خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی صورت حال

محمد عبد اللہ جاوید

خواتین سے متعلق جنسی جرائم سے مراد وہ عملہےجو جبراً جنسی تسکین کے لئے کیا گیا ہو۔جس میں جسم کو چھونے سے لے کر عصمت دری تک کے تمام حرکات شامل ہیں۔ ان میں ان جرائم کو بھی شامل کیاجاتاہے جو براہ راست یا بالواسطہ یا تو محرک بنتے ہیں یا پھر نتیجے کے طور پر سامنے آتے ہیں‘جیسے گھریلو تشدد ‘قتل وغیرہ۔ ذیل میں دنیا کے مختلف ممالک کے علاوہ وطن عزیز کی صورت حال واضح کی جارہی ہے۔ویسے خواتین کے سلسلہ میں دنیا نےیہ مان لیا ہے کہ اس پر تو ظلم ہوگا ہی‘ پیدا ہونے سے پہلے سے لے کر بڑھاپے تک ہونے والا ظلم اس طرح بیا ن کیا جاتا ہے:

001

یوروپی ممالک کی صورت حال

بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے سرگرم عمل یوروپین ایجنسی نے ۲۸ریاستوں کی ۴۲ہزار خواتین سے شخصی انٹرویو لیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ فی الواقعی خواتین کے خلاف تشدد کی صورت حال کیا ہے۔(1) اس تفصیلی انٹرویو کے نتیجے میں واضح ہونے والی صورت حال یوں بیان کی گئی ہے:
*دس میں سے ایک خاتون15 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے جنسی ہراسانی کا شکار ہوئی ہے۔
*بیس میں سے ایک خاتون کی 15 سال سے پہلے عصمت دری کی گئی ہے۔
*ہر پانچ میں سے دو خواتین نے اپنے شوہر کی جانب سے نفسیاتی تشدد کی شکایت کی ہے۔
*ہر دس میں سے ایک خاتون نے ای میل اور مسیجس کے ذریعہ جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔
*برسرروزگار خواتین کی 75% تعداد نے جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔
*تقریباً 27% خواتین نے 15 سال کی عمر سے قبل جسمانی تشدد کا سامنا کیا ہے۔
اس سروے کے مطابق :
*یوروپین یونین کی ایک کروڑ تیس لاکھ خواتین نے جسمانی تشدد کاسامنا کیا ہے۔یہ صورت حال انٹرویو لینے سے ایک سال قبل کی ہے۔ اس میں 18سے 74سال کی عمر والی خواتین کی تعداد7% بنتی ہے۔
*یوروپین یونین کی 37لاکھ خواتین نےجنسی تشددکاسامنا کیا ہے۔یہ صورت حال انٹرویو لینے سے ایک سال قبل کی ہے۔ اس میں 18سے 74سال کی عمر والی خواتین کی تعداد2% بنتی ہے۔
وہ خواتین جو15 سا ل کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشددکا شکار ہوئی ہیں‘ان کی شرح فیصد یوروپین ممالک میں حسب ذیل ہے:
ڈینمارک52%‘فن لینڈ47 % ‘ سویڈن 46%‘ نیدرلینڈ 45%‘ فرانس44%‘برطانیہ44%‘بلجیم 36%‘ جرمنی35%‘ لکزمبرگ38%‘سلواکیا34%۔
اس سروے کے ذریعہ جو انٹرویو لیا گیا اس میں سوالات بالکل واضح اور مختلف پہلوئو ں پر محیط تھے۔جیسے جسمانی تشدد کے لئے جو سوالات کئے گئے ان میں زور سے دھکیلنا‘بال پکڑکر کھینچنا‘ مارنا‘ جلانا‘ سخت چیز پھینکنا‘ دم گھٹے جیسا گلا دبانا وغیرہ شامل تھے۔جبکہ جنسی تشدد کے لئے سوالات میں حسب ذیل امور کا احاطہ کیا گیاتھا :
زبردستی عصمت دری کرنا‘ جنسی کام کے لئے دبائو ڈالنا‘ جذباتی تشدد کے ذریعہ جسمانی تعلق قائم کرنے کے لئے آمادہ کرناوغیرہ۔
امریکہ کی صورت حال
امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم کی صورت حال واضح کرنے کے لئے وہاں کی قومی تنظیم برائے خواتین (NOW)نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں ہوئے مظالم کے سلسلہ میں اعداد وشمار پیش کئے ہیں۔ اس کے مطابق:
*سال 2005میں 1181خواتین کو ان کے قریبی ساتھی نے قتل کیا ہے۔یعنی اوسطاً روزانہ تین خواتین کا قتل ہوا ہے۔
*48 لاکھ خواتین ہر سال اپنے کسی قریبی ساتھی کے ذریعہ جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں سے بیشتر کی عصمت دری ہوتی ہے.(2)
*سال 2006میں تقریباً دولاکھ چونتیس ہزار خواتین عصمت دری اور جسمانی تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔یعنی تقریباً 600خواتین یومیہ۔(3)
*پانچ میں سے ایک خاتون اپنے کالج میں پڑھائی کے دوران عصمت دری یاعصمت دری کے لئے پیش قدمی کا شکار ہوئی ہیں جن میں سے پانچ فیصد سے بھی کم نے رپورٹ کی ہے۔(4)
امریکہ میں ہوئے ایک اور سروے کے تحت:(5)
*عصمت داری اور جسمانی تشدد کی شکار خواتین کی تعداد 1,92,320ہے۔
*جنسی ہراسانی کی شکار خواتین کی تعداد 68620ہے۔
* 12 سے 15سال کی لڑکیوں کی کل تعداد 82,08,130 ہے جن میں سے 30.1%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ 6.4% لڑکیاں عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں۔
*16سے 19سال کی خواتین کی کل تعداد 81,85,810ہے جس میں سے 31.9%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ 4.3% خواتین عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں۔
* 20سے 24سال کی خواتین کی کل تعداد10,123,690ہے جس میں کی 25.7%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ 3.6% خواتین عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں۔
* 25سے 34سال کی خواتین کی کل تعداد19,836,350ہے جس میں کی 22.4%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ 2.5%خواتین عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں۔
* 35سے 49سال کی خواتین کی کل تعداد 33020263 ہے جس میں کی 12.6%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ1% خواتین عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں۔
* 50سے 64سال کی خواتین کی کل تعداد 26,769,110ہے جس میں کی 7.1%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ 1%خواتین عصمت دری یا جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں۔
* 65سال اور اس سے اوپر کی خواتین کی کل تعداد 20,381,170ہے جس میں کی1.4%خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔
کینڈا کی صورت حال
خواتین کے خلاف تشددسے متعلق کینڈا کی ایک این جی او‘ اے ڈبیلو ایچ نے حسب ذیل اعداد وشمار فراہم کئے ہیں:
*67%افراد کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ کم از کم ایک خاتون کو جنسی یا جسمانی طور ہر ہراساں کیا گیا ہے۔
*اوسطاً ہر چھ دن میں ایک خاتون کا قتل اس کا شوہر یا کوئی قریبی جاننے والا کرتا ہے۔2009میں 67خواتین کاقتل ان کے شوہر یا بوائے فرینڈنے کیا ہے۔
*کینڈا کی تقریباً نصف آبادی نے 16سال کی عمر کے بعد سے کم از کم ایک مرتبہ جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔
*کسی بھی دن جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کینڈا میں 3000سے زائدخواتین ایسی ہیں جو اپنے 2500بچوں کے ساتھ کسی پناہ گاہ میں صرف گھریلو تشدد سے حفاظت کے لئے قیام کیے ہوئے ہیں۔
*کینڈا میں صرف ایک سال کے اندر 427000 خواتین جن کی عمریں 15سال سے اوپر ہیں ‘ جنسی ہراسانی کا معاملہ درج کرایا ہے۔ یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ صرف10%جرائم درج کرائے جاتے ہیں‘ حقیقت میں جنسی ہراسانی کے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
*کینڈا میں خواتین کے خلاف ہورہے تشدد کی بنا صحت‘انصاف اور خد مت کے لئے سالانہ ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 7.4بلین ڈالر کیا گیا ہے۔یعنی تقریباً 5کھرب 62ارب روپئے۔
دیگر ممالک کی صورت حال
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بین الممالک اسٹڈی کے لئے بنگلہ دیش‘ایتھوپیا‘پیرو‘سموا‘تھائی لینڈ اور تنزانیہ جیسے ممالک کا سروے کیا گیا تاکہ خواتین کی صحت اور ان پر ہونےوالے تشدد کی صورت حال معلوم کی جاسکے۔ اس اسٹڈی سے معلوم ہوا کہ 40% سے 60% خواتین ایسی ہیں جنہیں ان کے شوہر یا قریبی رشتہ داروں کی جانب سے جسمانی اور جنسی طور ہر ہراساں کیا گیا ہے۔(6)

002

* انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ ہورہے جنسی جرائم کی صورت حال:

003

بھارت کی صورت حال
بھارتی خواتین پر ہونے والے مظالم کی رپورٹ میں حسب ذیل تفصیلات بہم پہنچائی گئیں ہیں:(7)
*خواتین کے خلاف مظالم یوں تو پوری دنیا میں کسی نہ کسی طرح جاری ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشاء اس میں سب سے آگے ہے۔ اس خطہمیں جنس کو لے کر کچھ زیادہ ہی حساسیت پائی جاتی ہے۔
*اس خطہ میں دنیا کے دیگر مقامات کی بہ نسبت خواتین پر مظالم اور تشددکے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں۔
*دنیا کی44%ان پڑھ خواتین جنوبی ایشاء میں پائی جاتی ہیں۔
*مردوں کی بہ نسبت خواتین کی زندگی کا معیار کم تر ہے۔
*تقریباً ۷ کروڑ ۹۰ لاکھ لڑکیاں اور خواتین گمشدہ ہیں ۔اگر عالمی معیار کے تحت مرد اور عورت کے تناسب کو خاطر میں لایا جاتاتو وہ آج زندہ ہوتیں۔
*جسم فروشی کے لئے فروخت کی جانے والی جنوب ایشائی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
*اگر خواتین کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا تو آج (۲۰۰۱کے مطابق) ہمارے ملک میں ان کی تعداد 51کروڑ20لاکھ ہوتی جبکہ موجود ہ تعداد 48 کروڑ 90لاکھ ہے یعنی تقریباً 2کروڑ 50لاکھ خواتین کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر 1000مرد کے لئے 933 خواتین ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (NCRB)کے اعداد و شمار کے مطابق :
*ہر تین منٹ میں ایک عورت کے خلاف جرم کیا جاتا ہے۔ سال2011میں 228650 سے زائد عورتوں کے خلاف جرائم کے واقعات پیش آئے تھے۔ جب کہ 2015میں جرائم کے واقعات بڑھ کر تقریباً 3 لاکھ ہوگئے ہیں یعنی44%اضافہ ہوا ہے۔
*بھارت میں سال 2019میں88عصمت دری کے واقعات ایک دن میں پیش آئے۔راجستھان میں سال 2019میں کل 6000عصمت دری کے واقعات درج کئے گئے جس کے بعد اتر پردیش کا نمبر آتا جہاں 3065عصمت دری کے واقعات درج ہوئے ہیں۔ این سی آر بی کے اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش میں ہوئے عصمت داری کے کل واقعات میں دلت خواتین18%ہیں۔
*بھارت میں عصمت دری، تمام جرائم میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھنے والا جرم ہے۔این سی آر بی کے مطابق 1971سے 2011کے درمیان عصمت دری کے واقعات میں 873.3%اضافہ ہوا ہے۔
* 65%مردوں کا ماننا ہے کہ خواتین اپنے اوپر ہورہے تشدد کو برداشت کرنا چاہئے تاکہ خاندان بکھرنے سے بچ سکے۔
مندرجہ بالا جرائم کے علاوہ ملک کے مختلف مقامات پر ان دنوں اجتماعی عصمت دری کے انتہائی دردناک واقعات پیش آئے ہیں‘ خواتین پر تیزاب کے ذریعہ حملہ اور آن لائن ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کے واقعات میں بھی کافی اضافہ ہورہا ہے۔ ذیل میں چند تفصیلات درج کی جارہی ہیں:(8)

*عصمت دری کے واقعات:

ذیل میں سالانہ وار عصمت دری کے واقعات درج ہیں جو ہمارے ملک کے مختلف حصو ں میں پیش آئے ہیں۔ہر سال بڑھتے واقعات قانون کی کمزوری اور مجرموں کی حوصلہ مندی ظاہر کرتے ہیں:

004

*عزت نفس کی توہین:

عورت کی عزت پر حملہ کرنے اور اس کی عزت نفس کو مختلف طریقو ں سے نشانہ بنانے کے واقعات بھی ہمارے ملک میں کچھ کم نہیں۔ سالانہ اعداد وشمار دیکھ لیں:

005

*انسانی سمگلنگ اور جبری جسم فروشی:

انسانی سمگلنگ (human trafficking) اور جسم فروشی سے متعلق اعداد وشمار ملاحظہ فرمائیں:

006

*گھریلو تشدد:

گھر کی چہاردیواری میں ہورہے ظلم کی تفصیلات ‘ اس میں کہیں شوہر تو کہیں کوئی قریبی رشتہ دار شامل ہے۔

خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی وجوہات

خواتین پر ہورہے مظالم کی یہ وہ روداد ہے جو ملک و بیرون ملک‘ تقریباً یکساں معلوم ہوتی ہے۔نہ صرف گھر کی چہاردیواری بلکہ معاشرہ کا کوئی ایسا مقام نہیں بچا ‘جہاں اس صنف نازک کی عزت تار تار نہ کی جاتی ہو یا اس پر کوئی ظلم نہ ڈھایا جاتا ہو۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس پر کافی لمبی چوڑی بحثیں ہوئی ہیں‘بلکہ ہورہی ہیں۔ان بحثوں کے نتیجےمیں خواتین کوان کے حقوق دلوانے اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے کئی تنظیمیں اور ادارے وجود میں آئے۔حقوق انسان کا علمبردار کہے جانے والے یو این او نے بھی اس ضمن میں خصوصی اقدامات کئے ‘کئی ممالک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے خصوصی پالیسیاں وضع کی گئیں، لیکن حالات میں کوئی قابل ذکر سدھار معلوم نہیں ہوتا۔ عالمی صورت حال ملاحظہ فرمائیں:

007
خواتین پر ہورہے ظلم وجبر کےضمن میں سماجی ماہرین کے علاوہ ماہرین نفسیات اور سماجی مسائل کے حل کے لئے برسرکار تنظیموں اور اداروں کی جانب سے جن وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے‘ انہیں ہم حسب ذیل طریقے سے بیا ن کرسکتےہیں:

مرد کی قوامیت کا غلط شعور:

عموماً یہ مانا جاتا ہے کہ ‘ مردوں کے اختیار ہی سے معاشرے چلتے ہیں‘یعنی معاشرہ عموماً پدرانہ(patriarcha*society) ہوتا ہے۔ مرد کی قوامیت کا انتہائی غلط اور غیر متوازن شعور‘ خواتین پر ہر طرح کے ظلم کا جواز فراہم کرتا ہے۔
مرد کا کردار اوراس کا رویہ:

اس ضمن میں بتایا جاتا ہے کہ مرد کی یہ سوچ کہ وہی عورت پر زیادہ اختیار رکھتا ہے‘ اس لئے جنسی معاملات اوردیگر امور کو لے کر اس کا رویہ تشدد کا رخ اختیار کرجاتا ہے۔
غیر محفوظ گھریلو ماحول:

بچپن سے گھر کے ماحول میں تشدد اور مرد وعورت کے درمیان تنازعات کا مشاہدہ کرنابھی ایک بنیاد وجہ سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہی بچہ بڑا ہوکر ‘ عورت پر ظلم کو سماجی معیار سمجھنے لگتا ہے۔
معیارات میں گرواٹ:

عورت کاکم تعلیمی معیار‘مرد کی محدود آمدنی اور اسکے شخصی کردار میں کمی‘ شراب کا استعمال وغیرہ جیسے عوامل ‘ ظلم وتشدد کے محرکات ہوتے ہیں۔
خواتین سے متعلق امور:

کم تر صحت کا معیار‘ ذہنی بیماری‘ شادی سے عدم خوشی جیسے امور بھی ظلم وجبر کے محرکات ہوتے ہیں۔
قانون سے بے خوفی:

خواتین کے حقوق واختیارات سے متعلق کئی قوانین ہونے کے باوجود ‘ ان پرہورہے ظلم و جبر سے قانون سے بے خوفی ظاہر ہوتی ہے۔یعنی یہ کہ خواتین کے خلاف جرم کے سلسلہ میں فوری اور سخت اقدامات کا فقدان ہے۔
انتظامیہ کی ناکامی:

مجرموں کوفوری گرفتار نہ کرنا‘ سزا دلوانے میں تیزی نہ دکھانانیز ان کے خلاف سخت کارروائیاں نہ کرنا‘ مجرموں کے حوصلہ بلند کردیا ہے۔ اس میں عدالتی کارروائیوں میں ہونے والی غیر معمولی تاخیر بھی ایک اہم وجہ ہے۔
عوامی تحفظ میں کمی:

خواتین کے لئے سماج میں حفاظتی انتظامات کی کمی بھی ایک وجہ ہے۔ وہ گھر میں تو محفوظ رہ سکتی ہیں لیکن معاشرہ میں ان کے تحفظ کا خاطر خواہ اہتمام نہیں ہوسکا ہے۔جیسے ان کے لئے آمد ورفت کے خاص ذرائع‘ بیت الخلاء کا انتظام‘ضرورتاً رات میںشہر یا باہر آنے جانے کی سہولت وغیرہ۔
تہذیبی اور ثقافتی امور: بعض معاشروں میں رائج تہذیبی اور ثقافتی روایات بھی ‘ ظلم و جبر کی ایک اہم ترین وجہ مانی جاتی ہیں۔ جیسےعورتوں کی ختنہ (fema*e genita*muti*ation) (جس کی وجہ سے عورت میں بانجھ پن اورانہیںدور رس نفسیاتی مرض لاحق ہوجاتا ہے)‘بچپن کی شادی‘ آنر کلنگ(یعنی بین المذاہب یا اپنی ذات برادری کے علاوہ کوئی لڑکی شادی کرتی ہے تو خاندان کی عزت بچانے کے لئے اس کا قتل کیا جاتا ہے) ‘اور جہیز کی رسم وغیرہ۔
ان وجوہات کے علاوہ اور بھی سیاسی اور معاشی وجوہات ہیں جن کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے آج دنیا نے دانستہ طور پر عورت کو ایک کاروباری چیز بنادیا ہے۔اس کی خرید وفروخت میں اتنی آسانی ہوگی جتنی وہ سج دھج کر ‘معاشرہ کے مختلف مراکز میں جلوہ افروز ہوگی۔ کھیل کود ‘ فیشن ‘ سیر وتفریح اور سیاحت کے نام پر اس کو برہنہ کردیا گیا ہے۔ عریانیت کے اس عالمی کاروبار میں نہ صرف خواتین بلکہ کچھ حد تک مرد بھی سامان تجارت بنے ہوئے ہیں۔یو ں کہا جاسکتا ہے کہ آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا نےانسانی جسم کو‘ عالمی مارکیٹ کے مطابق ڈھال دیا ہےاور اس کو عالمی منڈی میں بیچی اور خریدی جانے والی اشیاء سے ہم آہنگ کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ:
*خواتین سے متعلق بیشتر کھیل کود کے ڈریس ‘نیم برہنہ ہوتے ہیں۔ذرا سوچ کر دیکھیں اگر ان کھیلوں میں خواتین کو شائستہ ڈریس پہنادیا جاتا توکیا کھیل ممکن ہی نہیں ہوتا؟
*خواتین کے بعض کھیلوں کا مشاہدہ جنسی تسکین کے لئے بھی کیا جاتا ہے جیسے ٹینس‘ بیچ والی بال‘ تیراکی‘رگبی ‘دوڑ‘جمناسٹک‘پول جمپنگ ‘کشتی وغیرہ۔ ان کھیلوںنے شہوت کو بڑا مہذب جاما پہنادیا ہے۔یہ شہوت زدہ کھیل(erotic sports)‘ بین الممالک برتری کی گویا ایک مہذب وجہ بن گئے ہیں۔اور جنسی لذت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی‘چنانچہ1976میں ۱۸ سالہ فیونا بٹلر نامی ٹینس کھلاڑی کا نیم برہنہ پوسڑ Tennis Gir*اس قدر مشہور ہواکہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی 20 لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئی تھیں۔
*میدان میں کھیلنے والوں کی کارکردگی پر تماشائیوں کا خوش ہونا تو معلوم تھا لیکن اب چئیر لیڈر(cheer *eader) کے نام پر نیم برہنہ لڑکیاں کھیلنے والے کھلاڑیوں سے زیادہ بڑی بے شرمی سے ناچ کر خوشی مناتی ہیں۔ کھیل کے مشاہدہ کی غرض سے آئے لوگ شاید سوچتے ہوں گے کہ وہ یہاں کس مشاہدہ کے لئے آئے ہیں؟
*اب یہ بتایا جارہا ہے کہ کھیل کا جنسی کرن(sexua*ization of sport) نہ صرف باقی رہے گا بلکہ مزید پھیلتا جائے گا۔کیونکہ یہ بات مانی جاتی ہے کہ کھیل میں عریاں جسم‘ اس کی کاروباری قیمت بڑھادیتے ہیں۔اسلئے اب کھیل نہ صرف عریاں ہوا بلکہ اس میں فحاشی بھی شامل ہوگئی‘ اور کھیل کے میدان میں ہورہی اس قبیح تبدیلی کو porno-ization of sportکے نام سے بھی تشخیص کیا جانے لگا ہے۔
*فیشن کے نام پرجسم کو برہنہ رکھنا‘ مہذب سماج کا ایک اعلی معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ مرد کے بالمقابل‘ عورت کا لباس اور اس کی وضع قطع‘لوگوں کی توجہ تواپنی جانب کھنچتی ہے۔لیکن اس بے ڈھنگی نمائش سے اس کی لاچارگی اور دوسروں کے ہاتھ میں کھلونا ہوجانا اس سے کہیں زیادہ ظاہر ہوجاتا ہے۔
*پھر لباس زیب تن کرنے کا اصل مقصد فوت کردیا گیا‘ پھٹے کپڑے پہننا معیوب نہیں بلکہ اعلی فیشن کی علامت بن گئی ہے۔کپڑے تیار کرنے والی مشہور کمپنیاں پھٹے جینس (ripped jeans) تیار کرتی ہیں۔کوئی مہذب انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ پھٹے کپڑے کھلے عام پہنے جانے لگیں گے ؟ ذرا یہ تصویر ملاحظہ فرمائیں:

008
*اب عریانیت کے نام پر کھیل کود اور فیشن میں اس قدر تبدیلیاں لائی گئی ہیں کہ اگر کوئی ان کی اصلاح کے سلسلہ میں کچھ کہہ دے تو نام نہاد مرد وخواتین‘اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بڑی بے شرمی سے بےحیائی کی وکالت کرتے ہیں۔
ہماراموقف
ہم یہ مانتے ہیں کہ عورتوں پر جنسی تشدد اور مختلف قسم کے ظلم کی اصل وجہ ان کے مقام ‘ مرتبہ اور حقوق کا صحیح تعین نہ کرنا ہے۔اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کےحقوق سے عدم واقفیت اور احساس جوابدہی کا فقدان اصل محرکات میں سے ہے جس نے عورت کے خلاف ظلم و جبر کی ایک دنیا ہی آباد کردی ہے‘جس کی کچھ تفصیلات یہاں بیان کی گئیں۔اسلام نے مرد اور عورت کے حقوق سے متعلق واضح تصور دیا ہے:
وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مَردوں کے حقوق ان پر ہیں۔
(البقرہ:۲۲۸)
لیکن حقوق کی ادائیگی کے لئے‘بعض ایک معاملات کو چھوڑ کر‘ دونوں کے میدان الگ ہیں۔خواتین پر ہورہے ظلم کی ایک بنیادی وجہ انہیں حقوق سے متعلق گمراہ کن فکر‘ اور دونوں کے میدا ن کا اختلاط ہے۔
اوپر بیان کردہ وجوہات میں بظاہر خواتین سے متعلق ہورہے جنسی جرائم کا راست تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن اگر ان تمام وجوہات پر غور کرتے ہوئے سابق اور موجود حالات کا جائزہ لیں تو اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ وہ تمام امور کا حتمی ارتکاذ ‘ عورتوں پر ظلم وجبر اور جنسی ہراسانی پر منتج ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے ‘ بڑی برائیوں سے بچنے کیلئے ان کے ابتدائی اثرات پر ہی سختی سے قابو پانے کی ہدایت دی ہے۔ جیسے زنا سے بچنے کیلئے نگاہوں پر قابو پانا وغیرہ۔اکثر کہا جاتا ہے کہ خواتین چاہے کیسا ہی لباس کیو ں نہ پہنیں ‘ مردوں کو اپنی حفاظت کرنی چاہئے۔ بات سچ ہے کہ مردوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنی چاہئے اور ساتھ ہی عورتوں کو بھی مہذب اور شائستہ لباس زیب تن کرنا چاہئے ۔دین اسلام نے مردوں کو اپنی حفاظت کرنے اور عورتوں کو کھلے عام بناؤ سنگھار کرنے سے منع کیا ہے۔ یعنی جس قدر کوئی گناہ ‘قابل مذمت ہے اسی قدر قابل مذمت وہ وجوہات بھی ہیں جن کی بنا‘گناہ کرنے کا محرک پید ا ہوجاتا ہے۔ گناہ کے علاوہ‘علامات گناہ بھی ‘قابل گرفت ہیں ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ہر قتل کا کچھ حصہ دنیا کے پہلے قاتل‘ قابیل کو نہیں جاتا۔
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ
تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی  سے آئی ہے، اور بہت سے قصُوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔ ( الشوری:۳۰)
وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ…
کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے اپنے کیے کرتُوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب اُن پر آئے۔(القصص:۴۷)
لوگ کہتے ہیں انسان ننگا پیدا ہوا ہےعریانیت اور شائستگی کا سوال اس وقت سے پیدا ہوا جب انسان نے کپڑا پہننا شروع کیا۔ انسان کے کپڑے اور وضع قطع میں عریانیت ان لوگوں کو نظر آتی ہیں جو اس کواپنے مخصوص نظریات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔جس تہذیب کو وہ مانتے ہیں اگر اس کےاقدار کے مطابق لباس ہو تو ٹھیک ورنہ ‘ اس میں وہ غیر شائستگی دیکھتے ہیں اور اس کو عریاں سمجھتے ہیں۔چونکہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کو اپنی پسند کے مطابق رہنے سہنے کا مکمل اختیار ہونا چاہئے۔
یہ موقف ان لوگو ں کا ہوسکتا ہے جن کے نزدیک مذہب اورمذہبی تعلیمات کےمطابق عمل کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ مذہب کےماننے والوں کے نزدیک بے حیائی اورعریانیت ایک ناپسندیدہ چیز ہے لیکن نہ ماننے والوں کے نزدیک یہ ایک طرز زندگی ہے۔ انسان کی اسی آزادانہ سوچ نے ‘ عورت کی عفت اور پاکدامنی سے متعلق پوری دنیا میں یہ ابتر صورتحا ل پیدا کردی ہے۔ حالات کی بہتری اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان‘ اپنے اور صنف نازک کے سلسلہ میں اپنی سوچ اور نظریہ بدل دے۔
غالباً علامہ اقبالؒ کی جانب یہ بات منسوب کی جاتی ہے جو بالکل صحیح ہے ‘چونکہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ذمہ داری دی ہے اس لئے اس کو محفوظ اور چھپا ہوا رہنا چاہئے جیسے درخت کی تخلیق کرنے والی بیج چھپی رہتی ہے۔عورت کو اس لئے عورت(چھپی ہوئی چیز) کہا جاتا ہے۔عورت کے اس اصل مقام کے علاوہ ‘جو دیگر حقوق وفرائض اس پر عائد ہوتے ہیں‘ ان کی ادائیگی کے لئے وہ برابر آگے بڑھ سکتی ہے تاوقتیکہ اس کی عفت وپاکدامنی پر کوئی آنچ نہ آئے اور اس کی خانگی زندگی بھی کسی طرح متاثر نہ ہو۔
رہی بات مردوں کے رویوں کی ‘ہمیں اللہ کے رسولؐ کی نصیحت کی روشنی میں واضح انداز سے کہنا اور اسکی مثال بننا چاہئے کہ کسی مرد کی ‘قوامیت اور مردانگی‘اس کی اپنی خواتین کے ساتھ حسن سلوک میں ہے۔
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِ
تم سب سے اچھے وہ ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھے ہیں اور میں اپنے بیویوں کے لئے اچھا ہوں (بروایت حضرت ابن عباسؓ،کتاب النکاح، سنن ابن ماجہ)
اور مردوں کو اپنے قوام ہونے کا (سورہ النسا:۳۴) صحیح شعور بھی ہو اور اپنے گھر اور خاندان میں اس کی بہترین مثال قائم کرنے والی ان کی مثالی زندگیاں بھی ہوں۔
ان اصولی باتوں کے تحت اپنے رویوں کو درست کرنے کے علاوہ خواتین پر ہورہے مظالم کی روک تھا م کا کوئی اور چارہ کار نہیں۔اگر یقین نہ ہو تو دیکھ لیں‘ ظلم کی لمبی تاریخ ایک طرف ہے اور دوسری طرف دنیا بھر کی‘ دنیا والوں کی کوششیں‘لیکن خواتین پر ہورہے مظالم میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ ان اصولی اور نظریاتی امور کے ساتھ اگر انسان کو یہ احساس ہو کہ اس کو ایک دن مرنا ہے اور اپنے خالق و مالک کے سامنے حاضر ہونا ہے‘ تو بلاشبہ اس کا یہ احساس جوابدہی اس کو اس قدر نیک بنادے گا کہ اس کی کوششوں سے نہ صرف اس کا معاشرہ بلکہ پوری دنیا‘ ہر طرح کے فساد اور بگاڑ سے پاک ہوجائے گی۔
حوالہ جات

)1( Violence against women: an EU wide survey by European Union Agency for Fundamental Rights
)2( National Centre for Injury Prevention and Control Founded by the Pennsylvania Coalition Against Rape
)3( National Crime Victimization Survey, US Department of Justice
)4( National Institute of Justice, US Department of Justice
)5( Criminal Victimization in USA
)6( The National Center for Biotechnology Information, US National Library of Medicine
)7) Violence against women in India, a review of trends, patterns and response – report prepared by International Centre for Research on Women (ICRW(
)8( WikiPedia

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146