تقریباً بیسویں صدی کے اخیر تک حجاب مشرقی اور اسلامی دنیا کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ خود ہمارے ملک ہندوستان کے کلچر میں سر اور چہرہ ڈھانکنے کا رواج تقریباً سبھی سماجوں میں عام تھا۔ استعماری دور میں مغربی طاقتوں کو یہ چیز سخت ناپسند تھی اور وہ اسے بچھڑے پن اور غیر مہذب ہونے کی علامت تصور کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ، بزعم خود ، مہذب ہیں اس لیے پوری دنیا کو تہذیب سکھانا اور مہذب بنانا ان کا فرض منصبی ہے۔ چنانچہ جہاں جہاں استعماری طاقتیں رہیں، وہاں وہاں کی تہذیب و ثقافت کو بدلنے اور ان پر اپنے تہذیبی اثرات کا رنگ چڑھانےکی بھرپور کوشش کی۔ مسلم دنیا کی کئی مملکتیں ان کی ان کوششوں کا خاص محور رہیں جن میں مصر، لبنان اور ترکی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اگرچہ دورانِ استعمار بہت سارے خطوں میں ان کوششوں میں بہت زیادہ کامیابی نہیں ہوئی تاہم انفارمیشن ٹکنالوجی اور میڈیا کی ترقی و تیز رفتاری اور اس کے وسیع تر اثرات نے 1990 کی دہائی کے بعد تیز رفتاری سے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اور محض 25-30 سالوں کے اندر وہ کچھ ممکن ہوگیا جو گزشتہ ایک صدی میں نہیںہوپایا تھا۔ اسلامی دنیا کی معاشرت پر حجاب کی روایت کو لے کر نظریاتی اعتبار سے مغرب اس پر ایک صدی پہلے ہی تیز وتند حملے شروع کرچکا تھا اور اسے غیر مہذب ہونا اور بچھڑا پن بتاکر خواتین پر ظلم باور کرانے کی کوشش کررہا تھا۔ تیز رفتار میڈیا کے آتے ہی اس نے اس کے خلاف نئی مہم شروع کردی اور بچھڑے پن سے بہت آگے کی چیز دہشت گردی اور بنیاد پرستی سے جوڑ کر دکھانا شروع کردیا۔ یہ وہ دور تھا جس میں تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ دنیا کے سامنے آیا تھا — اور — اب ایک نئی جنگ تہذیبی جنگ کے نام سے شروع ہوگئی جس نے اسلام کے نظریہ حجاب کو اسلامی بنیاد پرستی اور خواتین پر ظلم کی تمام ہولناکیوں کے ساتھ پیش کرنا شروع کردیا۔ اس طرح اس زمانے کے اخبارات میں حجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔
اس دور میں مسلم دنیا میں حجاب کی روایت اب روایت سے ہٹ کر عورت کی آزادی کا استعارہ بن گئی اور بہت سی خواتین نے اس آزادی کے چلتے اور تہذیبی استعمار کے زیر اثر خود کو اس سے الگ کرنا شروع کردیا۔ اب یہ روایت نہیں بلکہ مسلم عورت کا اختیار یا اس کی چوائس بن گیا۔ یہ بڑی کامیابی تھی۔ اگلے مرحلے میں بڑی بے باکی کے ساتھ اسے دہشت گردی اور بنیاد پرستی بتانے کی مہم جب شروع ہوئی تو مغربی دنیا کے اخبارات کی ہیڈ لائن کچھ اس طرح کی آناشروع ہوئیں:
’’اسلام کا پوشیدہ (باحجاب) خطرہ‘‘، ’’حجاب مذہبی عمل یا سماج کے لیے چھپا ہوا خطرہ‘‘، ’’با حجاب عورت: اسلامی انتہا پسند خواتین کو کس طرح غلامی میں ڈھکیل رہے ہیں؟‘‘ ، ’’حجاب میں قید مسلم عورت‘‘، ’’مسلم حجاب: فرانسیسی اسکولوں میں ہم آہنگی کے لیے خطرہ ‘‘ وغیرہ۔
اور اب ہندوستان میں بھی وہی سوچ فرانس سے چل کر آگئی ہے اور یہاں بھی حجاب کو تعلیمی نظام میں مذہبی آہنگی کے لیے خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سوچ مغربی دنیا کی اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ جس کے تحت وہ دنیا بھر میں اپنی تہذیبی استعماریت کو وسعت دینا چاہتا ہے اور دنیا بھر کے معاشروں کے معاشرتی تانے بانے بکھیرکر نئے انداز سے بننا چاہتا ہے۔اساسی طور پر اس میں کسی خاص مذہب کی قید نہیں کہ وہ دنیا بھر میں اپنی تہذیب کو غالب کرنے کا ہدف رکھتا ہے لیکن کئی وجودہات سے اسلامی دنیا اور مسلم سماج اس کا خاص ہدف ہیں۔
ادھر مسلم دنیا کے تعلیم و ترقی کے میدان میں بچھڑے پن کے سبب دنیا کو ایسا احساس ہونے لگا کہ مسلم سماج اور اس کی خواتین اسی لیے پسماندہ اور پچھڑی ہوئی ہیں کہ وہ اس طرح کی ’بنیاد پرستانہ اور غیر منطقی‘ روایتوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ مسلم سماج کے شدت پسند علما اور مصلحین، جنھوں نے حجاب کے زیر اثر مسلم عورت کو سماجی، معاشرتی، تعلیمی اور دینی اعتبار سے کاٹ کر رکھ دیا تھا، اور ’جدیدیت پسند‘ خواتین جن میں فاطمہ مرنیسی اور ملالہ جیسی خواتین قابلِ ذکر ہیں، آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوئے۔ اس پوری کشمکش کے عرصے میں جہاں حجاب عام طور پر مسلم عورت کی چوائس یا اختیار بن گیا کہ اگر وہ چاہے تو نہ کرے اورچاہے تو کرے، جہاں بہت ساری خواتین اس سے دستبردار ہوئیں وہیں شعوی طور پر حجابی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔حجاب کے تصور کے عالمی ڈیبٹ میں شامل ہوجانے کے سبب اس سلسلے میں مسلم معاشروں ہی میں نہیں خود مغربی معاشروں میں بھی اس کی منطق اور ضرورت و اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 20-30 سالوں کے درمیان یوروپ، امریکہ اور کنیڈا جیسے ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی تعداد کافی ہے جن کے لیے وجہ کشش حجاب کا تصور ہی تھا۔
اپنے وطن ہندوستان میں حجاب تنازعے کے اسباب تہذیبی اور ثقافتی سے زیادہ سیاسی ہیں اور یہ ان کوششوں کا حصہ ہیں، جن کے تحت وہ ملک میں مذہبی بنیادوں پر اسلام و مسلمان اور دوسری مذہبی اکائیوں کے درمیان خلیج اور نفرت کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مسلمان اس بات کا بڑے پیمانے پر ادراک رکھتے تو یہ مسئلہ مقامی سطح سے اٹھ کر وہیں ختم ہوجاتا مگر ان میں سے محض چند جذباتی، غیر دانشمند اور سیاسی مفاد کے حصول میں سرگرداں افراد نے اپنی ’سادہ لوحی‘ کے ذریعے اس مسئلے کو مسلمانوں کے لیے گلے کی ہڈی اور مخالفین کے لیے مضبوط ہتھیار بنادیا۔ عدالت میںمعاملے کے چلے جانے کے بعد نزاکتیں بڑھ گئیں اور انہیں وہ فائدہ حاصل ہوگیا جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے اور مسلم ملت ایک نئے مسئلے کے گھیرے میں آگئی۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ مذہبی سیاسی کشمکش کے اس دور میں مخالفین کی کوشش یہ رہی ہے، اور آئندہ بھی رہے گی کہ وہ ہمیں مختلف النوع مسائل پیدا کرکے بیک فوٹ پر اور دفاعی پوزیشن میں رکھیں جس سے ہماری انرجی، وسائل اور فکری و عملی صلاحیتیں کسی تعمیری کام میں لگنے کے بجائے اسی طرح کے وقتی مسائل سے جوجھنے میں صرف ہوتی رہیں اور ہم ہندوستان میں اپنی تعمیر اور ملک کی ترقی میں خاطر خواہ رول ادا نہ کرسکیں۔ اس طرح وہ ہمارے اندر ایک قسم کا عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اقلیتوںمیں بہ آسانی پیدا ہوبھی جاتا ہے۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ ’ہوشیار باش!‘
اس ملک میں مسلمانوں کے مستقبل کو اندیشوں سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہماری کامیابی کا راز موہوم اندیشوں میں جینےسے زیاد چیلنجز کو سمجھنے اور ان کا بہ حسن و خوبی مقابلہ کرنے کی اسٹریٹجی اور منصوبہ بندی میں ہے۔ مایوسی اور خوف کے بجائے امید اور امکانات و مواقع پر نظر رکھنا اور انہیں تلاش کرکے استعمال کرنا زندہ دلوں اور زندہ قوموں کا شعار رہا ہے اور رہنا چاہیے۔ خود اعتمادی اور عزم و ہمت و ہ ذرائع ہیں جو تاریک راہوں میں روشنی پیدا کرتے ہیں۔ اقبالؒ نے کہا تھا:
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:
گہرا ہوا ہے رنگ اندھیروں کا جب حفیظؔ
امکان روشنی کے بھی روشن بہت ملے
گزشتہ دنوں جب حجاب تنازعے نے طول پکڑا اور اترپردیش کے علاوہ دیگر ریاستوںکے انتخاب کے وقت اس کی بازگشت سنائی دی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس موضوع پر ہم ایک خصوصی شمارہ لاکر اسلام کے تصورِ حجاب کو لوگوں کے سامنے واضح کریں گے اور اس تنازعے کے سیاسی و سماجی عوامل سے واقفیت بھی فراہم کریں گے۔ جو مسلم سماج میں اس موضوع پر بیداری کا ذریعہ ہوگا۔ ان شاء اللہ!
ہمارا یہ فیصلہ کسی قدر جلد بازی کا فیصلہ تھا، مگر ضروری تھا، اس لیے ہم اس اقدام میں چوکے نہیں بلکہ اُردو حلقے کو قابلِ قدر ریڈنگ میٹریل فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے جو اپنے موضوع پر مختلف اور ممکنہ جہات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس شمارے میں آپ کو اسلام کے تصورِ حجاب کے سلسلے میں قرآن و حدیث پر مبنی مضامین بھی ملیں گے اور اس کی ضرورت و حکمت کے علاوہ موجودہ سماجی و معاشرتی تناظر میں اس کی لوجک بھی نظر آئے گی۔ ساتھ ہی اس کی عملیت اور تطبیق کی مناسب ترین شکلیں بھی نظر آئیں گی۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ شریعت کا کوئی بھی حکم انسانوں کے لیے حکمت سے خالی نہیں اور نہ ہی وہ غیر عملی ہے کہ انسان اسے اپنی زندگی میںجاری و نافذ نہ کرسکے۔ اگر ہمارے اندر پختہ علم و شعور ہو اور ہم اس حکم کی روح حقیقی کو سمجھتے ہوں تو اس پر عمل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔حجاب بھی شریعت کا حکم ہے جسے مکمل روح کے ساتھ ہم اپنے گھروں میں جاری و نافذ کرسکتے ہیں۔ حجاب اسلامی کا یہ خاص شمارہ اسی فکر کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہوگا۔
اس شمارے کو پیش کرکے ہم اپنے مقاصد میں کس قدر کامیاب ہوئے، یہ تو قارئین ہی بتائیں گے، لیکن ہم پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس شمارے کے ذریعے اسلام کے اہم معاشرتی حکم کی تفہیم و تشریح کے لیے معتبر علماء و قلم کار مرد و خواتین کے رشحاتِ قلم کو آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ ہم ان تمام قلم کاروں اور مضمون نگاروں کے ممنو ن ہیں جنھوںنے ہماری درخواست کو منظور کرتے ہوئے متعینہ ٹائم فریم میں تحریریں عنایت فرمائیں۔ چند احباب کی ایک سے زیادہ تحریریں موجود ہیں جن کے ہم خاص طور پر شکر گزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لکھنے والوں کو حرف حرف پر اجرِ عظیم سے نوازے۔ آمین!
حجاب اسلامی کی ٹیم آپ سے درخواست کرتی ہے کہ اپنی دعاؤں میں حجاب اسلامی اور اس کی ٹیم کو یاد رکھیں اور حجاب اسلامی کی توسیع اور اسے زیادہ سے زیادہ گھروں تک پہنچانے میں تعاون فرمائیں، جو یقیناً تعاون علی البر والتقویٰ کی ایک شکل ہوگا۔ اپنے تمام مشتہرین اور معاونین کا شکریہ جن کے تعاون کے بغیر اس خصوصی شمارے کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ جزاہم اللہ جمیعاً۔
شمشاد حسین فلاحی