لباس انسان اور سماج دونوں کی تہذیب و شائستگی کا نمائندہ بھی ہے اور مظہر بھی۔ یہ سماجی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کے بنانے اور بگاڑنے والا بھی ہے اور ان کی خوبیوں کے ناپنے اور سمجھنے کا پیمانہ بھی۔ کم لباسی مہذب و شائستہ معاشروں کے نہ تو شائستہ مرد پسند کرتے ہیں اور نہ خواتین۔ یہی وجہ ہے کہ فیشن بن جانے کے باوجود لوگ اس وقت تک اسے پسند نہیں کرتے جب تک رواج پاتے پاتے اس کی برائی کا تصور کمزور نہ پڑجائے یا ذہنوں سے ختم نہ ہوجائے۔ زیادہ مدت پہلے کی بات نہیں بس دس پندرہ سال پہلے کے سماج کے بارے میں تصور کیجیے کہ لڑکے اورلڑکیوں کا کس طرح کا لباس پسندیدہ ہوتا تھا اور کس لباس کو دیکھ کر لوگ ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ جس لباس پر لوگ نکیر کرتے تھے وہ عام ہوتا جارہا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سماج سی شائستگی دھیرے دھیرے اٹھ رہی ہے، پرانی قدریں کمزور پڑرہی ہیں اور نئے ٹرینڈس یا روایات طاقت و رواج پارہے ہیں۔ اسے آپ زمانے کی تبدیلی کہہ دیتے ہیں لیکن اصل میں یہ اقدار و روایات اور کلچر کی تبدیلی ہے۔ کونسا کلچر اور کونسی روایات کمزور پڑ رہی ہیں اور کونسی رواج پاکر مضبوط ہورہی ہیں یہ ہم سب کے سامنے ہے۔
لباس تہذیب کی علامت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے کا غیر مہذب انسان بے لباس ہوتا تھا۔ جیسے جیسے انسان نے عقل و فہم کے اعتبار سے ترقی کی تو اس کی تہذیب نے بھی ارتقاء دیکھا۔ جانوروں کی کھالوں سے بدن ڈھانکنے والے انسان نے اپنی ذہنی و فکری ترقی کے ساتھ لباس کو بھی ترقی دی۔ اس کی تراش خراش کی اور پھر ڈیزائن بنانے شروع کیے۔ قدیم زمانے میں ڈیزائنس کا استعمال جسم ڈھانکنے کے لیے ہوتا تھا۔ آج کی ڈیزائنس کس کام آرہے ہیں ہم دیکھتے ہیں۔ بے لباسی سے لباس تک پہنچنے والا انسان ترقی کرگیا۔ آج کا وہ انسان جو ساتر لباسی سے کم لباسی کی طرف جارہا ہے، کیا کررہا ہے سوچئے!
لباس کا مقصد جسم کے قابل ستر حصوں کو چھپانا، موسم کی شدت سے بچانا اور زینت، یعنی اچھا لگنا ہے۔ یہ بات ہم سب بھی سمجھتے ہیں اور اصحابِ علم و فہم بھی یہی بتاتے آئے ہیں۔ موجودہ زمانے میں جبکہ فیشن ڈیزائننگ ایک فن کی صورت اختیار کرکے پوری دنیا میں ایک مقبول اور منافع بخش صنعت بن گئی ہے، یہ نظریہ تبدیل ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ یہ بات ایک تہذیب کی بھی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے اور موجودہ صنعت نظریہ لباس کو بھی بتاتی ہے۔ آج کا لباس جسموں کو ڈھانپتا کم ہے جھنکاتا زیادہ ہے۔ وہ خود کو اچھا لگتا ہو یا نہ لگتا ہو، اوریقیناً اچھا ہی لگتا ہوگا تبھی تو لوگ پہنتے ہیں، لوگوں کو زیادہ اچھا دکھانے کا کام کرتا ہے۔ رہی بات موسم کی شدت سے محفوظ رکھنے کی تو ہم ایسا بھی دیکھتے ہیں کہ سرد ممالک کی خواتین سروں پر اونی ٹوپا اور اوور کوٹ پہنے ہوئے ہیں مگر ٹانگیں گھٹنوں کے قریب تک کھلی ہیں۔ فیشن شوز پر’کیٹ واک‘ کرتی ماڈلس جو لباس کے کسی نہ کسی ڈیزائن کو مارکیٹ میں پروموٹ کررہی ہوتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ لباس کو پروموٹ کررہی ہوتی ہیں یا بے لباسی اور کم لباسی کو۔ وہ تو لباس کو ہی پروموٹ کرتی ہیں مگر کچھ ’دقیانوسی‘ لو گ اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ اگر انہیں یہ اچھا نہیں لگتا تو اس میں قصور ان کا نہیں بلکہ ان ’دقیانوسی‘ لوگوں کا ہے جنھیں وہ اچھا نہیں لگتا۔ وہ خود سے پوچھیں کہ انہیں اچھا کیوں نہیں لگتا؟ آپ بھی خود سے اس بارے میں سوال کرسکتے ہیں۔
لباس کا گہرا اور مضبوط تعلق ’فرد کی آزادی‘ سے بھی جڑا ہے۔ لباس کی آزادی موجودہ دور کا مضبوط فلسفہ اور جمہوریت کے نظریہ آزادی کا بنیادی نقطہ ہے۔ اس کے مطابق ہر انسان کو اپنی پسند کا لباس پہننے کی آزادی ہے اور ہونی چاہیے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ مذاہب کے مذہبی رہنما اپنے اس حق کا استعمال کرتے ہوئے یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ وہ لباس پہننا تو دور کی بات ہے بالکل برہنہ جسم رہتے ہیں، انہیں اس بات کی بھی آزادی ہے جو ان کے مذہب نے انھیں دی ہے۔ یہ چیز مذہبی ثقافت اور کلچر کو بھی بتاتی ہے اور ’فرد کی آزادی‘ کو بھی۔ اس میں یہ بات کہیں نہیں دیکھی اور سمجھی جاتی کہ کسی کے برہنہ جسم رہنے سے دوسروں کو اسے دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اگر عام سماج کی بات کی جائے تو آپ کو بے شمار فیشن زدہ لڑکیاں اور خواتین ایسی نظر آجائیں گی جن کے جسم لباسوں کے اندر سے جھانک رہے ہوں گے۔ لگژری کاروں میں ایسے نوجوان نظر آئیں گے جنھوںنے سینڈو بنیائن جیسی کوئی چیز اوپر سے پہنی ہوگی اور نیچے گھٹنوں سے اوپر تک کے نیکر۔ ان میں مردو خواتین کی قید نہیں۔ وہ ’تعلیم یافتہ‘ بھی ہیں اور ’مہذب‘ بھی اور ساتھ ہی نہایت ’اعلیٰ‘ اور مالدار گھرانوں کے چشم و چراغ بھی ہیں۔ ان کی اس آزادی میں سامنے والے ’دقیانوسی‘ کی آزادی کا کہیں بھی خیال نہیں جسے وہ سب دیکھ کر بالکل اچھا نہیں لگتا۔ سوچیے ایک لڑکا اگر ایسے لباس میں ہے تو کیا ہر لڑکی کو اسے دیکھ کر ’فیل گوڈ‘ ہوگا یا کوئی لڑکی نیم لباس ہے تو کیا ہر لڑکا اسے دیکھ کر ’فیل گڈ‘ کرے گا۔ نہیں! بے شمار لوگوں کو اس قسم کے لباس سے تکدر، ناپسندیدگی اور انقباض ہوگا اور ہوتا ہے۔ یہ فرد کی آزادی کا ناقص تصور ہے، جس میں صرف ایک انسان کو آزادی ہے اور دوسرے کو تکلیف۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
ہمارے ملک اور سماج میں لباس، خاص طور پر لڑکیوں کا لباس موقع موقع سے موضوع بحث بنتا رہا ہے۔ کئی سال پہلے ایک لڑکی کے ساتھ ہوئی جنسی زیادتی کے تناظر میں ایک پولیس عہدے دار کا یہ کہہ دینا کہ لڑکیوں کو مناسب لباس پہن کر گھر سے نکلنا چاہیے، ہنگامہ کا سبب بن گیا۔ ان کی ’غلطی‘ یہ تھی کہ انھوں نے لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو ان کے لباس سے جوڑ دیا تھا۔ بات کتنی درست اور کتنی غلط تھی اس کا اندازہ خود قارئین کرسکتے ہیں۔ اسی طرح کالجوں میں لڑکیوں کے ساتھ بڑھتے چھیڑ خوانی کے معاملات کے تناظر میں ایک پرنسپل نے لڑکیوں کو جب یہ مشورہ دیا کہ وہ ساتر لباس میں کالج آیا کریں تو ’فرد کی آزادی‘ کے متوالوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ لوگوں نے خوب لعنت ملامت کی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ فرد کی آزادی کے خلاف ہے۔ کچھ نے کہا کہ پرنسپل کون ہوتے ہیں یہ بتانے والے کہ لڑکیاں کیا پہنیں اور کچھ خواتین نے کہا کہ لڑکیاں ہی اپنا لباس کیوں بدلیں، مرد اپنی سوچ بدلیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مردوں کو بھی اپنی سوچ کو صالح اور پاک صاف بنانا ضروری ہے، اور ہم سے بڑھ کر اس کا وکیل کون ہوسکتا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کیوں کیا جاتا ہے کہ لباس کے بھی سماجی، معاشرتی اور تہذیبی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور غلط یا نامناسب لباس کے نتائج سماج کو بھگتنے ہی پڑتے ہیں۔ شاید اسی لباس کا نتیجہ ہے کہ مغربی دنیا میں خواتین کے خلاف جرائم کا سیلاب آیا ہوا ہے اور اب یہ سیلاب باقی دنیا کو بھی اپنی زد میں لے رہا ہے۔ کافی سالوں پہلے ترکی میں الیکشن ہوئے۔ ایک خاتون پارلیمنٹ کے لیے عوامی نمائندہ منتخب ہوئیں۔ وہ پارلیمنٹ میں اسکارف لگا کر پہنچ گئیں۔ پھر کیا تھا ہنگامہ برپا ہوگا۔ ان خاتون کو نہ صرف اپنی پارلیمنٹ کی ممبر شپ گنوانی پڑی بلکہ ان کی شہریت بھی چلی گئی۔ یہ 1991ء کی بات ہے اور ان خاتون کا نام ’مروہ کواکچی‘ ہے۔
یہ موجودہ جمہوری تہذیب کے دوہرے معیارات ہیں جہاں ’فرد کی آزادی‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، مگر اس کے باوجود بے شمار جگہوں پر ہمیں یہ نظرآجائے گا کہ ’فرد کی آزادی ‘ کا یہ تصور اتنا وسیع نہیں جتنا بتایا اور دکھایا جاتا ہے۔ اگر یہ اتنا ہی وسیع ہوتا جتنا بتایا جاتا ہے تو یوروپ کے ایک ترقی یافتہ ملک فرانس میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر قانونی پابندی عائد نہ ہوتی اور نہ کرناٹک میں ’حجاب‘ ایک سماجی اور بعد میں سیاسی اشو بنتا۔
انسانی لباس مضبوط تہذیبی، سماجی اور معاشرتی اثرات بھی رکھتا ہے اور قدروں کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ مضبوط اخلاقی قدروں پر قائم سماج و معاشرے کا لباس اس کی اخلاقی قدروں کے شایانِ شان ہوتا ہے اور اس سماج کی تہذیبی و ثقافتی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستانی سماج کل ملا کر اپنی سوچ اور تہذیبی قدروں کے اعتبار سے اس سماج سے مختلف ہے جو مغربی سماج ہے اور اس اعتبار سے اس کا لباس بھی اس سے مختلف ہے جو مغربی دنیا سے ہم مستعار لے رہے ہیں۔ ذرا گہرائی سے اگر ہم مشاہدہ اور تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا کہ ہمارے سماج کی سب سے چھوٹی یونٹ ’گھر اور خاندان‘ میں آج لباس کو لے کر ایک کشمکش جاری ہے، جو کہیں خاموش ہے اور کہیں صاف ظاہر ہے۔ دادیاں نانیاں، ماں باپ اور بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں اپنے اپنے گھروں میں ایک کشمکش سے دوچار ہیں۔ بوڑھی جنریشن اپنے بہو بیٹوں اور بیٹیوں کے لباس اور اس کے انداز وتراش خراش سے نالاں ہیں تو کہیں والدین اپنی اولاد کے لباس کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہوئے شکوہ سنج ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ ان کے لباس ان کی پرانی قدروں سے میل نہیں کھاتے اور وہ اسے غلط تصور کرتے ہیں۔ کہیں وہ اولاد کے ہاتھوں مجبور ہیں اور کہیں زمانے کی ترقی کو دیکھ کر سرینڈر کردیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لباس ان کا نہیں بلکہ کسی نئی تہذیب کا اور وہ تہذیب ہمارے اپنے سماج کی نہیں بلکہ کسی اور سماج کی ہے۔ وہ کونسا سماج ہے جس کی تہذیب کو ہم قبول کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، ہم خوب اچھی طرح جانتےہیں۔
تہذیبی استعمار کے اس دور میں پہلے ہم سوچ قبول کرتے ہیں اور پھر اس کی چیزوں کو یکے بعد دیگرے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے ہم نے مغرب کے نظریہ آزادی کو قبول کیا، پھر اس کے عورت کی آزادی کے نام پر پڑھائے گئے فلسفہ کو دل و دماغ میں اتارا اور اب اس کے ظاہری افعال و اعمال کو قبول کرتے جارہے ہیں بلا سوچے سمجھے۔ ہم دیکھ کر بھی نہیں دیکھ اور سمجھ پاتے کہ ’رشیا‘ کا صدر ولادی میر پوتن خود تو کوٹ پینٹ اور ٹائی کے مکمل لباس میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہا ہوتا ہے اور اس کے دائیں بائیں کھڑی خوبصورت خواتین کے جسم لباس کے اندر سے جھانک رہے ہوتے ہیں۔ ہم عورت کی آزادی کے ان کے نظریہ کو ظاہری طور پر مفید اور بامعنی سمجھتے ہیں مگر اس کے پیچھے کی اس سوچ کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں جو حقیقت میں عورت کو ایک شو پیس یا کموڈٹی (جنس) تصور کرکے اس کا استحصال کرتی نظر آتی ہے۔ اس استحصالی سوچ ہی کا نتیجہ ہے کہ خوبصورت عورت ہی کو ریسپیشنسٹ کے طور پر کیوں رکھا جاتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ انھوںنے جس تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا ہے وہ اصل میں ہے ہی استحصالی اور اسی سوچ نے ایک ایسی تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی کی جس میں ہوس کو اخلاقی قدراور جنسی تلذذ کو فرد کی آزادی کے خوبصورت رنگ میں پیش کیا ہے۔ معاملہ صرف خواتین کے لباس کا ہی نہیں ہے اس میں وہ مرد بھی شامل ہیں جو ’ہپّی ٹائپ‘ زندگی گزارتے ہیں اور اپنے جسم اور لباس کی تراش خراش کے لیے معروف ہیں۔
ایک معروف مفکر ہنری میکاؤ اپنے ایک مضمون بِکنی بمقابلہ برقع میں لکھتے ہیں: ’’اپنے کمرے کی دیوار پر میں نے دو تصویریں لگا رکھی ہیں، ایک مسلم عورت کی تصویر ہے جو مکمل طور پر برقعے میں ہے۔ اس کے بالکل برابر ہی مقابلۂ حسن میں شریک ایک امریکی عورت کی تصویر ہے جس کے جسم پر بکنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس میںایک عورت عام نظروں سے مکمل طور پر چھپی ہوئی ہے جبکہ دوسری کا کچھ بھی چھپا ہوا نہیںہے، ہر چیز بالکل عیاں ہے۔ عورت کی دو انتہائیں نام نہاد تہذیبی تصادم کے سلسلے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔‘‘
وہ آگے لکھتے ہیں:’’اس مضمون میں برقعے کی وکالت سے زیادہ مجھے نسوانی خوبصورتی بھاتی ہے۔ اور میں یہاں ان اقدار کا دفاع کرنا چاہتا ہوں جن کی میرے نزدیک برقع نمائندگی کرتا ہے۔‘‘
یہ کہنے کے بعد کہ ’’فیمنزم بھی نئے عالمی نظام کا ایک نہایت سنگین فریب ہے جس نے امریکی عورت کو اخلاقی بگاڑ کی راہ پر ڈال دیا ہے اور مغربی تہذیب کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں برقعے کی وکالت نہیں کررہا ہوں بلکہ ان اقدار کی وکالت کررہا ہوں جن کی نمائندگی برقع کرتا ہے، خاص طور سے اس بات کی وکالت کے مسلم عورت اپنے مستقبل، اپنے شوہر اور اپنے گھر اور خاندان کو انتہائی تقدس کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس شرم و حیااور وقار و سنجیدگی کی وکالت کررہا ہوں جس کے زیور سے مسلم عورت آراستہ ہے اور جو اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔‘‘
فاضل مضمون نگار کے کوٹس اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیںکہ لباس، خاص طور پر عورت کا لباس تہذیب اور کلچر کی نمائندگی ہی نہیں کرتا بلکہ تہذیبی اقدار اور کلچر کی بنیادوں کو بنانے اور منہدم کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ مضمون نگار نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ مغربی دنیا کو تہذیبی تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی چیز مغربی عورت کا لباس ہے۔ فاضل مضمون نگار کو ہم نے اس لیے یہاں پیش کیا ہے کہ تاکہ ہم یہ بتاسکیں کہ لباس کے تہذیبی، سماجی اور معاشرتی اثرات کیا ہوتے ہیں۔
قدیم ماہر عمرانیات اور مشہور مورخ علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ سماج میں برائیوں کے فروغ اور فرد کو گناہ کی طرف راغب کرنے میں تین قوتوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ (۱) قوتِ شہویہ (شہوانی طاقت) (۲) قوتِ غضبیہ (غصہ کی طاقت) (۳) قوت وہمیہ (انسان کے اوہام)۔ ان تینوں طاقتوں کا رول اپنی جگہ لیکن قوتِ شہویہ یا شہوانی طاقت ہی وہ طاقت ہے جو سماج میں اخلاقی بگاڑ اور جنسی برائیوں اور جرائم کا سبب بنتی ہے۔اسلام اس قوت کو بے اعتدالی سے بچانے کے لیے پردہ کا حکم دیتا ہے۔ لوگوں کا عام خیال یہ ہے کہ پردہ صرف عورتوں کے لیے ہے جبکہ اسلام کے نزدیک یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ عورتوں کے لیے لباس کی صورت میں ہے اور مردوں کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور معاشرے کی خواتین کو گھورنے سے اعراض کریں۔ اس کے لیے دین انہیں پاکیزگی قلب و نظر اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ساتھ ہی مردوں اور خواتین دونوں کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی تلقین کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکیزگئ قلب و نظر کی اہمیت لباسی پردہ سے کہیں زیادہ ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اصل میں سماج میں برائیوں کے پھیلنے اور بے حیائی کے فروغ کے راستے بند کرتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو لباس پردہ کے باوجود جب لوگوں کے ذہن و قلب پر شہوت کا بھوت سوار رہے تو سماج کی اخلاقی برائیوں سے بچانا ناممکن ہوگا۔ اسی لیے قرآن ’’لباس التقویٰ ذالک خیر‘‘ تقویٰ کا لباس بہترین لباس ہے، تاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے