اڑیسہ کے کیون جھار میں ایک تیرہ سالہ بچے نے گھر کے بیت الخلا میں خود کو پھانسی پر لٹکا دیا اور اس کی موت ہوگئی۔ وجہ یہ تھی کہ اس کے والد نے اسے اس بات پر ڈانٹ لگادی تھی کہ وہ ہر وقت ویڈیوگیمس کھیلتا رہتا ہے اور اس نے اپنے والد کا بینک اکاؤنٹ استعمال کرکے اس میںسے 91000 روپئے گنوادیے تھے۔ یہ 4؍اکتوبر 2020 کی ٹائمز آف انڈیا کی خبر تھی۔ قارئین یہ بھی جانتے ہوں گے کہ چند سال قبل بلیو وھیل نامی ویڈیو گیم بہت مشہور ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے کھیلنے والے درجنوں بچے خود کشی کرچکے تھے۔ بعد میں اس ویڈیو گیم پر پابندی لگادی گئی۔
ویڈیو گیمس موجودہ دور کے والدین اور بچوں، دونوں کے لیے بڑی آزمائش بنے ہوئے ہیں، جن میں مصروف ہوکر بچے ایک طرف تو اپنا وقت، کیریئر اور ذہنی و جسمانی صحت تباہ کررہے ہیں تو دوسری طرف والدین کی گاڑھی کمائی بھی ضائع کرنے میں لگے ہیں۔ ان ویڈیو گیمس کی خوبی یہ ہے کہ جو بچے ان میں پڑجاتے ہیں وہ ان کی لَت یا عادت بن جاتے ہیں جس سے جان جھڑانا آسان نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں میں موٹاپا اور اس کا علاج
بچوں کی جسمانی و ذہنی صحت پر ویڈیوگیمس کے اثرات پر موجودہ دور میں کافی ریسرچ اور تحقیق ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اسی طرح کچھ ویڈیو گیمس کے بچوں کی ذہنی صحت اور نفسیات پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ اور ان پر تحقیق بھی ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بعض گیمس تو اس قدر خطرناک ہیں کہ والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ یہ گیمس بچوں کو ہرگز نہ کھیلنے دیں۔ چنانچہ اگر ہم انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو ایسے درجنوں ویڈیو گیمس کے نام ملیں جن سے بچنے اور بچانے کا ماہرین مشورہ دیتے ہیں۔
ویڈیو گیمس کے فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں بعض گیمس ایسے بھی ہیں جو بچوں میں مختلف قسم کی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو بچوں کے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ہوسکتے ہیں جبکہ کچھ گیمس ایسے بھی تیار ہوئے ہیں جن کا اپروچ اور مقصد تعلیمی و تربیتی نوعیت کا ہے، مگر ایسے بہت کم ہیں اور اگرہیں بھی تو بچوں کو اس بات کی فکر کہاں ہوتی ہے اور اتنا شعور کب ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کا استعمال اپنے تعلیمی مقاصد کے لیے کرسکیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ یقینا اکثر اوقات ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہتے ہیں اور اچھی چیزوں سے فیضیاب ہوپاتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو تو محض تفریح مطلوب ہوتی ہے اور وہ وہی کرنا چاہتے ہیں جو انہیں اچھا لگے اور ویڈیو گیمس کھیلنا انہیں اچھا لگتا ہے۔ ان میں مفید اور مضر کونسا ہے انہیں نہ تو معلوم ہے اور نہ ہی وہ اس کی فکر کرپاتے ہیں۔
ویڈیو گیمنگ بچوں پر خصوصاً نوعمروں کے ذہن اور نفسیات پر گہرے اور اکثر واقات گہرے منفی اثرات چھوڑتی ہے۔ وہ عملی زندگی کو بھی ویڈیو گیمس کے تناظر میں جینے کی سوچتے ہیں اور جس طرح کے گیمس وہ کھیلتے یا دیکھتے ہیں اسی طرح کی سوچ اور نفسیات پروان چڑھتی ہے۔ کئی سال قبل ایک ’سپرمین‘ بچوں کا ٹی وی سیریل آیا تھا جسے دیکھ کر کئی بچوں نے اپنے گھروں کی چھت سے چھلانگ لگا کر جان گنوادی تھی۔ وجہ؟ وجہ یہ تھی کہ انھوںنے یہ سوچ لیا تھا کہ سپرمین انہیں آکر بچالے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔
بچوں کی نفسیات اور سوچ کو یہ ویڈیوگیمس کیسے متاثر کرتے ہیں، اس کی اور بھی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مگر جو سب سے بڑی حقیقت ہے اور ان کا نتیجہ بن کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان ہی ویڈیوگیمس کے سبب ہمارے بچوں میں پُرتشدد رویے، جھنجھلاہٹ، نیند کی کمی، غیر سماجی رویہ، تنہائی پسندی، موٹاپا اور صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ تعلیمی و اسکولی کارکردگی میں والدین کے لیے مایوسی و بے اطمینانی کی حد تک گراوٹ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ لت یا ’اڈکشن‘ ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا اور یہ لت بچوں میں نفسیاتی ڈس آرڈر یا ’فساد‘ کا سبب بنتا ہے۔ یہی بات ہے جو ڈاکٹر لگن جیت داش بھی مانتے ہیں، جو ملک کے ایک معروف اسپتال میں نیورو سائکاٹرسٹ ہیں۔وہ کہتے ہیں:
’’انٹرنیٹ گیمنگ ایک لت یا اڈکشن کی طرح ہے، جس کی وجہ سے فرد دوسری چیزوں اور کاموں میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے اور صرف اسی میں لگا رہتا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ بچہ انٹرنیٹ گیمنگ کے مضر اثرات سےو اقف نہیںہوتا۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال اور موبائل پر نظر رکھیں تاکہ وہ ان کو اس لَت سے بچاسکیں۔ ان کا والدین کو مشورہ ہے کہ لت کی صورت میں اگر آپ بچے پر فوری گرفت کریں گے تو وہ بغاوت پر اتر آئے گا۔ اس لیے ایسے وقت میں سمجھائیں جب اس کا ذہن پرسکون محسوس کریں اور اس کے ذہنی و جسمانی نقصانات کی اچھی طرح وضاحت کریں۔
ذہنی و نفسیاتی صحت کی وہ خرابی جس کا ذکر اوپر ہوا، چاہے وہ لت کی صورت میں ہو یا پیسہ لگا کر جوے کی صورت میں ہو، کے علاوہ یہ ویڈیو گیمس بچوں کی جسمانی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں اور کررہے ہیں۔ ایسا اس وجہ سےہے کہ جو بچے ویڈیو گیمنگ کے عادی ہوجاتے ہیں وہ بیٹھے بیٹھے تفریح کرنا چاہتے ہیں اور جسمانی محنت یا کھیل کود میں، جو اس عمر کا لازمی تقاضہ ہے، ان کی دلچسپی ختم ہوتی چلی جاتی ہے، اور وہ موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ موٹاپے کا شکار ہوتے ہی ان کو صحت کےوہ مسائل گھیرنا شروع کردیتے ہیں جو پہلے بڑی عمر کے لوگوں کو گھیرا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے اعداد وشمار حیرت انگیز اور چونکا دینے والے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہماری نسل کس طرح کے صحت کے مسائل سے دوچار ہوتی جارہی ہے اور بچوں میں موٹاپا کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس میں جہاں موجودہ دور کی غذائی عادات میں بے اعتدالی ہے وہیں بچوں کا جسمانی محنت اور ورزش سے دور رہنا ہے جو ویڈیو گیمس کے سبب ہی عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔
ویڈیو گیمنگ کی لت اور جسمانی صحت کی خرابی کے درمیان کیا تعلق ہے، یہ جاننے کے لیے ہم نے کولکاتا کے ایک معروف اسکول کے فزیکل ٹرینر جناب حفیظ اللہ صاحب سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا:
’’جو بچے ویڈیو گیمنگ کی لت میں پڑے ہوتے ہیں وہ جسمانی محنت اور کھیل کود سے کتراتے ہیں۔ جو بچے موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں وہ تو کھیلوں میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے حالانکہ ان کو جسمانی کھیل کود کی دوسرے بچوں کے مقابلے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس طرح کے بہت سے بچے اپنے ساتھ فٹ بال اور بیڈ منٹس ریکٹ لے کر آتے ہیں مگر اسکول کے پلے گراؤنڈ میں کھیلتے نہیں۔ گھر جاکر والدین سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ اسکول میں کھیلتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین سے بھی غلط بیانی کرتے ہیں۔
دہلی کے ایک سرکاری اسکول کی معلمہ فاطمہ الیاس بتاتی ہیں کہ ویڈیو گیمنگ نے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ جن بچوں کے گھروں میں والدین بچوں کی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے ان کے بچے گھروں میں دن بھر موبائل پر لگے گیمس کھیلتے رہتے ہیں اور والدین کو اس صورت حال کی بالکل پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ کہتی ہیں:
’’دن بھر کی کلاسوں میں درجنوں بچے ایسے ملتے ہیں جو نہ تو ہوم ورک مکمل کرکے لاتے ہیں اور نہ کلاس میں پڑھائی پر توجہ دیتے ہیں۔ میں تو سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی ہوں۔ کئی مرتبہ سختی سے ڈانٹنے کو دل چاہتا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ بچہ کہیں کچھ غلط نہ کربیٹھے۔‘‘
فاطمہ الیاس کو والدین سے شدید شکایت ہے، خصوصاً متوسط طبقے کے والدین سے، کہ وہ اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے اور اس بات کی بالکل فکر نہیں کرتے کہ اسکول سے آکر ان کے بچے باقی وقت کس کام میں گزررہا ہے۔ وہ اسکول سے بھی شکوہ کرتی ہیں کہ ان پر انتظامیہ کی طرف سے مسلسل بچوں کی اچھی کارکردگی کے لیے دباؤ رہتا ہے مگر وہ کیا کریں کہ بچے پڑھنے پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ فاطمہ الیاس پرانی دہلی کے ایک اسکول میں معلمہ ہیں جہاں اکثریت مسلم بچوں کی ہے۔
بچے ویڈیو گیمنگ کیوں پسند کرتے ہیں، اس پر ایک امریکی محقق شیری جے لیوکس نے تحقیق کی۔ اس تحقیق میں شیری نے 15-20 سال کی عمر کے 535 بچوں کو شامل کیا تھا اور یہ ویسٹ امریکہ کے علاقہ میں کی گئ۔ انھوںنے پایا کہ 68 فیصد بچے یہ گیمس ہفتہ وار تفریح کے طور پر کھیلتے ہیں۔ اس کھیلنے کی وجہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ لڑکوں میں اس کی وجہ Excitment یا اشتیاق اور جیت کے چیلنجز کا جذبہ ہوتا ہے کہ انہیں بہرحال گیم جیتنا ہے۔ ان کے درمیان اسپورٹ اور پرتشدد گیمس زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔
بچوں اور نوعمروں کی ذہنی و جسمانی صحت پر ویڈیو گیمس کے اثرات پر بھی تحقیق موجود ہے۔ جو بتاتی ہے کہ یہ ان کی ذہنی وجسمانی صحت پر شدید قسم کے برے اثرات مرتب کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایران کے شہر اصفہان کے ایک اسکول میں احمد ایس نے ایک تحقیق کی۔ ان کے مطابق ان سے پیدا ہونے والے نقصانات میں غصہ پھوٹ پڑنا، پرتشدد رویہ، موٹاپا، مرگی اور تنہائی پسندی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو عام طور پر بچوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انھوںنے اپنی تحقیق میں 564 بچوں کو شامل کیا جن میں 263 یعنی 6.46 فیصد لڑکیاں تھیں اور 301 یعنی 4.53 فیصد لڑکے تھے۔ ان 564 بچوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ 467 یعنی 8.82 فیصد کا ایک گروپ اور 97 کا دوسرا گروپ۔ دوسرا گروپ ان بچوں کا تھا جو روزانہ کم از کم 3 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت ویڈیو گیمنگ میں مصروف رہتے تھے۔ ان تمام کی عمریں 13 سال کے لگ بھگ تھیں۔ انھوں نے پایا کہ دوسرے گروپ کے بچوں میں جسمانی شکایات کے ساتھ ساتھ اینگزائٹی، بے خوابی، سماجی رویوں میں تبدیلی اور ڈپریشن کی کیفیات واضح طور پر موجود تھیں۔ انھوںنے پایا کہ کم از کم 4 فیصد افراد میں لت کی کیفیت موجود تھی اور جسمانی شکایات زیادہ تھیں جبکہ 12 فیصد میں اینگزائٹی اور بے خوابی تھی، 6 فیصد میں ڈپریشن تھا اور ایک فیصد بچوں کے سماجی و معاشرتی رویے بگڑے ہوئے تھے۔
ہم نے نوعمر بچوں کی تعلیم و تربیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اور بہت سے والدین کی ایک بڑی مشکل کا اس مضمون میںتذکرہ اور تجزیہ پیش کیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آپ کا مسئلہ نہ ہو۔ اللہ کا شکر ادا کیجیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں یہ مسئلہ آپ کو یقیناً پیش نہیں آئے گا۔ اس لیے آپ کے لیے ہوشیار، باخبر اور فکر مند رہنا ضروری ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کی دن بھر کی مصروفیات پر نظر رکھیں اور ان کے لیے صحت مند تفریح اور کھیل کود کے مواقع فراہم بھی کریں اور ان کے استعمال پر نظر بھی رکھیں۔ ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ بچوں کو تعمیری مشاغل فراہم کیے جائیں اور انہیں ان میں لگائے رکھا جائے تاکہ ان کی توجہ تخریبی اور نقصان دہ مصروفیات میں نہ لگ سکے۔
پرانے زمانے میں جب لڑکیوں کی تعلیم کا رواج نہ تھا۔ اس زمانے میں بڑی بوڑھیاں بڑھتی عمر کی لڑکیوں کو ایسی مصروفیات میں لگائے رکھتی تھیں جن کا ذکر آج ہمیں حماقت معلوم ہوگا۔ مثلاً دال اور چاول کے دانوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور لڑکیوں سے کہہ دیا کہ انہیں بین کر الگ الگ کرو۔ اب وہ اس مصروفیت میں لگی رہتیں۔ ان کے نزدیک ان بڑھتی عمر کی لڑکیوں کو غلط سوچ اور غلط صحبت سےبچائے رکھنے کا یہی طریقہ تھا۔ آج ہم اس کی حمایت نہیں کرسکتے مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ اپنے بچوں کو تعمیری مصروفیات فراہم کریں اور ان کے وقت کا بہتر استعمال اس طرح سے ہو کہ ان کے لیے فضول اور نقصان دہ چیزوں میں لگانے کے لیے وقت ہی نہ رہے۔ لڑکوں کو گھر کے چھوٹے موٹے کاموں، کاروباری مصروفیات میں تعاون یا دیگر چھوٹے موٹے کام کو سونپ کر انہیں ذمہ دار بھی بنایا جاسکتا ہے اور تجربہ کار بھی۔ اسی طرح لڑکیوں سے گھریلو کاموں یا علوم و فنون سیکھنے اور کھانے پکانے جیسے کاموں میں مدد لی جاسکتی ہے۔
گھروں میں پڑھنے لکھنے اور سیکھنے سکھانے کے ماحول کو فروغ دیا جائے اور اپنے بچے بچیوں کے لیے اچھا تعمیری لٹریچر مہیا کیا جائے۔ اسی طرح سماجی خدمت، دینی و تربیتی پروگراموں میں شرکت یا محلے پڑوس کے غریب و نادار اور ناخواندہ بچے بچیوں کو پڑھانے کی طرف توجہ دے کر ان کے بچے ہوئے وقت کا تعمیری استعمال کیا جاسکتا ہے جو خود ان کی تعلیم و تربیت کے میدان میں آگے بڑھنے میں معاونت کرے گا۔
سب سے اہم بات جس کا مضمون میںکئی بارذکر آیا ہے وہ اپنے بچوں کو وقت دینا ہے۔ اس کی کیا صورتیں ممکن ہیں یہ فیصلہ تو آپ ہی کو کرنا ہے مگر اتنا ضرور ہو کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کا بچہ اسکول میں کیا کررہا ہے، کن بچوں کے ساتھ ہے اور اسکول سے آنے کے بعد وہ کیا کرتا ہے اور کہاں کہا ںجاتا اور کیسے وقت گزارتا ہے۔
محبت اور پیار ایسا مضبوط بندھن ہے جو بچوں کو باندھے رکھتا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو پیار و محبت کا مضبوط بندھن فراہم کریں یہ انہیں غیر تعمیری مشغولیات سے بچا کر آپ کی دی گئی ہدایات کو قبول کرنے اور عملی زندگی میں نافذ کرنے کا ذریعہ بنے گا۔