑے آدھا مرگیا۔ اس نے چین ہٹا دی۔
ان کے چہرے سیاہ نقابوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔
پستول والا اسے دھکیلتے ہوئے اندر لے آیا۔
وہ گڑگڑایا! ’’لے لو! لے لو جو لینا ہے۔ سب لے لو۔‘‘
وہ ایک ساتھ ہنسنے لگے۔
اس کی نگاہیں کمرے میں پھرنے لگیں، اسے اپنی کم مائیگی پر رونا آگیا۔
اب وہ گھٹنوں کے بل جھک کر گڑگڑانے لگا۔
’’قسم لے لو! میرا کسی سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں نماز گھر پر ہی پڑھتا ہوں۔ کسی جلسے جلوس میں کبھی نہیں گیا۔ میں کوئی نہیں، کچھ بھی نہیں۔‘‘
ایک نے اسے دھکا دیا، وہ چارپائی پر گرگیا۔
’’چپ چاپ پڑے رہو، ہمیں جو لینا ہے، لے لیں گے۔‘‘
اس دوران میں باقی لوگ اپنا کام شروع کرچکے تھے۔
وہ دروازہ اکھیڑ رہے تھے۔
وہ آدھا مرا، آدھا جیا دیکھتا رہا۔
دروازہ چوکھٹ سے الگ ہوگیا۔
’’بھائی! ہمیں ایک مضبوط، چین والے دروازے کی ضرورت تھی… ہم لیے جارہے ہیں۔‘‘
وہ چلے گئے۔
وہ چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
دروازے کی جگہ ایک غار رہ گیا تھا … اور غار کے راستے باہر کی تاریکی بے دھڑک اندر آرہی تھی۔ وہ سر پر ہاتھ رکھے سوچ رہا تھا کہ اس کا کیا بنے گا! اب تو کمرے کا دروازہ بھی نہیں رہا۔
اس نے رونا چاہا لیکن آنسو آکر نہ دیے…
وہ ہنس پڑا۔
’’چلو اچھا ہوا…‘‘
وہ چارپائی پر خوب پھیل کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد کمرا اس کے مطمئن خراٹوں سے گونج رہا تھا۔
ll