اشارہ بند ہونے کے چند لمحوں بعد وہ مصروف چوک گاڑیوں سے بھر گیا۔ میری گاڑی بھی درمیان میں ایک جگہ پھنس گئی۔ میرے دائیں بائیں، آگے پیچھے سینکڑوں گاڑیاں تھیں، سڑک کے بائیں طرف موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کا جم گھٹا سا تھا۔
گاڑی کھڑی کرتے ہی میں نے سامنے سے کنگھا اٹھایا اور اوپر لگے شیشے میں دیکھتے ہوئے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔ پھر میں نے اپنے دائیں بائیں موجود گاڑیوں کو دیکھا اور ان کے مکینوں کا سرسری جائزہ لے کر سرخ بتی پر نظریں گاڑ دیں تاکہ اس کا رنگ بدلتے ہی میں بھی گیئر تبدیل کردوں۔
اچانک میری گاڑی کے دائیں طرف والے دروازے کا شیشہ کسی نے کھٹکھٹایا، میں نے نظریں گھما کر دیکھا، گندے اور بے ترتیب بال، میلے چہرے اور اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں والا پھٹے پرانے چیتھڑوں میں ملبوس نوجوان بیساکھیوں پر ٹکا ہاتھ بڑھا کر مجھ سے بھیک مانگ رہا تھا۔ میں نے عینک کے پیچھے سے اس کے چہرے کا بہ غور معائنہ کیا، تو مجھے وہاں برسوں کی محرومیوں کی ایک جھلک دکھائی دی۔ چہرے سے پھسلتے ہوئے میری نظریں اس کے جسم کے نچلے حصوں تک پہنچیں۔ چہرے کے مقابلے میں اس کا جسم صحت مند اور اس قابل تھا کہ کوئی کام کرسکے۔ یعنی وہ محنت مزدوری کرنے کے قابل تھا۔
’’جناب! چند ماہ پہلے میری ایک ٹانگ حادثے میں ضائع ہوگئی۔ پہلے میں ایک کاریگر تھا لیکن اب ٹانگ ضائع ہوجانے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں، مجبور ہوکر ہاتھ پھیلا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی اور ایسا لگتا تھا جیسے ابھی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گا۔
میں نے اس کی بیساکھیوں پر نظریں دوڑائیں اور پھر اس کی آدھی ٹانگ تلاش کرنے لگا۔ مجھے شک میں مبتلا دیکھ کر اس نے خود ہی اپنی نصف ٹانگ آگے بڑھا دی۔ میں نے اس کی لٹکتی ہوئی پینٹ دیکھ کر جھرجھری لی اور کچھ سوچے بغیر جب میں ہاتھ ڈال کر دو روپے کا سکہ شیشہ نیچے کر کے فقیر کی طرف اچھال دیا۔ عقبی آئینے سے دیکھا کہ فقیر نے نہایت چستی سے سکہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی پکڑ لیا۔اب مجھے بیک وقت تعجب اور افسوس ہوا۔
تعجب اس بات پر کہ وہ ایک ٹانگ نہ ہونے کے باوجود اتنا صحت مند ہے کہ کوئی چھوٹا موٹا ہلکا پھلکا کام کر سکے اور افسوس اس بات پر ہوا کہ میں نے بھیک دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسے دو روپے دے کر یہ سمجھا یا ہے کہ کام کرنے یا محنت مزوری کر کے کمانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ بھیک مانگ کر بھی گزر اوقات ہوسکتی ہے۔ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر پیسے اکٹھے کرنے کا کام مزدوری کی نسبت کہیں آسان اور زیادہ آمدنی والا ہے۔ ویسے بھی لوگوں کے نزدیک اب ایک دو روپے کے سکوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ گر جائیں تو کوئی پروا نہیں، خیرات میں دے دیے تو کوئی غم نہیں۔ آخر ان سکوں سے کوئی اپنی جیب کیوں وزنی کرے؟
میں نے کسی نامعلوم احساس جرم کے تحت جونہی اپنا سر نشست کی پشت پر ٹکایا یکلخت مجھے اپنا دوست ساجد یاد آگیا۔ وہ اگر آج میرے ساتھ ہوتا، تو نہ میرے دو روپے ضائع ہوتے اور نہ ہی مجھے اس گداگر کی حوصلہ افزائی کر کے کسی قسم کے احساس جرم میں مبتلا ہونا پڑتا۔اسے سڑکوں، بازاروں ار چوراہوں پر کھڑے اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آٹھ آٹھ آنسو بہانے اور چہرے پر معصومیت کے خول چڑھائے ہوئے بھکاریوں سے سخت نفرت تھی۔
اس کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ محض کام کاج سے جی چرا کر ایسا کرتے ہیں یا پھر ان کے باقاعدہ گروہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ یہ اپنے کسی آدمی کی ٹانگ یا بازو کاٹ کر اسے بھیک مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو بازو اور ٹآنگیں ان کی مدد اور ان کا پیٹ نہیں بھر سکتیں، ان کا کیا فائدہ؟ ان کے نہ ہونے سے نہ صرف پیٹ بھرے گا بلکہ اور بہت کچھ ملے گا۔ لوگوں کا جذبہ رحم ابھارنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ کار نہیں ہوسکتا… شاید اس کا کہنا ٹھیک ہی تھا۔
٭٭
ایک شام میں ساجد کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا، چوک میں اشارہ بند ہونے پر ہم رکے، تو ایک ادھیڑ عمر عورت ہمارے پاس آپہنچی اور اپنا دایاں بازو دکھانے لگی، جس کا بالائی حصہ بہت زیادہ سوجا ہوا تھا۔ ویسے وہ عورت ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے جونہی بھیک مانگنے کے لیے اپنا جملہ مکمل کیا، ساجد نے پہلے تو اس عورت کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور پھر نہایت سخت لہجے میں بولا ’’تمہارا صرف بازو سوجا ہوا ہے، باقی ہر لحاظ سے تم ٹھیک ہو پھر کیوں بھیک مانگ رہی ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ اپنی عمر دیکھی ہے، اس عمر میں تو مرد عورتیں اللہ اللہ کرتے ہیں۔‘‘
ساجد کا رویہ دیکھ کر عورت پہلے تو سہم گئی پھر نہایت مسکین انداز میں کہنے لگی: ’’بیٹے! مجبوری ہے تب ہی بھیک مانگ رہی ہوں۔ میرا کوئی کمانے والا نہیں وگرنہ یوں خوار ہوتی۔ گھر میں بیٹھ کر زندگی گزارتی اور اللہ اللہ کرتی۔
عورت کی آنکھوں میں نمی سی اتر آئی۔ مجھے اس کی بات سن کر سخت ٹھیس پہنچی۔ میں نے پیسے نکلانے کے لے جونہی اپنا ہاتھ بڑھایا، ساجد نے اسے پکڑ لیا اور کہنے لگا: ’’یار! تم کیوں اپنے پیسے ضائع کرتے ہو۔ اگر اسی طرح ان لوگوں پر رحم کرتے رہے، تو معاشرے میں یہ بیماری وبا بن کر پھیل جائے گی اور تم کنگال ہوکر رہ جاؤگے۔
’’لیکن ایک روپیہ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بات ایک روپے کی نہیں۔ ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ اس کے ایک روپیہ دینے سے نہ ہی وہ غریب ہوگا اور نہ ہی یہ بھکاری امیر ہوجائیں گے۔ تم خود سوچو، اگر ہر فرد یہ سوچنے لگے تو تم اندازہ لگاؤ کہ آتے جاتے ان بھکاریوں کو ایک ایک روپیہ دیے جانے سے شام تک کتنے روپے بن جاتے ہیں۔ یہ تمہارے اکیلے کا حساب ہے، تم جیسے دوسرے سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ بھی ایسا کریں، تو بات کہاں سے کہاں جاپہنچتی ہے۔ ہر فرد صرف ایک روپیہ دیتا ہے لیکن شام تک ان بھکاریوں کے پاس سینکڑوں روپے جمع ہوتے ہیں۔ جب انہیں بیٹھے بٹھائے اتنے روپے مل جائیں تو انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ کام کریں؟ ہماری اسی سوچ اور جذبہ رحم کے باعث دن بدن چوراہوں، شاہراہوں اور بازاروں میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یہ کام منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔‘‘
’’لیکن یار، آخر کوئی بے چارہ مجبور بھی تو ہوتا ہے؟‘‘
’’شاید تم نے اس کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر پھیلی مایوسی او رمحرومی دیکھ کر سمجھ لیا کہ یہ مجبور ہے؟ یہ تو مجبوری اور معذوری کا مصنوعی لبادہ ہے، جسے وہ صبح سے شام تک اوڑھے رکھتے اور پھر شام ہوتے ہی اسے اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ انہیں اگر اپنی اصلی زندگی میں دیکھ لیا جائے تو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو دن بھر بھیک مانگتے رہتے ہیں۔‘‘
اشارہ کھل چکا تھا اس لیے اب ساجد سے بحث بیکار تھی۔ ہماری باتوں کے دوران ہی وہ عورت کسی اور کی طرف متوجہ ہوگئی۔ میں نے ایک نظر اس عورت پر ڈالی اور پھر موٹرسائیکل آگے بڑھا دی۔ میں راستے بھر یہی سوچتا رہا کہ ہوسکتا ہے، عورت واقعی مجبور ہو اور ساجد نے مجھے اس کی مدد کرنے سے روک کر اسے نہ جانے کس قدر ٹھیس پہنچائی ہوگی۔
ایک روز ہم دونوں بازار گئے۔ گزرتے ہوئے میری نظر ایک اپاہج پر پڑی، جس کی دونوںٹانگیں غائب تھیں اور وہ کود کو ریڑھی پر لادے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے گھسیٹ رہا تھا۔
’’کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے ساجد کی توجہ اس اپاہج کی طرف مبذول کرواتے ہوئے پوچھا:
’’کیا مطلب؟‘‘
’’شاید اس بیچارے نے بھی پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے اپنی دونوں ٹانگیں کٹوا دیں۔‘‘
’’یقینا… ممکن ہے اس کی ٹانگوں اور بازوؤں نے اس کی بھوک مٹانے میں کوئی مدد نہ کی ہو۔ دن رات کے کئی فاقوں کے بعد اس نے یہی سوچا ہوگا کہ لوگ رحم دل ہیں یا پھر ایک روپے کا سکہ دیتے ہوئے اب انہیں افسوس نہیں ہوتا لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ان ٹانگوں کو کٹوادیا جائے… زیادہ سے زیادہ چلنے پھرنے سے معذور ہوجاؤں گا لیکن پیٹ کا جہنم تو بھرے گا۔‘‘
’’ایک بات تو بتاؤ؟‘‘
’’پوچھو‘‘
’’کیا تم کوئی جاسوس ہو جسے سب پتا ہوتا ہے کہ فلاں بھکاری نے بازو کیوں کٹوایا اور فلاں نے ٹانگ کیوں کٹوائی؟‘‘
’’نہیں… جاسوس تو نہیں لیکن باخبر ضرور ہوں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مجبور لوگ چوراہوں اور بازاروں میں کھڑے ہوکر بھیک نہیں مانگتے۔ یہ جگہیں تو صرف پیشہ ور گداگروں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔
’’بھئی بھوک انتہائی طالم شے ہے۔ اگر کوئی اس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے جسم کا کوئی حصہ ضائع کردے اور پھر شاہراہوں اور بازاروں میں ایک روپے کا سوال کرے، تو اس میںحرج ہی کیا ہے؟‘‘
’’بات بھوک کی نہیں، اصول اور ضابطے کی ہے۔ بھوک اس قدر ظالم شے نہیں کہ خود کو معذور کرلیا جائے۔ دراصل یہ لوگ باقاعدہ گروہ بنا کر ایسا کام کرتے ہیں حالاں کہ اگر یہ چاہیں تومحنت مزدوری سے اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں مگر کہاں دن بھر کی شدید محنت و مشقت کے بعد صرف سو روپے اور کہاں صرف بولنے سے پانچ چھ سو روپے بعض اوقات یا اکثر اوقات اس سے بھی کہیںزیادہ … پھر بھلا خود کو محنت و مشقت کے جھنجھٹ میں پھنسانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’تمہاری بات تو ٹھیک ہے لیکن جس طرح سارے لوگ رحمدل نہیں ہوتے اسی طرح سارے بھکاری بھی پیشہ ور نہیں ہوتے۔‘‘
’’مجھے تمہاری بات سے اتفاق ہے لیکن غیر پیشہ ور بھکاری بلکہ واقعتا مجبو رلوگ یوں سر بازار یا سر عام دست سوال دراوز نہیں کرتے۔ عموماً وہ جس محلے یا شہر میں رہ رہے ہوں، وہاں کے لوگ ان کی مدد کر کے انہیں ایسا کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اب اپنے ہی محلے کو دیکھ لو… کیا آج تک محلے کے کسی معذور یا مجبور شخص کو یوں کسی چوراہے یا بازار میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘
’’میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ہماری محلے کا کوئی بھی معذور یا مجبور شخص کسی چوراہے یا بازار میں بھیک مانگتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ آہستہ آہستہ میں ساجد کی باتوں کا قائل ہوتا چلا گیا۔ واقعی حقیقی مجبور یا معذور شخص کبھی دست سوال دراز کر کے اپنی انا کو ٹھیس نہیں پہنچاتا… لیکن جن لوگوں کی انا ہی نہ ہو… میں اس سوال میں الجھ کر رہ گیا۔
یہ پندرہ سال پرانی بات ہے۔ ساجد میرا لنگوٹیا یار پھر دوسرے شہر میں تبادلہ ہونے کے باعث اپنی بوڑھی ماں اور بیوی کو لے رک چلا گیا۔ چند ماہ تک میرا اس سے رابطہ رہا لیکن پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور ایسا ٹوٹا کہ پھر آہستہ آہستہ میں ساجد کو بھول گیا اور شاید اس نے بھی مجھے بھلا دیا۔ یہ اس دنیا کا اصول ہے۔ جانے والے کو خواہ وہ کتنا ہی عزیز ہو، کچھ عرصے یاد رکھ کر بھلا دیا جاتا ہے۔ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو شاید اس گلی، اس محلے، اس شہر یا اس دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسی سے یہ سارا نظام قائم ہے لیکن اس کے چلے جانے کے بعد بھی نظام اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ جانے والے کی جگہ کوئی اور آجاتا ہے پھر چکر یونہی چلتا رہتا ہے اور ازل سے ابد تک چلتا رہے گا۔
٭٭
’’کھٹ کھٹ … کھٹ۔‘‘ کسی نے میری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ میں ابھی ابھی ایک دکان سے کچھ خریداری کر کے نکلا تھا اور گاڑی چلا کر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ مجھے آواز سنائی دی۔ میں نے اپنی سیاہ عینک کے پیچھے سے نظریںاٹھا کر دیکھا، تو ایک سات آٹھ سالہ بچہ نظر آیا، جس کا چہرہ شاید دھوپ کی تمازت سے سیاہ ہوگیا تھا۔ وہ پرانی قمیص پہنے ہوئے تھا۔ کھلے گریبان میں سے اس کے کمزور سینے کی ہڈیاں واضح طو رپر دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے بائیں کندھے پر کسی مرد کا ہاتھ تھا جب کہ بجے کا داہنا ہاتھ میری طرف بڑھا ہوا تھا۔ میں نے شیشہ کھولا اور جیب میں سے دو روپے کا سکہ نکالنے سے پہلے اس کے ساتھ کھڑے آدمی کو دیکھا۔ اسے دیکھتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر اٹھی، جس نے میرے پورے وجود کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔
میری نظریں بدستور اس کے سیاہ چشمے اور چہرے پر ٹکی رہ گئیں اور میں پلکیں تک جھپکانا بھول گیا… مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں بھی اندھا ہوں اور میں نے بھی ایک سیاہ چشمہ پہن رکھا ہے یا پھر میںنے اندھا ہوجانے کی خواہش کم از کم اس وقت ضرور کی۔ کئی لمحے اس کیفیت میں گزر گئے۔ بچہ حیرت سے مجھے تک رہا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ میں مٹی کا مادھو کیوں بن گیا، وہ تو اسی کوشش میں تھا کہ میں اسے ایک یا دو روپے کا سکہ دوں اور پھر وہ کسی او رسے بھیک مانگ سکے۔
یکلخت مجھے محسوس ہوا جیسے ساتھ والی نشست پر ساجد بیٹھا ہے۔ اگر مین نے بچے کو دو روپے کا سکہ دیا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر سختی سے منع کرتے ہوئے کہے گا ’’تم اپنے دو روپے کیوں ضائع کرتے ہو۔ آنکھوں پر سیاہ عینک لگانے سے کوئی اندھا نہیں بن جاتا، ممکن ہے یہ شخص اندھا نہ ہو صرف بننے کی کوشش کر رہا ہو تاکہ اس کی بے بسی اور لاچاری دیکھ کر لوگ اسے بھیک دیں۔‘‘
میں نے گردن گھما کر دیکھا، ساجد وہاں نہیں تھا، خالی نشست میرا منہ چڑا رہی تھی۔ اچانک میں نے ایک فیصلہ کیا، تیزی سے کار کا دروازہ کھولا اور اس سے پہلے کہ وہ آدمی سنبھلتا میں نے پھرتی سے بڑھ کر اس کے چہرے سے سیاہ چشمہ اتار لیا۔ میرے سامنے چمکتی آنکھوں والا ساجد کھڑا تھا۔lll