مسائل تربیت کرتے اور مضبوط بناتے ہیں!

سیدہ خدیجہ الصغریٰ بانو

ہنستی مسکراتی چند با نقاب لڑکیاں کالج کی طرف رواں دواں ہیں۔ امتحانات قریب ہیں ، مضامین پر بحث بھی ہو رہی ہے۔ کالج کے گیٹ پر پرنسپل صاحب کو دیکھ کرحیرت ہوی۔ حیرت اس وقت سوا ہوی جب طالبات کوکالج میں دا خل ہونےسے منع کر دیا گیا کہ طالبات صرف یونیفارم میں بغیر حجاب کے کلاس اٹینڈ کر سکتی ہیں ، ورنہ نہیں۔ طالبات کی منت سماجت کا اثر ہوا اور نہ بحث کا کل تک حجاب پر پابندی نہیں تھی آج کیسے رولز بدل گئے۔ شریعت اور دستور‌ہند کا حوالہ دینے کے باوجود پرنسیپل کا دل نہ پسیجا۔ وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ لڑکیاں گیٹ پردھرنا دینے لگیں۔ یہ واقعہ ریاست کرناٹک کے ضلع ا ڈ پی کے ایک گاؤں نول گند کی گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج میں 31 دسمبر کو پیش آیا۔ اڈپی سے شروع ہوئے حجاب تنازعہ نے نہ صرف ریاست کرناٹک بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

چند لڑکیوں نےکورٹ جانے کا فیصلہ کیا مگر حکومت کے دباؤ کے تحت عجلت میں کورٹ نے عبوری فیصلہ سنا دیا کہ جن کالجوں میں پہلے ہی سے یونیفارم کا اطلاق ہے وہاں یہ حکم اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک عدالت اس معاملے پر سماعت مکمل نہ کر لے۔ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی ،جسٹس کرشنا دکشت اور زیب النساء محی الدین قاضی پر مشتمل تین رکنی بینچ قا یم کی گی ہے ، جہاں روزآنہ شنوائی ہو رہی ہے۔ ابھی فیصلہ سنایا نہیں گیا۔ وکیل سنجیو اپادھیائے نے اڈپی ڈیولپمنٹ کمیٹی کی طرف سے حجاب پر پابندی کی حمایت میں دلائل پیش کیے۔ حجاب کی موافقت اور مخالفت میں شدت سے عدالت کے اندر اور باہر بحث ہوئی۔

حجاب در اصل کوئی مسئلہ نہیں ،اور نہ یہ آج کل کی دین ہے ۔ یہ شرعی مسئلہ ہے۔ چودہ سو سال پہلے بذریعہ قرآن حکیم ،اللہ تعالی نے سورۃ الاحزاب اور سورہ نور میں حجاب کا صریح حکم دے دیا ہے۔ اس حکم کی تعمیل مسلمان عورتیں کرتی آرہی ہیں ۔ دستور ہند کی آرٹیکل 25 مذہب پرعمل کی صریح اجازت دیتا ہے۔ اگرپرنسپل صاحب و محترم وزیر تعلیم و منتظمین بروقت صحیح فیصلہ لیتے تو اتنا بڑا ہنگامہ نہ کھڑا ہوتا۔

ہمارے لئے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ ہے، دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں ملک کے بہترین دماغوں کا دین ہمارا دستورہے۔ دنیا بھر میں بے مثل ، گنگا جمنی ،رنگا رنگی تہذیب کا علمبردار ہے۔ پیارے وطن میں کئی مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ دستور ہر ایک کو مذہب پر پیروی کی آزادی دیتا ہے ، کھانے پینے ، زبان ، تہذیب کی اجازت دیتا ہے۔ ہندوستان کی خوبصورتی کا راز اس کے ’’تنوع میں اتحاد‘‘(Unity in Diversity) میں مضمر ہے۔مگر حالات حاضرہ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جمہوریت میں فسطائیت گھلتی جا رہی ہے۔ ایک مخصوص طرز زندگی کا نظریہ دیگر مذاھب کے ماننے والوں پر تھوپا جارہا ہے۔

روزانہ کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیا جا تا ہے۔ تازہ ترین مسئلہ حجاب کو لیکرمعصوم طالب علموں کے ذہنوں میں مسلمان لڑکیوں کے خلاف عموما اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کی منظم سازش رچی جا رہی ہے ، مظاہرے کرائے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ مستقبل قریب میں ریاست کرناٹک میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ جیت کویقینی بنانے کے لئے پارٹی اپنا آزمودہ اور پرانا حربہ استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کا وطیرہ ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے وہ اتنا ہی بڑا لیڈرمانا جاتا ہے۔اوراتنا ہی بڑا عہدہ پاتا ہے۔ ساری سیاست اسی کے گرد گھومتی ہے۔

سیاست میں گرمی برقرار رکھنے کے لیے معصوموں کی تعلیم کی بلی دی جا رہی ہے۔ دو ماہ سے تعلیم کے ساتھ حاضری کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔ چند لڑکیاں پریکٹیکل امتحان نہیں دےپائیں جو 30 نمبرکا ہوتا ہے۔ کیا انہیں پریکٹیکل امتحان دینے کا موقع ملے گا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ سالانہ امتحان دے پائیں گی یا نہیں۔ تمام حجابی لڑکیوں کی نگا ہیں عدالت کے فیصلے پر جمی ہوئی ہیں‌، فیصلہ کو محفوظ رکھ چھوڑا‌گیا ہے۔ (یہ تحریر لکھے جانے تک فیصلہ سامنے نہیںآیا)۔ شاید جان بوجھ کر تاخیر کر رہے ہوں۔ حکام یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ فیصلہ میں جتنا التواء ہوگا اتنا ہی زیادہ تعلیمی نقصان ہوگا۔ دسویں جماعت اور بارہویں جماعت کا نا قابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ نفرت کا عفریت منہ کھولے موقع کی تاک میں ہے کہ معاشی میدان میں کمزور طبقہ کو تعلیمی میدان میں بھی کمزوربنا کراقتصادی طورپر اپاہج کر دیا جائے۔ایسا لگتا ہے کہ مفاد پرست منظم سازش کے تحت ، نفسیاتی دباؤکے ذریعہ ذہنوں کو پراگندہ کرکے عزت نفس پر ایسی کاری ضرب لگا نے کے درپے ہیں کہ دوبارہ اٹھ نہ سکیں۔

ریاست کرناٹک کے سابق وزیراعلی ، ہچ۔ ڈی کمار سوامی نے گورنمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتےہوے کہا کہ مرکزی حکومت بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگاتی ہے مگر گورنمنٹ کا وطیرہ بیٹی بھگاؤجیسا لگ ر ہا ہے۔ ورنہ لڑکیوں کو تعلیم سے روکنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کووڈ 19 وباء کی وجہ سے تعلیم کا نا قابل تلافی نقصان ہوچکا ہے ، طلباء مزید نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کالج کے ماحول کوسیاست کا ہدف بنا کر نہ بگاڑیں۔ وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم سے جڑے افراد کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ لڑکیوں کوتعلیم سے نہ روکا جائے بلکہ زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کی بھرپورہمت افزائی‌ہو، بر وقت اخلاقی اور جذباتی مدد کر نے سے نہ رکیں۔‘‘

آرٹیکل 21 ہرشخص کوعزت نفس کے ساتھ جینے کا حق دیتا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل پربھولینگ نودگی اپنے دلائل میں کہا کہ اگر خواتین اپنی مرضی سے حجاب پہنتی ہیں تو وہ ان کی انفرادی آزادی ہے۔ کرناٹکا ایجوکیشن ایکٹ 1985 کہ تحت گورنمنٹ کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار نہیں دیتا۔ یہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ، ان کی عزت نفس پر حملہ اور و قار پر چوٹ کے مترادف ہے۔

عموماً گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالجس میں اقتصادی کمزور طبقہ کی لڑکیاں داخلہ لیتی ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کو مشکلات کے باوجود تعلیمی میدان میں سرخرد دیکھنے کے حریص ہو تے ہیں۔ جبکہ والدین کو اپنی عزت وناموس کی پاسداری اولین درجہ رکھتی ہے۔ اب اس بات کا ڈر ہے کہ ان بچیوں کی تعلیم ادھوری نہ رہ جائے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ لڑکیوں کی شادی کے تذکرے بھی ہو رہے ہوں۔

اسلامی تعلیمات میں اولیت تعلیم کو دی گئی ہے۔ لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا اس لیے زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی سارے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

حجاب ایک سماجی اشو ہے اور اس کا تعلق معاشرے کی عورت سے ہے جو انسانی آبادی کا نصف ہوتی ہے۔ اس اشو نے سماج کی نصف آبادی کے سامنے ایک اشو کھڑا کیا ہے۔ اس بات کا مکمل امکان ہے کہ خواتین کی، باشعور خواتین کی قابلِ قدر تعداد اس اشو کی طرف متوجہ ہوگی۔ اس تعداد میں سے کچھ لوگ تو یقیناً اس کی تہ میں جائیں گے اور اپنےطور پر اس بات کی تحقیق کریں گے کہ آخر حجاب میں ایسا کیا ہے کہ مسلم عورت اس کے لیے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ ہم اس مسئلے سے ویسی ہی امید رکھتے ہیں جیسی اقبال نے کہا تھا:

’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘

معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کس کا دل کب کھول دے اور وہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کو پالے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسائل ہمیشہ انسان کی تربیت کرتے اور اسے مضبوط بناتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی ہماری خواتین خصوصاً نئی نسل کو مضبوط بنانے، اسلام کی طرف متوجہ کرنے اور تعلیم و تربیت کے میدان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دے گا اور کوشش و جدوجہد کرنے کا بھی سبب بنے گا جو اپنے آپ میںایک شعوری بیداری ثابت ہوگی۔

اب مسلم سماج کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ رہے گا کہ وہ اس بیداری کو اور حجاب کے اشو کے موضوع بحث بن جانے کا سماجی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے کچھ فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے اقدامی قوت کے ساتھ معاملے کو دیکھا اور سمجھا جائے۔ اس لیے کہ ’نربھیا‘ اناؤ ریپ کانڈ، اور خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کے تناظر میں حجاب جیسی چیز کی اہمیت وضرورت کو معاشرہ محسوس کرتا ہے۔ سماج کے کئی ذمہ دار سرکاری اور غیر سرکاری سطح کے افراد کی جانب سے خواتین کے ’ساترلباس‘ جیسے بیانات سماج میں موضوع بحث بن چکے ہیں۔

جہاں تک لائحہ عمل کی بات ہے تو ہمارے نزدیک اس کی دو سطح ہیں۔ ایک انفرادی لائحہ عمل اور دوسرا اجتماعی لائحہ عمل۔

انفرادی لائحہ عمل یہ ہے کہ ہم اپنے بچے بچیوں کی ذہنی و فکری تربیت اسلامی خطوط پر کریں اور ساتھ ہی ان کو اعلیٰ تعلیم میں اچھی کارکردگی کا جذبہ اور حوصلہ دیں۔ انہیں مسائل سے نبرد آزما ہونے کے گُر سکھائیں اور اچھی طرح ان پر واضح کردیں کہ دین کے معاملہ میں کہاں نرمی اختیار کرنی ہے اورکہاں جمے رہنا ہے۔ ان کے اندر اس بات کا پختہ شعور پیدا کردیا جائے کہ برائی کیا ہے جس سے ہرحال میں بچنا ہے اور بھلائی کیا ہے جس کے فروغ کے لیے خود بھی کوشش کرنی ہے اور دوسروں کا بھی تعاون کرنا ہے۔ اس لائحہ عمل کو اگرچہ انفرادی طور پر جاری و نافذ کرنا ہے مگر ساتھ ہی یہ ہماری اجتماعی سوچ بھی بن جانی چاہیے کہ ہم میں سے ہر فرد اور ہر خاندان کو ان خطوط کو اختیار کرنا ہے۔ اس بات کے ہمیں اجتماعی فکر اور سوچ کو فروغ دینا ہے کہ ہم اپنے بچے بچیوں کو یہ بتائیں کہ اپنے تعلیمی ادارے میں انہیں باہمی اتحاد و یگانگت، بھائی چارے اور قومی اتحاد کی سوچ کو فروغ دینے کی فکر کرنی ہے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ہے تاکہ نفرت کی فضا سے تعلیمی اداروں کو دور رکھا جاسکے۔

* ہمارے خود کے تعلیمی ادارے ہوں ، جہاں تعلیم و تربیت کی کھلی فضا میں بہت سارے مواقع موجود ہوں۔ ہماری قوم میں نہ پیسوں کی کمی ہے اور نہ اہل خیر حضرات کی۔اگر کمی ہے تو ذمہ داری سےکام کرنے والوں کی۔ ہر سال کروڑوں روپیہ شادیوں پر چند گھنٹوں کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے خرچ کرڈالتے ہیں، بچایا جا سکتا ہے۔ درگاہ کمیٹیوں اوروقف جائیدادوں کی آمدنی سے بہترین درجے کی درسگاہیں کھڑی کر سکتے ہیں جہاں جدید آلات سے لیس تجربہ گا ہ ہوں ، بہترین کتابوں سےبھری لائبریری ہو۔’’ نہ نفع نہ نقصان‘‘ کی بنیاد پرتعلیم کا نظم ہو۔ بہترین درس گاہوں کے فارغ طلبا بہترین معاشرہ کی تشکیل کر پائیں گے اور صد قہ جاریہ بن جائیں گے ۔

* الیکٹرانک میڈیا کے دور میں یہ ضروری ہے کہ اپنا ذاتی چینل ہو جو مسائل کا صحیح رخ عوام کے سامنے پیش کر سکے۔ میڈیا کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے موقف کو پیش کرنے میں اس قدرغلوسے کام لیتے ہیں کہ جھوٹ کےپلندہ کے سوا کچھ نظرنہیں آتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھوٹ بار بار بولنے پرسچ کا گمان ہو نے لگتا ہے۔ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔اس کام کے لیے ایسے نوجوانوں کو سامنے آنا چاہیے جومسائل کا تدبر سے سامنا کرسکیں، گہری نظر ہو، تجزیہ کی صلاحیت ہو۔آواز اس قدرموثر اور گونج دار ہو کہ ہر کوئی آواز سننے کی طرف مائل ہو جائے۔

* آخری بات۔ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ نماز، صبر اور دعا سے مدد مانگتے رہیں۔ دل و دماغ کو ٹھنڈا، مستعد اور تیار رکھیں۔ مسلط شدہ مسائل پر جذباتی ری ایکٹ نہ کریں ۔ تفرقہ میں نہ پڑتے ہوئے نکلنے کی کوشش کریں۔انشاءاللہ ضرور کامیابی ہماری ہوگی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں