درمیانی بچپن اور بچوں کی تربیت(پیرینٹنگ سیریز-6)

ڈاکٹر نازنین سعادت

گزشتہ ماہ ہم نے فاونڈیشن ایج کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اس عمر کے بچوں کی تربیت سے متعلق کچھ اصول بیان کیے تھے۔ عمر کا اگلا مرحلہ درمیانی بچپن Middle Childhood کہلاتا ہے۔ یہ چھ سات سال کی عمر سے نو دس سال کی عمر کے دورانیے کا نام ہے۔ اس کے بعد کی عمر، نوعمریadolescence یا پری ٹین Preteen یا ٹوین ایج tween age کہلاتی ہے۔

بچوں کی شخصیت سازی میں درمیانی بچپن کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اس عمر میں بچوں کی ذہنی صلاحیت تیزی سے بڑھنے لگتی ہے۔ ہر روز وہ بہت سی نئی باتیں سیکھتے ہیں ۔ ماں باپ پر انحصار کم کرنے لگتے ہیں اور آزادانہ سوچنے اور اپنی آزاد مرضی ، خیالات اور مزاج ڈیولپ کرنے لگتے ہیں۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے اور خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ گھر کے محدود ماحول سے نکل کر دنیا اور سماج کے بارے میں ان کا شعور پختہ ہونا شروع ہوتا ہے۔ گھر کے باہر اسکول میں اور سماج میں ان کی دوستیاں مستحکم ہونے لگتی ہیں۔ دوستوں سے تعلق بڑھنے لگتا ہے۔ اپنے خیالات اور احساسات کے اظہار پر قدرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ زیادہ بات کرنے اور طرح طرح کے موضوعات پر گفتگو کرنے میں انہیں مزہ آتا ہے۔ دوسروں کے جذبات اور ان کی ضرورتوں کے بارے میں حساسیت پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ مجھےچاہیں یا پسند کریں ،یہ خواہش پیدا ہونے لگتی ہے۔ تربیت کے عمل میں ، ان ساری خصوصیات کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر ان خصوصیات کو مثبت رخ دیا جائے تو یہ ایک کامیاب شخصیت کی اٹھان میں انتہائی مددگار ہوتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کن باتوں پر توجہ دی جائے؟ اس کے جواب میں بہت سی باتیں کہی جاسکتی ہیں لیکن ہمارےمعاشرے کے احوال کو سامنے رکھ کر درج ذیل تین باتیں ہمارے خیال میں نہایت اہم ہیں۔ اگر ان باتوں پر توجہ دی جائے تو اس عمر کی خصوصیات کو مثبت رخ دینے میں اور ایک اچھی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

سیلف اسٹیم اور خود اعتمادی

گزشتہ ماہ ہم نے عزت نفس self-respectپر بات کی تھی۔ اسی سے مماثل صفات خود توقیریSelf Esteem اور خود اعتمادیSelf Confidence ہے۔ عزت نفس ، اپنے آپ کی عزت کرنے کا نام ہے سیلف اسٹیم ، اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو جاننا اور سمجھنا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے یعنی آدمی کے اندر یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ وہ بڑے اور مشکل کام سر انجام دے سکتا ہے اور مسائل پر خود اپنے بل بر قابو پاسکتا ہے۔

ان صفات کی افزائش کے لیے عمر کے اس مرحلے کی بڑی اہمیت ہے۔ اس عمر کے تجربات آدمی کے سیلف اسٹیم اور اور خود اعتمادی پر زندگی بھر کے لیے اثر انداز ہوتے ہیں۔سیلف اسٹیم کی افزائش میں بچپن کے تجربات اور اس دور میں پیدا ہونے والے احساسات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مثلاً اس کے لیے حفاظت و سلامتی کا احساس ضروری ہے۔ یعنی بچے کے اندر یہ یقین ہو کہ وہ محفوظ ہے اور اس کا مستقبل محفوظ ہے۔ بہت سے ماں باپ طرح طرح کی چیزوں سے بچوں کو ڈراتے ہیں۔ ناکامیوں کا حد سے زیادہ خوف پیدا کرتے ہیں۔ اندیشے اور خوف ، سیلف اسٹیم اور خود اعتمادی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ایمان کا لازمی تقاضہ توکل کی صفت ہے۔ یعنی آدمی کوشش کرے اور اللہ سے اچھی امید رکھے۔ یہ صفت بہادری، حوصلہ مندی اور امید و یقین پیدا کرتی ہے۔ اس عمر میں ان کی افزائش پر توجہ دینی چاہیے۔

اسی طرح سیلف اسٹیم کے لیے اپنائیت کا احساس ضروری ہےیعنی یہ احساس کہ اس کے گھر میں ، دوستوں میں ، خاندان میں ،اسکول میں، محلے میں اور کمیونٹی میں لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس کے اپنے موجود ہیں۔ بچوں کو اس عمر میں بھرپور محبت ملے ، اس کی کوشش ہونی چاہیے۔

سیلف اسٹیم کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو اپنی خوبیوں کا علم و شعور ہو۔ بچے کو معلوم ہوکہ اس کے اندر کیا خوبیاں ہیں ؟ کیا صلاحیتیں ہیں؟ ماں باپ، بچوں کی اصلاح کے لیے بار بار ان کی کمزوریوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ تم سست ہو، کند ذہن ہو، ناکارہ ہو، کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔ ایسی باتوں سے سیلف اسٹیم بری طرح متاثر ہوتا ہے۔بچے کوصرف اس کی کمزوریاں نہ بتائی جائیں بلکہ خوبیاں بتائی جائیں اور ان کے حوالے سے اس کے اندر اعتماد پیدا کیا جائے۔ کسی کمزوری کی طرف بھی متوجہ کرنا ہو تو پہلے خوبیوں کا ذکر کیا جائے۔ عبد اللہ بن عمر ؓ کے بارے میں ان کی بہن ام المومنین حفصہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

نعم الرجل عبد الله لو كان يصلي بالليل”، قال سالم: فكان عبد الله لا ينام من الليل إلا قليلا.

’’عبداللہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کاش! رات میں وہ تہجد کی نماز پڑھا کرتا۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ اس کے بعد رات میں بہت کم سویا کرتے تھے۔‘‘یعنی رسول اللہ ﷺ ایک معاملے میں ان کی اصلاح فرمارہے ہیں تو پہلے ان کی خوبی کا ذکر فرمارہے ہیں۔

ماہرین ، سیلف اسٹیم کے لیے مقصدِ زندگی کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس عمر میں بچے خود اپنی زندگی کی معنویت اور مقصد تلاش کرنے لگتے ہیں۔ مقصد کا احساس ان کی زندگی اور کاوشوں کو سمت عطا کرتا ہے۔ انہیں آگے بڑھنے اور کچھ حاصل کرنے کا احساس ہوتا ہے ۔ سامنے کوئی مقصد نہ ہو تو اپنا وجود بے کار اور بے مصرف محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس سے بھی سیلف اسٹیم کم ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں بچوں کو بڑے لوگوں کے واقعات سنانا چاہیے۔ آس پاس کی کامیاب اور بامقصد شخصیتوں کے نمونوں کو سامنے لانا چاہیے۔ اور کچھ بننے اور کچھ کر گذرنے کا خواب دکھا نا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت عبد اللہ بن عباسؓ کی عمر محض 13 سال تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ اس عمر ہی میں آپ نے ان کے اندر ایک بڑا مفسر بننے کا مقصد پیدا کردیا تھا۔ دعا کی تھی کہ اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل (اے اللہ، اُسے دین کی گہری سمجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما) چنانچہ وہ بعد میں سب سے بڑے مفسر بن کر ابھرے۔حضرت زید بن ثابت ؓ کو عبرانی زبان اور دیگر زبانیں سیکھ کر دین کی خدمت کی طرف متوجہ کیا چنانچہ وہ آئندہ مختلف زبانوں کے ماہر بن کر ابھرے۔

مثبت ذہنی رویہ اورریزلینس

توکل کی جس صفت کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کی شخصیت سازی میں بڑی اہمیت ہے۔ ایک ہی واقعے اور صورت حال کو توکل کا حامل شخص اور اس سے محروم شخص الگ الگ نگاہ سے دیکھتے اور اس کے الگ الگ اثرات قبول کرتے ہیں۔ توکل اس چیز کا نام ہے کہ آدمی کی توجہ صرف اپنی کوشش پر ہو اور نتیجے کو وہ اللہ پر چھوڑے۔ جو مشکلات اور ناپسندیدہ باتیں، اس کے بس میں نہیں ہیں ،ان کے سلسلے میں اللہ کی مرضی پر راضی اور خوش رہے۔ کوشش کرتے ہوئے بہتر سے بہتر کی کوشش کرے اور جب نتیجہ آجائے تو اس کے اچھے پہلووں کو دیکھے اور اللہ کا شکر ادا کرے۔ اسے ہی مثبت ذہنی رویہ کہتے ہیں اور اسی سے ریزلینس پیدا ہوتا ہے۔

کسی مشکل یا صدمے سے ٹوٹ نہ جانا ، چیلنجوں ، مشکلات اور ناپسندیدہ واقعات کا حوصلے و ہمت سے سامنا کرنا اور بڑے صدموں کے بعدبونس بیک کرنا، شخصیت کی ان خصوصیات کو ریزِلینس کہتے ہیں۔ اس عمر کے بچوں میں اس صلاحیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگلے مرحلوں میں انہیں طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ امتحان میں ریزلٹ توقع کے خلاف آسکتا ہے۔ ٹیچر یا کسی طالب علم کی بدسلوکی یا اسکول میں بلی انگ bullyingکا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بعض بچوں کے لیے اسکول کی تبدیلی یا رہائشی مقام کی تبدیلی بھی ایک بڑا واقعہ ہوتی ہے۔ خود کی یا کسی دوست کی زندگی کا کوئی سانحہ بعض بچوں پر اثر ڈالتا ہے۔ ان سب امور میں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت ایک کامیاب شخصیت کی بنیادی صفت ہوتی ہے، اس عمر میں اس صفت کی افزائش بھی ضروری ہے۔اس حوالے سے درج ذیل مشورے کار آمد ہوسکتے ہیں۔

1- بچے کی مدد کیجیے، لیکن اسے چھوٹی سے چھوٹی مشکل سے اور مایوسی سے بچانے کی کوشش نہ کیجیے۔ اس کا کھلونا ٹوٹ گیا، افسردہ چہرہ دیکھ کر فوری نیا کھلونا دلادیا گیا، ہوم ورک میں کوئی غلطی نظر آتے ہی خود آگے بڑھ کر تصحیح کردی، یعنی والدین یہ کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو چھوٹے سے چھوٹا دکھ یا ناکامی بھی چھوکر نہ گذرے اور اس کی خاطر بچوں کے کام بھی وہ خود کرنے لگ جاتے ہیں لیکن وہ اس کوشش میں اپنے بچوں کی شخصیتوں کو کمزور بنادیتے ہیں۔ انہیں بعض چھوٹے دکھوں اور مایوسیوں سے گزرنے دیجیے۔ اسی کے نتیجے میں وہ بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت و حوصلہ پیدا کرسکیں گے۔

2- کوشش کی تعریف کیجیے، نتیجے کی نہیں۔ بچے کے اندر بھی یہی جذبہ پیدا ہو کہ اس کے اطمینان یا بے اطمینانی کا دارو مدار کوشش پر ہو۔ بغیر محنت و کاوش کے کوئی امتحان میں اول آجائے یہ زیادہ قابل تعریف نہیں ہے لیکن کوئی سخت محنت کرکے صرف پاس ہوجائے بلکہ فیل ہوجائے تب بھی یہ قابل تعریف ہے۔ دوڑ کے مقابلے سے آئے تو اس نے جو ٹرافی جیتی ہے اس کی تعریف سے پہلے اور اس سے زیادہ اُس کوشش اور محنت کی تعریف کیجیے جو اس نے اس مقصد کے لیے کی ہے۔ یہی توکل کی اسپرٹ ہے۔

3-بچے کے اندر اپنے مسائل کو خود حل کرنے کا جذبہ اور صلاحیت پیدا کیجیے۔خود کوشش کرکے اس کی کامیابی یا ناکامی کا مزہ چکھنے دیجیے۔ اسکول میں کسی بچےنے آپ کے بچے کے ساتھ کوئی شرارت کی ہے تو اسے سمجھایئے کہ آئندہ اس قسم کی شرارت سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟ بہت سے ماں باپ بچوں کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کا حل اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ گھر میں ان کا پین گم ہوگیا، یہ ڈھونڈ کر دے رہے ہیں۔ کسی سے لڑائی ہوگئی، خود جاکر معاملہ نمٹا رہے ہیں۔ ایسے بچے بھی بہت کمزور بن جاتے ہیں۔ سب سے پہلے بچے کو اپنے مسئلے کا خود ذمے دار بنایئے۔ اسے خود حل کرنے دیجیے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی رہنمائی کیجیے۔ اسے طریقے بتایئے اور نگرانی کیجیے۔ماں باپ کو خود اسی وقت شامل ہونا چاہیے جب مسئلہ بچے کے بس کے باہر ہو۔

4-بڑے صدموں اور مشکلات کے مواقع پر اچھی مثالیں سامنے لایئے۔ ان لوگوں کے واقعات سنایئے جنہیں اس طرح کی مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے اس کے باوجود کامیابیاں حاصل کیں۔ امتحان میں یا کسی ٹسٹ میں بچہ ناکام ہوگیا، بتایئے کہ تمہارے چچا بھی اسی طرح ناکام ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نےپھر کوشش کی اورکامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کو ذیا بطیس ہے۔ بتائیے کہ فلاں انکل کے بیٹے کو بھی کم عمری میں ذیابطیس ہوگئی تھی لیکن وہ اس کے ساتھ کامیاب زندگی گذاررہا ہے۔

احساس ذمے داری

احساس ذمے داری کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر جواب دہی کا احساس ہو، اپنے فرائض اور ذمے داریوں کا شعور ہو، وقت پر ان ذمے داریوں کو ادا کرنے کی فکر ہو۔ ایک ذمے دار شخص کو اس کے کاموں کے لیے یاد دلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی وہ خود پہل کرتا ہے۔ اپنے کاموں کے اچھے برے نتائج وہ پوری طرح قبول کرتا ہے اور دوسروں پر ان کا الزام نہیں دھرتا۔ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ جو کام اس کے ذمے ہے یا جووہ ہاتھ میں لے گا، اسے وہ ضرور مکمل کرے گا۔ ایک کامیاب شخصیت کے لیے احساس ذمہ داری کی خوبی لازمی ضرورت ہے اور اس خوبی کی افزائش کے لیے اہم ترین عمر یہی یعنی درمیانی بچپن کی عمر ہے۔اسلامی تعلیمات میں بتدریج ذمہ دارانہ رویہ پیدا کرنے کے لیے کئی ہدایات ملتی ہیں۔مثلاً سات سال کی عمر میں بچے کا بستر الگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذمے دارانہ رویے کی تشکیل میں اس کا نہایت اہم رول ہوتا ہے۔ ذمے داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے کچھ مشورے نیچے درج ہیں۔

1- ذمے داری اٹھانے کے مواقع فراہم کیجیے۔ گھر کے کام اس کا بہترین ذریعہ ہیں۔ بچپن سے گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کا ذمہ بچوں کو لگانا چاہیے۔ اس سے ان کے اندر احساس ذمے داری پیدا ہوتا ہے۔ آپ کے کہنے سے کوئی کام کرنا یہ ذمے داری کا کام نہیں ہے۔ ذمے داری کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کا مکمل ذمہ بچے کے سپرد رہے۔ اسے خود یاد رکھ کر اور بروقت پہل کرکے وہ کام شروع کرنا ہے اور وقت پر ختم کرنا ہے۔ مثلاً پودوں کو پانی دینے کا کام، صبح بستر سمیٹنے کا کام ، روزانہ صبح دودھ لانے کا کام ، چھوٹے بھائی کو ہوم ورک کرانے کا کام وغیرہ۔ ان کاموں کی نگرانی کیجیے۔ اپنی توقعات وضاحت سے بتادیجیے۔ بار بار ٹوکیے نہیں اور نہ بار بار توجہ دلایئےبلکہ ایسا ماحول پیدا کیجیے کہ وہ وقت پر آگے بڑھ کراپنی ذمے داری خود مکمل کریں۔عبد اللہ بن جعفرؓ ، آپ ﷺ کے بھتیجے تھے۔ ان کے والد (آپ ﷺ کے چچا زاد) جعفرؓ بن ابو طالب کی شہادت کے بعد آپﷺ نے انہیں اپنے گھر میں اپنی کفالت میں لے لیا تھا۔کم عمری ہی سےانہوں نے تجارت شروع کردی اور آپﷺ نے اس کی بھرپور ہمت افزائی کی۔ ایک دفعہ انہیں تجارت کرتے دیکھا تو دعا فرمائی: اللهم بارك له في بيعه أو قال في صفقته(اے اللہ، اس کی تجارت میں یا اس کی ڈیل میں برکت عطا فرما)

2- اعتماد کیجیے۔احساس ذمے داری اور لوگوں کے اعتماد میں گہرا تعلق ہے۔ اگر آدمی کو یہ محسوس ہو کہ لوگ مجھ پر فلاں کام کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں تو اسی کے نتیجے میں وہ ذمے دار بنتا ہے۔ بچوں کو بھی کوئی کام دینے کے بعد یہ یقین ہونا چاہیے کہ اس کام کے سلسلے میں ان پر اعتماد کیا گیا ہے۔ ان پر اعتماد کیا گیا ہے کہ وہ بازار سے اچھی چیز لائیں گے۔وہ اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھیں گےوغیرہ۔ حضرت انس بن مالکؓ کا مشہور واقعہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک راز کی بات انہیں بتائی اور حکم دیا کہ اسے راز رکھیں، اس کی بہت اچھی مثال ہے۔ ایک چھوٹا بچہ اگر یہ محسوس کرے کہ اتنی بڑی شخصیت نے اسے اپنا ہم راز بنایا ہے تو وہ خود بخود اپنے آپ کو نہایت ذمے دار انسان محسوس کرنے لگے گا اور اس ذمے داری کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

3- ناکامی کا مزہ چکھنے دیجیے۔ یعنی اگر بچہ وقت کے معاملے میں غیر ذمے دار ہے تو روزصبح یاد دلاکر اور پیچھے پڑ کر اسکول بھیجنے کے بجائے اسے تاخیر سے اسکول جانے دیجیے اور اس کی سزا بھگتنے دیجیے۔ بڑے معاملات میں یقینا ً آپ نقصا ن ہونے نہیں دیں گی یعنی اگر امتحان کا فارم بھرنے کی تاریخ گذررہی ہے تو آپ ضرور یاد دلائیں گی لیکن چھوٹے اور روز مرہ کے معاملات میں معمولی نقصان اسے اٹھانے دیجیے تاکہ اس سے سبق سیکھ کر وہ آئندہ زیادہ ذمے دار ہوسکے۔

4- ذمے داریاں تدریج سے بڑھایئے۔ بہت سے والدین یہ غلطی کرتے ہیں کہ لمبے عرصے تک غفلت کے شکار رہتے ہیں اور جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو انہیں اچانک احساس ہوتا ہے اور عجلت سے بڑی بڑی ذمے داریاں بچوں کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ بچوں کو ایسے کام دیں گی جو ان کے لیے عملاً دشوار ہیں تو اس سے ذمے داری کی بجائے غیر ذمہ دارانہ رویہ پروان چڑھتا ہے۔

5- ذمے دارانہ رویہ پروان چڑھانے میں سب سے اہم رول خود والدین کے ذمے دارانہ رویہ کا ہوتا ہے۔ وہ اگر اپنے کاموں کو وقت پر کرنے کے عادی نہ ہوں، وعدے کرتے رہیں اور انہیں نظر انداز کرتے رہیں، گھر کے اہم کاموں کو تعطل کا شکار بناتے رہیں تو بچے بھی یہی سیکھتے ہیں۔ عبد اللہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ وہ بچے تھے تو ایک دفعہ اپنی والدہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی والدہ نے انہیں بلاتے ہوئے کہا کہ سنو ، آؤ میں تمہیں کچھ دوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فوری سوال کیا، تم اسے کیا دوگی انہوں نے جواب دیا کہ کھجور دوں گی۔ آپ نے خبردار کیا کہ أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِيهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كَذِبَةٌ بچوں کے ساتھ ایسا ذمے دارانہ رویہ ہی ان کے اندر بھی ذمےد ارانہ رویہ پیدا کرتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146