نبی اکرمؐ فرماتے ہیں:’’ تم میں سے ہر شخص نگہبان اور رکھوالا ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا اور ماتحت افراد کے متعلق سوال ہوگا۔ہر آدمی اپنے اہل و عیال کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘(بخاری و مسلم )
خاندان کے سربراہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اہل و عیال کی ایسی تربیت کرے کہ وہ اللہ کو جاننے، پہچاننے اور اس کے احکامات کی تعمیل کرنے والے بنیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ اے ایمان والوں اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ‘‘۔
آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہر بچہ فطرت اسلامیہ پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔ ( بخاری)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ والدین جیسی اس کی تربیت کریں گے بچہ ویسا ہی ہوگاکیونکہ اس کی حیثیت خالی سلیٹ کی سی ہے اس پر جو لکھا جائے گا وہی ثبت ہوگا۔ اب والدین چاہیں تو اس کی صالح فطرت کو پروان چڑھائیں یا اس کی صالحیت کو مسخ کردیں۔
تربیت کے لئے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کرنا لاحاصل ہے بلکہ جس دن وہ آپ کی گود میں آیا تربیت کا کام شروع ہو جاتا ہے۔اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ جو سائنس اور رسول پاک دونوں سے ملتی ہے کہ بچہ کی اخلاق سازی کا عمل ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان دنوں اچھا سوچنا، اچھا کرنا، اللہ سے قرب کے اعمال اختیار کرنا اور تلاوت قرآن کی کثرت کی تاکید کی گئی ہے۔
ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیںکہ بچہ سات آٹھ سال کی عمر میںایک مکمل شخصیت بن جاتا ہے۔ اس لیے اس کی زبدگی کے یہ ایام تربیتی نقطہ نظر سے بہت اہم ہوتے ہیں۔ سات آٹھ سال کے بعد اس کی شخصیت مستحکم ہوجاتی ہے اور اب اس کو ذمہ دار اور جواب دہ بنانے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس سال کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اسے مارواور ان کے بستر کر الگ کر دو۔‘‘
اخلاقی تربیت کے اعتبار سے یہ لازم ہے کہ والدین اولاد کے اندر اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور دین سے محبت اور اس پر عمل کا بیج بوئیں، عادات و اطوار اور ان کی مصروفیات کی نگرانی کریں، انہیں قرآن کی تعلیم دیں، اچھا لٹریچر مہیا کریں، برے لوگوں اور برے کاموں سے متنبہ کریں، سچائی، امانت، استقامت، ایثار، لوگوں کی مدد، بڑوں کا احترام،مہمانوں کی عزت اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے جیسے دیگر معروف اعمال کی ترغیب دیں۔ گالی گلوچ، غیبت، چغلی، جھگڑا اور گندے کلمات کی ادائیگی سے باز رکھیں۔ان کے اندر انسانی احساسات کا شعور بیدار کریںمثلاً کوئی تکلیف میں ہو تو اس کی تکلیف دور کی جائے، ہمدردی کا سلوک کیا جائے، اپنی خواہشات کو دوسروں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے پس پشت ڈالا جائے۔
اخلاقی تربیت کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ والدین کو اس کے دوستوں اور حلقہء احباب کا علم ہو۔ کیونکہ بری صحبت بچے کو بربادی کے دہانے پے پہنچا سکتی ہے۔اچھی اور بری صحبت کی مثال عطر فروش اور لوہار کی بھٹی کی سی ہے۔ عطر فروش کے پاس بیٹھنے سے یا تو تو اس سے عطر خرید لے گا یا اس کی خوشبو سے اپنے کپڑوں، دماغ کو معطر کر لے گا۔ اور لوہار کی بھٹی کے پاس بیٹھنے سے کم از کم اتنا نقصان تو لازماً ہوگا کہ بھٹی کی چنگاری کپڑوں کو جگہ جگہ سےجلادے گی۔
بری صحبت میں آج کے دور میں غلط کارٹون، فلمیں، ڈرامے، فحش لٹریچر وغیرہ بھی شامل ہیں۔بچوں کے اسکول جانے اور آنے کے اوقات کی نگرانی کی جائے تاکہ بچہ کسی غلط جگہ وقت نہ گزارنے پائے۔
بچوں کے اندر شرم و حیا کے جذبات پروان چڑھائے جائیں۔ انہیں اس بات کی تعلیم دی جائے کہ ان کے جسم کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے اور اسے مناسب لباس سے چھپا کر دوسروں کی نگاہوں اور لمس سے محفوظ رکھنا ان پر لازم ہے۔ انہیں ستر والے اعضاء کی حفاظت کی تعلیم دی جائے ساتھ ہی پردہ، مخالف صنف سے دوری، مناسب لباس کے پہننے اور محرم اور غیر محرم وغیرہ کے بارے میں ان کی عمر کے لحاظ سے مناسب لفظوں میں بتایا جائے۔
اولاد کی تعلیم
اسلام میں علم کی بڑی قدر و منزلت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ـ’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘۔ لیکن آج مسلمانوں میں تعلیم کے تیئں سستی اور لاپرواہی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ یو ں تو زیادہ تر معاملات میں ہم اسلامی تعلیمات کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہے ان ہی میں سے ایک تعلیم کا مسئلہ بھی ہے۔ہم نے تعلیم کو دو خانوں میں بانٹ رکھا ہے ، دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم۔ اب جو دینی تعلیم حاصل کرتا ہے وہ دنیاوی علوم میں دلچسپی نہیں لیتا اور جو دنیاوی تعلیم حاصل کرتا ہے وہ دینی معلومات سے دور رہتا ہے۔ حالانکہ علم یا تو نفع بخش ہوگا یا غیر نفع بخش۔کوئی بھی علم اگر وہ فائدہ مند ہے تو وہ دینی علم ہے۔ ہمارے اسلاف نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے تمام سائنسی، معاشی، طب، فلسفہ، یہاں تک کہ علم نجوم پر بھی عبور حاصل کرکے۔ دینی و دنیاوی علم کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔اس لئے والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہتر تعلیم کی فکر کریں ۔انہیں ایسی تعلیم سے ہمکنار کریں کہ ضروریات زندگی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ وہ قوم و ملت کی خدمت کر سکیں۔ضروری ہے کہ انہیں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دور جدید کے علوم و فنون کی تعلیم دی جائے تاکہ سائنس و ٹکنالوجی میں ہمارے اسلاف نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے وہ اس وراثت کو آگے بڑھانے والے بن سکیں۔
فکری تربیت کا اہتمام
دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی فکری تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ ان کی فکر کو اسلام کے تابع بنایا جائے۔ اسلامی افکار و خیالات کی برتری، اپنی تاریخ و تہذیب، انبیاء و صلحاء کے اخلاق و کرداراور نبی اکرمﷺ کی سیرت سے انہیں آگاہ کیا جائے تاکہ ان کے فکر و خیالات میں اسلام کی عظمت و رفعت چسپاں ہو جائے ۔
نفسیاتی تربیت
بچوں کو جرأت ، بے باکی، شجاعت اور بہادری کی تعلیم دی جائے۔ ان کو خوف و دہشت، احساس کمتری، حسد و بغض اور غصے کی بیماری سے محفوظ رکھا جائے۔ان کے اعتماد کو پروان چڑھایا جائے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔ انہیں خود کے اور دوسروں کے تحفظ کے لئے جسمانی ٹریننگ دی جائے ساتھ ہی موجودہ حالات کے مطابق فنی و حربی تربیت کی جائے۔
تعلیم و تربیت کےرہنما اصول
نئی نسل کی تربیت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے مندرجہ ذیل اصولوں کو مد نظر رکھا جاناضروری ہے :
۱۔ بچوں کی تربیت کا پہلا اور سب سے اہم اصول یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کو جن اخلاق و کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں وہ خود ان خوبیوں کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں۔ان کی تربیت محض زبانی نہ ہو بلکہ ان کا عمل خود بچوں کے لئے نمونہ ہو۔اولاد کی تربیت کا مطلب یہ ہے کہ والدین خود اپنی تربیت کریں ۔اسماعیل علیہ السلام جیسی اولاد چاہیے تو ابراہیم علیہ السلام کی خصلت پیدا کرنی ہو گی۔
۲۔ دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ بچوں کے لئے گھر میںایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں، دین سے محبت ہو، بڑوں کا احترام ہو، چھوٹوں پر شفقت ہو،علم و حکمت کی باتیں ہوں اور منفی اعمال اور روےے نہ ہوں۔ ایک سائیکالوجسٹ کے مطابق جس دن آپ کے گھر میں ایک ننھا فرد آ جائے ، آپ سمجھ لیجئے کہ چوبیس گھنٹے آپ سی سی ٹی وی کیمرہ کی نگرانی میں ہیں۔ آپ کا ہر عمل اور آس پاس کا ماحول اس کے دماغ میں ریکارڈ ہو رہا ہے۔ یہ عمل سات سال تک چلتا ہے۔ اب آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنے بچوں کے معصوم ذہن و دماغ میں کیا ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ آپ کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو۔ قرآن کہتا ہے ’’ تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘۔ اگر آپ بچوں سے نماز کے لئے کہتے ہیں تو آپ کو خود پنج وقتہ نمازی ہونا پڑے گا محض کہنے سے بچے پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آپ انہیں سچ بولنا سکھاتے ہیں لیکن خود ان کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں بچہ کبھی بھی سچ بولنے والا نہیں بن پائے گا۔
۴۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ محبت ، شفقت ، اخلاص اور ہمدردی سے تربیت کی جائے۔ تربیت میں ہمیشہ محبت ، دلجوئی اور دردمندی کا جذبہ پنہاں ہونا چاہیے تبھی وہ بچوں پر اثر انداز ہوگا اگر ہر وقت سختی اور زبردستی کا معاملہ کیا جائے تو بچے کے اندر بغاوت اور نافرمانی کا جذبہ ابھرنے لگتا ہے۔حضرت لقمان ؒکی نصیحت کو پڑھا جائے تو ان کے ایک ایک لفظ میں درد مندی اور شفقت چھلکتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ساتھ ہی والدین کے اندر صبر و ضبط اور تحمل کا جذبہ ہونا چاہیے کیونکہ تربیت کا یہ عمل کچھ دنوں یا کچھ سالوں کا نہیں ہے بلکہ سالہا سال کی انتھک محنت مانگتا ہے۔
۵۔ جس بھی کام کی انہیں تلقین کریں اس کی حکمت بھی بتائیں۔ مثلا نماز کیوں پڑھنی ہے؟ جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنا کیوں ضروری ہے؟ جھوٹ بولنے کے کیا نقصان ہیں؟پڑھنے لکھنے کے کیا فائدے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ تاکہ بچہ سمجھ کر ان کاموں کو انجام دیں۔
۶۔ ان کے اندر حرام و حلال کا شعور پیدا کیا جائے۔یعنی انہیں ایک خدا کے وجود کا احساس دلایا جائے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ ہماری کامیابی و ناکامی کا انحصاراللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنا ہے۔
۷۔ انہیں عبادات کی طرف راغب کیا جائے۔ نماز، روزہ، صدقہ و خیرات وغیرہ۔عبادات کی اہمیت کے بارے میں ان کی فہم و سمجھ کے مطابق بتایا جائے۔
۸۔ اگر بچے سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو نرمی و پیار سے اس پر تنبیہ کی جائے ۔ مضبوط دلائل سے انہیں سمجھائیں کہ یہ غلطی کیسے ان کے لئے نقصان دہ ہے۔ بیجا سختی سے پر ہیز کیا جائے۔
۹۔ اپنے بچوں کو کبھی بھی دوسرے بچوں سے کمپیئر نہ کیا جائے۔ اس سے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہوتی ہے۔ ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو سراہا جائے۔ ہر بچہ خاص اور کسی نہ کسی غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ مربی کا کام اسے پہچاننا اور ترقی دینا ہے۔
۱۰۔ اپنے بچوں کی اس طرح پرورش کریں کہ وہ آپ پر مکمل اعتماد کرے۔ اگر اس سے کوئی غلطی یا گناہ بھی سرزد ہو جائے تو وہ آپ کے پاس اس کے حل کے لئے آئے۔ اسے کسی بات کا خوف نہ ہو بلکہ اسے یقین ہو کہ صحیح جگہ سے رہنمائی ملے گی۔
۱۱۔ اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جائے۔
۱۲۔ بچوں کی معاشرتی و اجتماعی تربیت بھی کی جائے تاکہ اسے معاشرے میں رہنے کے اصول و ضوابط اور آداب معلوم ہوں اور وہ اجتماعی زندگی کی اہمیت سے واقف ہوں۔
اولاد اللہ کی سب سے عظیم نعمت ہے اس کے سامنے دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے ۔ اب یہ نعمت عظیم ہے تو اس نعمت کا حق ادا کرنا اور ان کی تعلیم و تربیت کرنا بھی ایک عظیم ذمہ داری اور رات و دن کی انتھک محنت ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذریعے والدین دین و دنیا کا سکون بھی حاصل کر سکتے ہیں اور ان کی اچھی تربیت نہ کرنے کی وجہ سے دین و دنیا میں پچھتاواور رسوائی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے۔
آخری چیز دعا ہے۔ ہمیں ہر وقت اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے نیکی اور خیر کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہمیں یہ کتنی پیاری دعا سکھائی ہے:
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۷۴ (الفرقان)