اسلام میں حیا کا تصور اسلامی اخلاقیات میں ایک کل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لئے قرآن و حدیث میں بہت واضح لفظوں میں اس کی تاکید کی گئی ہے ۔قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالی تمہیں بے حیائی اور بری باتوں سے منع کرتا ہے ۔( النحل:۹۰) جب کہ شیطان تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا اوراس پرابھارتا ہے ۔(البقرۃ: ۲۶۸)حدیث میں حیا کو ایمان کا اہم شعبہ قراردیا گیا ہے۔( مسلم)
رسول اللہ نے فرمایا کہ ہر دین کا اپنا اخلاق ہوتا ہے، اسلام کا اخلاق حیا ہے( ان لکل دین خلق وخلق الاسلام الحیا- ابن ماجہ)۔حیا کی صفت انسان کو ہر قسم کی برائیوں سے بچاتی ہے- اگر یہ صفت نہ ہو تو انسان کےلئے تمام تر اخلاقی برائیوں کےارتکاب کا دروازہ کھل جاتا ہے -اسی حقیقت کو حدیث میں اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ: “اگر تمہارےاندرحیا کااحساس نہیں ہے تو تم جو چاہو کرو”- (اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۔بخاری)
اسلام میں حیا کے تصور کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مرد و خواتین کے تعلقات باہمی کو معتدل حدود میں رکھنے کے لیے فرد مسلم کے لیے کچھ اصول و ضوابط کی پابندی ضروری ہے اور یہ اس کی اپنی پسند و ناپسند پرمبنی نہیں ہے، بلکہ انسان کی فطرت کی ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے ان اصولوں کی تشکیل وتطبیق کی گئی ہے -یہ مغرب کے موجودہ تصور کے بالکل برعکس ہے کہ اسے فرد کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے- اس سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
اسلام میں حیا کے عملی تقاضے کے تصور سے حجاب یا پردے کا تصور سامنے آتا ہے- اسلام کی علمی و فکری روایت میں اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ اسلام میں حجاب کا تصور فرض کے درجے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے -البتہ حجاب کی نوعیت وصورت کے حوالے سےاہل علم کی آرا مختلف رہی ہیں جن میں سے دو رائیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں:
پہلی رائے کے مطابق عورت کا پورا جسم پردہ یا قابلِ ستر یعنی عورۃ ہے جس کا ڈھکنا فرض ہے- عورت کے جسم کے کسی بھی عضو کا اس میں استثناء نہیں ہے- جبکہ دوسری رائے کے مطابق پردے میں بعض اعضا جیسے چہرہ اور ہاتھ وغیرہ کا استثنا کیا گیا ہے۔
یہ اختلاف خود صحابہ کرام کی جماعت میں پایا جاتا تھا۔ چناں چہ حضرات عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر، عائشہ اورابوہریرہ وغیرہ اور تابعین کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے جب کہ عبداللہ ابن مسعود اور بعض دوسرے صحابہ و تابعین چہرے کے چھپانےکوضروری قرار دیتے ہیں۔ یہ اختلاف رائے ان کی اس آیت کی تشریح و توضیح کے سیاق میں سامنے آتا ہے:وقل للمؤمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولایبدین زینتھن الا ما ظہر منھا۔ (النور:۳۱)
ترجمہ: ’’اے پیغمبر! آپ مومن خواتین سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگائیں نیچی رکھیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کری اوراپنی زینت کو ظاہر نہ کریں الا یہ کہ جو اس میں سے کھلا رہ جائے۔‘‘
اختلاف کا ماخذ یہ ہے کہ عورت کے اپنی زینت کو پوشیدہ رکھنے کے حکم کے ساتھ جو استثناء کیا گیا ہے اس کا صحیح مفہوم اور محمل کیا ہے؟عبد اللہ ابن مسعود کے نزدیک استثناء میں صرف وہ بیرونی کپڑا شامل ہے جس سے عورت اپنے پورے اعضائے جسمانی کو چھپا لیتی ہے کہ پورے جسم کو ڈھانک لینے والے بیرونی کپڑے کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔
جب کہ عبداللہ ابن عباس اور بعض دیگر صحابہ چہرے اور ہتھیلیوں کا استثنا کرتے ہیں کہ وہ ستر میں شامل نہیں ہے-(مذکورہ آیت کے ذیل میں دیکھیے تفسیرابن کثیر)۔ اس موقف کے حق میں متعدد دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے چند چند درج ذیل ہیں:
حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ: جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد چہرے اور ہاتھ کے ماسوا بدن کے کسی حصے کو کھولے۔(تفسیر قرطبی بذیل آیت مذکور) حضرت عائشہ کی ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ نے حضرت عائشہ کی بہن حضرت اسماء کو فرمایا کہ جب عورت بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے لئے صحیح نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ اس کے علاوہ کھلا ہو اور آپ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ (ابوداؤد) مختلف مفسرین نے صحابہ وتابعین کے اس باب میں موقف کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
امام ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں ان اقوال کا محاکمہ کرکےلکھا ہے، جس کا ہم اردو ترجمہ پیش کررہے ہیں:
’’اس امر میں صحیح قول وہ ہے جس کے مطابق عورت ہاتھ اور چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کو کھول سکتی ہے۔ ہم نے اس موقف کو سب سے بہتر اور صحیح اس لئے کہا کیوں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ہر نمازی پر فرض ہے کہ وہ نماز میں اپنی سترکو پوشیدہ رکھے۔ لیکن عورت کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ نماز میں اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کو کھلا رکھے۔ البتہ اس کے علاوہ دوسرے حصے کو چھپائے ( تفسیر طبری بذیل آیت مذکور)
صحیحین میں عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ فضل بن عباس رسول اللہ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے۔ اس اثنا میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت سامنے آئی اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔رسول اللہ نے یہ دیکھ کر فضل بن عباس کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا۔ ( متفق علیہ)۔علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ اگر چہرہ کھولنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ضروراس عورت کو چہرہ کھولنے پر تنبیہ کرتے۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں خواتین پردہ کرتی تھیں لیکن چہرے کو ڈھانپنے کا التزام نہیں کرتی تھیں:
۔۔ اس تعلق سے ایک واقعہ تو وہی ہے جو فضل بن عباس ؓ کے حوالے سے اوپر گزرا۔
۔۔ دوسری روایت جس کا ذکر بخاری میں ہے یہ ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے ساتھ عید کی نماز کے لیے گیا۔ رسول اللہ نے عورتوں کو نصیحت کی کہ تم صدقہ کیا کروکیوں کہ تم میں سے اکثریت جہنم میں جانے والی ہے ۔یہ سن کر ایک عورت کھڑی ہوئی،جس کےدونوں گال سرخی مائل کالے تھے۔اس نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم میں سے اکثریت جہنم میں کیوں جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ تم بہت زیادہ شکایتیں کرتی اور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو۔ ( بخاری۔مختصرا)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس عورت کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔
۔۔ایک مشہور حدیث کے مطابق حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم چادراوڑھ کر فجر کی نماز رسول اللہ کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کرتے تھےاوراپنے گھروں کوواپس آ جاتے تھے۔ تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا ۔(بخاری ومسلم)اس سے بھی معلوم ہوتا ہےکہ اگر تاریکی نہیں ہوتی توانہیں پہچان لیا جاتا۔ ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں جن کے مطابق چہرہ چھپانے کو نامانوس عمل تصورکیا جاتا تھا۔ چناں چہ ایک روایت کے مطابق ایک عورت آپ کے پاس آئی جس کا بیٹا جہاد میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ڈھکے ہوئے تھی۔ ایک صحابی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو خاتون نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی حیا نہیں کھوئی ۔( ابوداؤد)
جہاں تک فقہاء مجتہدین کے اقوال و مواقف کا معاملہ ہے۔ ان کی اکثریت بھی اس کی قائل نظر آتی ہے۔ تفسیر مظہری کے مطابق چاروں ائمہ چہرے اور ہتھیلیوں کے کھولنے کے جواز کے قائل ہیں۔ البتہ حضرت امام شافعی کا مشہور قول ہے کہ صرف چہرے کا کھولنا جائز ہے۔(تفسیر مظہری: قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی،ج،۶،ص،۴۹۳۔۴۹۴)
تفسیر مظہری کے مطابق ہدایہ میں احناف کا مسلک یہی مرقوم ہے کہ: لا یجوزان ینظرالرجال الی الاجنبیہ الا وجہہا وکفیھا لقولہ تعالی: لایبدین زینتھن الا ما ظہر منھا۔لان۔فی ابداء الکف والوجہ ضرورۃ لحاجتھا الی المعاملۃ مع الرجال اخذا و اعطاء وغیر ذلک۔(ایضا،ص، 494)
’’ یعنی غیر محرم مردوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اجنبی خواتین پرنگاہ ڈالیں سوائے ان کے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے۔ اللہ تعالی کے ارشاد لایبدین زینتہن الخ کے مطابق۔ اس لیے کہ چہرے اورہاتھ کوکھولنا مردوں کے ساتھ لین دین وغیرہ کے حوالے سے از بس ضروری ہے‘‘۔
یوسف قرضاوی نے فتاوی معاصرۃ جلد دوم میں احناف کی مشہورومستند کتاب ’’الاختیار لتعلیل المختار‘‘، مالکی مسلک کی مشہور کتاب، ’’اقرب المسالک الی مذہب مالک‘‘، شافعی مسلک کی مشہور کتاب ’’المہذب‘‘ اور حنبلی مسلک کی مشہور و معروف کتاب ’’المغنی‘‘ کے حوالے سے چاروں مذاہب کے کبارعلماء کے اقوال سے استناد کرتے ہوئے چہرے کے کھولنے کے جواز کا موقف نقل کیا ہے ۔ (فتاوی معاصرۃ اردو ترجمہ،سید زاہداصغر فلاحی(بنام فتاوی یوسف قرضاوی) جلد دوم ،ص، ۱۵۰۔ ۱۵۲) تاہم یہ بات صحیح ہے کہ بعض ائمہ مجتہدین کے حوالے سے دوسرے موقف کی تائید میں بھی اقوال ملتے ہیں۔ تاہم احناف خاص طور پر ابو حنیفہ اور امام محمد کا دو ٹوک موقف یہی ہے جس کا ذکر امام محمد نے اپنی کتاب “کتاب الاصل” میں کیا ہے-
عبدالحلیم ابوشقہ کی کتاب “تحریر المرآۃ فی عصر الرسالۃ اور ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کی کتاب “الوفاء باسماء النساء” کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تعلق سے ہماری اسلامی فکر میں جو سختی پائی جاتی ہے وہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں موجود نہیں تھی۔ تیرہویں صدی میں خاص طور پر عالم اسلام پر تاتاری حملوں اوراس کےنتیجے میں غیراسلامی تہذیب کے غلبے کے بعد مسلم خواتین کی سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے اسلامی موقف میں شدت پیدا ہوئی-چنانچہ اس طرح کا بھی نہایت غیر اسلامی موقف سامنے آیا کہ عورتوں کو لکھنا سکھانے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ کبار علماء کے فتاوی اس ذیل میں موجود ہیں۔ یا اسی طرح یہ بات کہ عورت کی آواز بھی پردہ ہے۔ ان کو نصوص سے قطعا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
چہرے کو پوشیدہ رکھنے کے موقف کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ چہرہ مرکز حسن ہے۔ یہی دلیل مولانا مودودی نے اپنی کتاب “پردہ” میں بھی پیش کی ہے۔ عام علماء کا موقف بھی روایتی استدلالات سے زیادہ اسی دلیل پرانحصار کرتا ہے۔ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں کہ: ’’اسی فتنہ کے خوف سے علماء نے خواتین کو اسکول اور کالج جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے سے منع کردیا جس کے نتیجے میں عورتیں جاہل رہ گئیں۔ اب علماء کو ہوش آیا ہے تو انہوں نے اس کی اجازت دی ہے جبکہ کافی نقصان ہو چکا –
میرا خیال ہے کہ چوں کہ خواتین کی بے محابا آزادی کے تعلق سےمغربی معاشرہ اپنی انتہا پر کھڑا نظر آتا ہے، اس لیے ہمارے اصحاب فقہ واجتہاد کی اکثریت، ردعمل کی نفسیات کے تحت، مسلم خواتین کے سماجی کردارکے باب میں نصوص اور اسلامی روایت میں پائی جانےوالی لچک اور گنجائش کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ بظاہر اسی ردعمل کی نفسیات کی بناپر اپنی تمام تر فکری کشادگی کےباوجود اصحاب علم کے ایک طبقے کا ذہن اس باب میں نہایت تنگی اور شدت پسندی کی طرف مائل نظر آتا ہے۔وہ اس حوالےسے اسلامی روایت کی لچک کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تعلق سے معتدل موقف اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ جومیرے نزدیک یہ ہے کہ حجاب فرض ہے جس کے مطابق چہرےاور دونوں ہتھیلیوں اور پاؤں کے استثناء کے ساتھ مسلم خواتین کو اپنے پورے بدن کو چھپانا لازمی ہے۔ تاہم نقاب یا چہرے کوچھپانا ضروری نہیں ہے لیکن اسے بدعت اورغیراسلامی بھی قرارنہیں دیا جاسکتا جیسا کہ بعض متشددین اوردین کے مزاج سے ناواقف حضرات باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ موجودہ حالات میں اسےمستحسن بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔لیکن اس موقف پراصرارصحیح نہیں ہے کہ چہرے کا پردہ فرض اورلازمی ہے اوراسے کھلا رکھنا حرام و ناجائزہے۔ عورت کویہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ علی وجہ البصیرۃ اپنی سہولت اور پسند کے مطابق جس موقف کوچاہے اختیارکرے۔