ہندوستان تمثیل سے تشویش تک

شمشاد حسین فلاحی

گزشتہ ماہ کے اداریے میں ہم نے برطانوی وزیر اعظم محترمہ مارگریٹ تھیجر کی اس گفتگو کا ذکر کیا تھا جس میں انھوں نے اس وقت کےسوویت روس کے صدر گوربا چوف سے بات کرتے ہوئے ہندوستان کو ’کثرت میں وحدت‘ کی تمثیل کے طور پر پیش کیا تھا۔ آج ہم اس تمثیل کے بجائے اس تشویش کا ذکر کریں گے جو ہندوستان کی موجودہ صورت حال پر عالمی برادری اور خصوصاً عالمِ اسلام میں پائی جاتی ہے۔

پورا ملک اس بات سے اچھی طرح واقف ہے اور دنیا کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ہندوستان میں نفرت کی جو سیاست جاری ہے اس کے اثرات و نتائج کیا ہونے والے ہیں۔ اس موضوع پر ملک کے اندر اور ملک کے باہر کے معروف و مشہور اخبارت میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ یہ جو کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے وہ ایک ایسے ہندوستان کی تصویر پیش کرتا ہے جس کے روشن مستقبل کے بارے میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ تمثیل سے تشویش تک کا یہ سفر گزشتہ 70 سالوں میں کیسے طے ہوگیا اس پر ملک کے اربابِ سیاست کو بھی سوچنا چاہیے اور ملک کے عوام کو بھی جن کا مستقبل اس ملک کی تعمیر وترقی یا بہ صورتِ دیگر اس کی خرابی سے جڑا ہوا ہے۔

گزشتہ دنوں سابق وزیر مالیات جناب یشونت سنہا نے، جو اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے ’انڈین ایکسپریس ‘میں ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا ’فرقہ واریت نہ پروسیں‘ ۔ اس مضمون کی شروعات میں انھوں نے لکھا:

’’ہندوستان روز بہ روز فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کے دل دل میں ڈوبتا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے اب تک ان حالات پر ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے اور نہ ہی لڑنے والے گروہوں سے امن کی اپیل کی ہے۔ جو ان کی پارٹی اور حکومت پر سوال کھڑے کرتا ہے۔‘‘

سابق وزیر خزانہ نے بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی، گرتی معیشت اور نوجوانوں کی صورتِ حال اور حکومت کی روش کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’’ملک کی موجودہ معاشی حالت تشدد کے لیے سازگار ہے۔‘‘ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اسے روکیں اور انتظامیہ کو چاہیے کہ اسے نہ بھڑکنے دینے کے لیے اپنے اثر کا استعمال کرے۔ اسی طرح کی ایک تحریر پہلے سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کی بھی اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ جس میں انھوں نے ’سماج کو بانٹنے والی اور نفرت کو بڑھاوا دینے والی تقریروں‘ پر تشویش کا اظہار کیا تھا ا ور نام بہ نام ان افراد کا ذکر کیا تھا جو فی الواقع نفرت انگیز تقریروں کا استعمال کرکے فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں اور حکومت ان جیسوں کو لگام نہیں دے رہی۔

عالمی سطح پر ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور دن بہ دن کمزور ہوتی معیشت پر بھی مختلف رپورٹیں اور تجزیاتی مضامین شائع ہورہے ہیں۔ ان رپورٹوں میں ڈاکٹر ایلن کنیڈی کی رپورٹ کو خاص طور پر میڈیا نے بڑے پیمانے پر کور کیا ہے۔ اس میں ہندوستان میں بڑھتی مذہبی منافرت پر خاصی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ کنیڈی ’’ورلڈ ود ھاؤٹ جینوسائڈ‘‘ نامی ادارے کے موسس اور ایگزیکیوٹیو ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے موجودہ حالات کو یہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی اسی طرح کی تیاری بتایا ہے جیسی کہ اب سے کوئی 80 سال قبل یہودیوں کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا ہے کہ امریکہ کو چاہیے کہ اس کا ادارہ ’’کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم‘‘ ہندوستان کو 2022 کی رپورٹ میں ’’کنٹری آف پرٹی کنسرن‘‘ (CPC) کی فہرست میں رکھے۔ انھوںنے کہا ہے کہ ’’ہندوستان میں بڑھتی ہندو انتہا پسند تحریک نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی ہے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لیے معاون اور آزادی کا ماحول پیدا کیا ہے۔‘‘

گزشتہ دنوں جب ملک میں ’’کرناٹک حجاب تنازعہ‘‘ گرم تھا، اس وقت عالمِ اسلام اور عالمِ عرب میں بھی یہاں کی مذہبی آزادی پر کافی تشویش کا اظہارکیا گیا تھا اور بعض ممالک نے سفارتی سطح پر بھی اپنی تشویش نوٹ کرائی تھی۔ حالیہ دنوں میں مشہور ترکی نسل کے جرمن اسپورٹ اسٹار مسعود اوزیل نے بھی اس وقت تشویش کا اظہار کیا جب ’’مریادا پروشتم رام‘‘ کے نام پر ملک کی کئی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا اور مسلمانوں کے املاک کو آگ کے حوالے کردیا گیا تھا۔

جو باتیں یہاں عرض کی گئی ہیں ان کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مایوسی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں یا اسے خوف کی نفسیات میں مبتلاکرنا چاہتے ہیں بلکہ اس تمام تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح دنیا اور خود اس ملک کے اصحابِ علم و شعور سمجھ رہے ہیں، کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ محض اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں ہورہا ہے۔ اگر اس کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہوتا تو یہ سلسلہ بڑھنے اور تیز ہونے کے بجائے رک جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا اور نہ ہونے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔

بات صاف ہے کہ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے کا امکان ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے اور یہاں بسنے والی اقلیتوں کو ذہنی اور عملی طور پر آئندہ حالات کے مقابلے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ اس لیے کہ جو نفرت کی فصل کاشت کی جارہی ہے وہ کچھ نہ کچھ تو اپنا اثر دکھائے گی ہی۔

یہاں پر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے لیے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ ہی غیر ضروری خوف کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے۔ قوموں اور گروہوں کی زندگی میں سخت اور آزمائشی حالات آتے ہیں اور صبر و تحمل، دانشمندی اور مستقبل کی ہمہ جہت منصوبہ بندی سے ان کا مقابلہ کیا جائے تو وہ بہ آسانی گزرجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔‘‘ اور ہر رات اس بات کی ضمانت ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد صبح کا نمودار ہونا یقینی ہے۔

ہمارے سامنے رسول پاک ﷺ کی مدنی زندگی کا ایک طویل دور ہے جو ہمیں صبر وتحمل بھی سکھاتا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی پر بھی ابھارتا ہے۔ ہمارے نزدیک صبر، کمزوری اور بے عملی و تعطل کا نام نہیں بلکہ ایک پالیسی اور اسٹریٹجی کا نام ہے جو ہمیں حالات کا مقابلہ کرنے کے طریقے بھی سجھاتی ہے اور مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنے کے بھی قابل بناتی ہے۔ اس لیے صبرو ہمت کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی حالات سے نبرد آزمائی کی اسٹریٹجی تیار کی جائے اور ملک کے عوام کے سامنے نفرت کی سیاست کے مقابلے محبت کا پیغام عام کیا جائے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146