اسلام عائلی زندگی کو بہتر اور مستحکم بنانے کے لئے ایسے اصول و ضوابط وضع کر تا ہے جس سے ایک مثا لی خا ندان و جود میں آسکے اور خا ندان کے ذریعے صالح معاشرے کی بنیاد پڑ سکے، اچھے اور صا لح خا ندان کے بغیر ایک صالح معاشرے کا وجود تو کیا تصور بھی ممکن نہیں ہو سکتا ۔
اسلام اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لئے جو حدود اور آداب متعین کر تا ہے اس پر عمل کی تر بیت کے لئے پہلا ادارہ گھر کو قرار دیتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں گھر ایسی اکائی ہے جہاں اجتماعیت کی پہلی اکائی خا ندان کی تنظیم ہو تی ہے جو آ گے چل کر معا شرہ کی صورت اختیار کر تی ہے اور اسی سے ریا ست وجود میں آ تی ہے ۔
چنا نچہ قرآن مجید نے اس گھر کی حقیقی حیثیت کو واضح کر نے کے لئے اس کو حصن قرار دیا اور نکاح کو احصان کا نام دیا۔ گویا یہ گھر انسانی معا شرے کی پہلی اکائی کا قلعہ ہے اور نکاح کے ذریعے سے اس کی قلعہ بندی کی جارہی ہے جس میں رہنے والے دوسرے انسا نوں کی طرح جنسی خواہشات رکھتے ہوئے بھی شرم و حیا اور عفت و پاک دامنی کے قلعے میں محصور رہ کر زندگی گزاریں گے اور دونوں ایک دوسرے کے واجبات و فرائض کا بھی بھرپور خیال رکھیں گے۔ چنانچہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زوجین کو ان کے حقوق و فرائض بتا دیے۔ شوہر کو بتا دیا کہ تمہارے فرائض اور ذمہ دا ریاں کیا ہیں اور بیوی کو بھی بتا دیا کہ تمہاری ذمہ دا ریاں اور حقوق کیاں ہیں جو ایک کے حقوق ہیں وہ دوسرے کی ذمے داریاں ہیں ارو جو دوسرے کی ذمے داریاں ہیں وہ پہلے کے حقوق ہیں۔ زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے کہ دونوں اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر تے رہیں اور دوسروں کے حقوق ادا کر نے کی فکر اپنے حقوق حاصل کر نے کی فکر سے زیادہ ہو ۔
نکاح کے مقاصد
(۱)اسلامی قانون ازدواج کا پہلا مقصد اخلاق کی حفاظت ہے۔ وہ زنا کو حرام قرار دیتا ہے اور نوع انسانی کی دونوں صنفوں کو مجبور کر تاہے کہ اپنے فطری تعلق کو ایک ایسے ضابطے کا پا بند بنا دیں جو سماج اور تمدن کو فحاشی اور اخلاقی فساد سے محفوظ رکھنے والا ہو۔ اسی لئے قرآن کریم میں نکاح کو لفظ احصان سے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ احصان کا مطلب ہے قلعہ بندی کر نا ۔یعنی جو مرد و خواتین نکاح کر لیتے ہیں وہ اس قلعے کی حفاظت میں آجاتے ہیں جو نکاح کی شکل میں انسانی نفس و اخلاق کی حفاظت کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں نکاح کا اولین مقصد اخلاق و عصمت کا تحفظ ہے ۔چنا نچہ ارشاد باری ہے۔
’’ پس تم ان کے گھر والوں کی اجازت سے ان سے نکاح کرو اور مناسب طور سے ان کے مہر ادا کرو تا کہ وہ محصنات بنیں ، نا کہ علانیہ یا چوری چھپے بد کاری کرنے والیاں۔ ‘‘ (النساء:۲۵)
مذکورہ آیت کے الفاظ و معانی پر غور و فکر کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ مرد و عورت کے ازدواجی تعلقات میں احصان یعنی اخلاق ، عفت و عصمت کا پورا پورا خیال رکھا جائے ۔
(۲)نکاح کا دوسرا اہم مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کی دونوں صنفوں کے درمیان ازدواج کا تعلق مودت و محبت کی بنیاد پر ہو تا کہ مناکحت سے تمدن و تہذیب کے جو مقاصد ہیں ان کو وہ اپنے اشتراک عمل سے بدرجہ اتم پورا کر سکیں اور ان کو اپنی ازدواجی زندگی میں راحت و سکون حاصل ہو سکے۔
قرآن کریم میں اس مقصد کو جس اسلوب سے بیان کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں زوجیت کا تصور ہی مودت و رحمت ہے اور زوجین بنائے ہی اس لئے گئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں ۔
ارشاد باری ہے:
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کئے ہیں تا کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی ہے۔ ‘‘ (الروم:۲۱)
دوسری جگہ ارشاد ہے ۔
’’وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کے لئے خود اسی کی جنس سے ایک جوڑا بنا یا تا کہ وہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔‘‘
قرآن میں ایک اور جگہ زوجین کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ ہے کہ ان کے ما بین مناکحت کا تعلق معنوی حیثیت سے ویسا ہی ہو نا چاہیے جیسا جسم اور لباس کے درمیان ہوتا ہے ۔
مرد کے ذمہ عورت کے حقوق
(۱) اسلامی قانون کے تحت ازدواجی زندگی کا جو ضابطہ مقرر کیا گیا ہے اس میں مرد کی حیثیت قواّم کی ہے اور اس حیثیت میں مرد پر مندرجہ ذیل فرائض عائد ہو تے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
’’اور بیویوں کو ان کا مہر راضی خوشی ادا کرو ۔‘‘ (النساء:۲)
اور مزید حکم فر ما یا:’ ’ اور جو تم نے ان سے حاصل کیا ہے اس کے لئے ان کی قیمت ( مہر ) ادا کرو یہ تم پر فرض ہے۔‘‘ (نساء: ۲۴)
نکاح کے وقت مہرکی تعیین اور اس کی ادئیگی ہو نی چاہیے طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو موخر بھی کر سکتے ہیں اور مہر صرف عورت کا حق ہے لہذا شوہر یا اس کے والدین یا بھائی بہن کے لئے مہر کی رقم میں سے کچھ لینا بھی جائز نہیں ہے ۔
(۲) آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر خواتین کے سلسلے میں خاص ہدایت فرمائی:
’’ اور بیویوں کے معاملات میں اللہ کی نا راضگی سے بچو کیو ں کہ تم نے ان کو اللہ کی حفاظت کے ساتھ لیا ہے اور ان کی شرم گاہوں کو اللہ کی اجازت سے اپنے لئے حلال کیا ہے اور ان پر تمہارا حق ہے کہ وہ کسی ایسے (مرد یا عورت) کو تمہارے گھر میں نہ آنے دیں جو تمہیںپسند نہ ہو اور اگر وہ ایسا کریں (یعنی نشوز یا ٹیڑھ کی راہ لیں)تو ایسی مار مارو جو خطرناک نہ ہو اور ان کا حق ہے تم پر کہ ان کا کھانا، پینا، پہننا اور اوڑھنا معروف طریقے پر پو را کرو۔‘‘
(۳)بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کسی معاملے میں اس سے کوئی غلطی یا کوتاہی وغیرہ ہوجائے ہو تو خاوند اس کے ساتھ نرمی والا رویہ رکھے اس پر سختی نہ کرے اور زبان یا ہاتھ سے کسی بھی طور پر اسے دکھ یا اذیت نہ پہنچائے اور اس کی غلطی و کوتاہیوں پر صبر کرتے ہوئے اسے سمجھاتا رہے اور اس کی کو تا ہیوں پر صبر کر نے کے لئے اس کی اچھائیوں کی طرف توجہ کرے جیسا کہ آپ ﷺ نے اس کی تعلیم دی ہے ۔ آپ ﷺ نے فر مایا:
ترجمہ:’’ کوئی ایمان والا (خاوند) کسی ایمان والی (بیوی) کو غصہ اور غم نہیں دلاتا اگر اس کا کوئی کام خاوند کو نا پسند ہو (تو وہ یہ خیال کرے )کہ اس بیوی کا کوئی دوسرا کام پسند والا بھی تو ہوگا۔‘‘
(۴)بیوی کی حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ خاوند اس کی دینی تعلیم و تربیت میں واقع کمی کو پورا کرے اور مرد کا یہ فرض ہے کہ وہ بیوی کو دین کی تعلیم او راس پر عمل کے لیے شوق دلائے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ترجمہ: اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ اس معاملے میں اگر بیوی کی صحیح دینی تربیت اور اسلامی شعور کی بیداری نہ ہوسکی تو آنے والی نسلوں کو بھی دین پر قائم رکھنا آسان نہ ہوگا۔ اس کا نتیجہ اللہ کی نافرمانی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
(۵)بیوی اور شوہر کی ذمے داری ہے کہ وہ ازدواجی رازوں کی حفاظت کرے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک حدیث کے مطابق سب سے برا انسان وہ ہے جو ایسا کرتا ہے۔ جس طرح عورت مرد کی خواہشات کو سمجھتی اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے اس طرح مرد کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بھی عورت کی خواہشات اور جذبات کو سمجھے اور اس کی کواہشات کو پورا کرے۔
بیوی پر خاوند کے حقوق
(۱) خاوند کی اطاعت :بیوی پر خاوند کی اطاعت فرض ہے یعنی جہاں تک اور جب تک اس کی ہمت اور طاقت میں ہو وہ خاوندکی فرماں برداری کرے اور کسی بھی حال میں خاوند کی نا فرمانی نہ کر ے ۔ ارشاد رسولؐ ہے :
ترجمہ: ’’جو عورت روزانہ اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو اور رمضان کے روزے رکھتی ہو اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر تی ہواور اپنے خاوند کی تابعداری کر تی ہو ( اور اس حال میں مر جائے) تو جنت کے جس دروازے سے چاہے گی جنت میں داخل ہو جائے گی۔‘‘
(۲)ارشاد باری ہے ۔
’’اپنے گھروں میں قرار پکڑو ( آرام سے گھروں میں ہی رہو ) اور پہلی جاہلیت کی طرح بنائو کا اظہار نہ کرو۔‘‘ ( الاحزاب :۳۳)
صاحب معارف القرآن کے بقول ’’ اس آیت میں پردہ کے متعلق اصلی حکم یہ ہے کہ عورتیں گھروں میں رہیں (بلا عذر شرعی باہر نہ نکلیں ) اس کے ساتھ ہی یہ بھی فر ما دیا گیا ہے کہ جس طرح اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی عورتیں علانیہ بے پردہ پھرتی تھیں ایسے نہ پھرو۔
گویا یہ خطاب امھات المومنین کے لئے ہے لیکن قرآن میں اللہ کے احکام اور خطاب کے عام اسلوب کی طرح یہ حکم امت کی تمام عورتوں کے لئے بھی ہے۔
یہ بھی خاوند کے حقوق میں سے ایک حق ہے ۔ حدیث شریف میں ہے :
ترجمہ: کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بنا نفلی روزے رکھے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نہ آنے دے اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے خرچ نہ کرے۔
اس حدیث کی روشنی میں عورت کے ذمے دو حقوق ہیں ایک تو یہ کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی ہے اوردوسرے یہ کہ خاوند کے گھر میں اس کی اجازت لئے بغیر کسی کو داخل نہیں کر سکتی ۔ ساتھ ہی اس حدیث سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ خاوند کے مال سے دئے جانے والے صدقہ وغیرہ سے بیوی کے ساتھ ساتھ خاوند کو بھی اجر ملتا ہے۔
بیوی کی کچھ اہم ذمہ داریاں
قرآن میں ارشاد باری ہے :’’ پس نیک اور فرماں بردار عورتیں وہ ہیں جو خاوند کی غیر موجودگی میں ( اس کے ) ان حقوق کی حفاظت کر تی ہو جو اللہ نے محفوظ قرار دئے ہیں۔‘‘ (النساء:۳۴)
اسی طرح مشہور حدیث کا حصہ ہے کہ:
ترجمہ: ’’اور عورت ذمہ دار اپنے شوہر کے گھر اور اس سلسلے میں وہ جواب دہ ہے۔‘‘
یعنی عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا یعنی بچوں اور زیر نگرانی افراد کے بارے میں جواب دہ ہے ۔ اس سے بیوی پر خاوند کے مال ، اولاد اور عزت کے حقوق کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے نظم و نسق ، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی تکمیل کر نے والی ہو۔ اولاد کی تربیت اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کرے اور کھانے پینے اوڑھنے اور دیگر اخراجات میں خاوند کے مال کو میانہ روی سے خرچ کرے اور گھر کو جہاں رہ رہی ہے اس کو خاوند اس کے والدین اور اولاد کے لئے گھر بنائے رکھنے کی ذمہ دار ہے ۔
ایک اور حدیث میں کہ عورت نفل روزے شوہر کی اجازت و اطلاع کے بغیر نہ رکھے۔ اس کا مطلب واضح ہے اور ہر باشعور مرد و عورت اس کی حکمت و ضرورت کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ حقیقت میں ازدواجی ضرورت کی طرف کنایہ ہے۔
زیب و زینت اختیار کر نا
ایک مرتبہ آپ ﷺ ایک جہاد سے تشریف لا رہے تھے چنانچہ جب مدینہ منورہ کے قریب پہونچے تو صحابہ کرام ؓ جلدی جلدی مدینہ میں داخل ہونا چاہ رہے تھے تو آپؐ نے شہر کے قریب قیام فرمایا اور لوگوں سے کہا: ’’ انتظار کرو ہم لوگ ( مدینہ میں ) رات کے وقت داخل ہوں گے یعنی عشا ء کے وقت تا کہ جس عورت کے بال بگڑے ہوں وہ کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند اس سے دور تھا وہ دھار دار چیز استعمال کر لے ( وہ بال صاف کر لے جو صاف کر نے کے ہیں )۔‘‘ اس دوران مدینہ میں اطلاع آگئی کہ قافلہ جہاد سے لوٹ آیا ہے۔ اس درمیان ان خواتین نے جن کے شوہر جہاد پر گئے ہوئے تھے خود کو اچھی طرح ان کے استقبال کے لیے تیار کرلیا۔
شکر گزاری
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ کی روایت ہے جس میں نماز گرہن کے وقت پڑھی جانے والی نماز کا ذکر ہے اس روایت میں آپ ﷺ نے دوران نماز دکھائی جانے واکی چیزوں کا بیان فر ماتے ہوئی ارشاد فر ما یا:’’مجھے جہنم دکھائی گئی پس آج کے منظر سے بڑھ کر خوفناک منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور میں نے جہنم میں عورتوں کی اکثریت کو پایا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ایسا کیوں ؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا: بکفرھن (ان کے کفر کی وجہ سے ) صحابہ ؓ نے پوچھا کیا عورتیں اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا خاوند کی نا شکری کرتی ہیں اور احسان کی نا شکری کر تی ہیں، اگر تم اس (بیوی) کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہو اور پھر کبھی اسے تمہاری طرف سے کوئی تکلیف دہ چیز ملے تو کہتی ہے میں نے کبھی بھی تمہاری طرف سے خیر نہیں پائی۔‘‘
اس حدیث میں عورتوں کی بحیثیت بیوی ایک ایسی عادت کا ذکر کیا گیا ہے جو تقریبا ہر کسی کے مشاہدے میں ہے اور وہ ہے خاوند کی نا شکری کر نا اور کبھی کبھار ظاہر ہو نے والی کسی تکلیف دہ یا زیادتی والی بات یا کام پر خاوند کی طرف سے ہمیشہ یا مسلسل یا کثرت سے ملنے والے احسان اور محبت کا سرے سے انکار کر دینا اور یہ الزام لگا دینا کہ تم ہمیشہ کے ظالم اور برے ہو اور یہ بھی بتا یا گیا کہ یہ الزام عورتوں کے جہنم میں داخل ہو نے کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب ہے اور ساتھ ہی یہ سبق بھی دیا گیا کہ بیوی کو چاہئے کہ وہ اپنے خاوند کی شکر گزاری کر تی رہے ۔
الغرض جس طرح مرد کے ذمے عورت کے حقوق ہیں اسی طرح عورت ( بیوی)کے ذمے بھی خاوند کے حقوق ہیں جن کو بجا لانا دونوںکے لئے ضروری ہے چنانچہ اسلام نے دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا ضامن بنا کر بتا دیا کہ اگر ایک مضبوط گھر ، خاندان اور معاشرے کی بنیاد رکھی جائے گی تو سب سے پہلے خاندان وجود میں آنے کا جو سب سے بڑا سبب ہے (میاں اور بیوی) ان کو ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنا ہوگا اور ان کی تکمیل ضروری ہوگی اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوگا تو پھر خاندان تو وجود میں آجائے گا لیکن اطمینان و سکون والا خاندان وجود میں نہیں آئے گا ۔ lll