بچوں کی تربیت ایک نہایت نازک مسئلہ ہے۔ بچوں سے ماں باپ بہت محبت کرتے ہیں۔باپ بھی بچوں کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
بچے جب قدرے بڑے ہوجاتے ہیں تو بعض اوقات ضد بھی کرتے ہیں۔ ماں بچوں کی ضدیں پوری کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ البتہ باپ سے کبھی کبھی زیادتی ہوجاتی ہے۔ وہ بچوں پر سختی کرتا ہے سختی کی بھی کبھی ضرورت ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی یہ سختی بے جا اور نامعقول ہوجاتی ہے۔ اس کے نتائج کبھی کبھی بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچے باغی ہوجاتے ہیں، تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور گھر سے باہر زیادہ رہنے لگتے ہیں۔ اس صورت میں ماں باپ اور معلم کا رول بہت اہم اور کلیدی ہوجاتا ہے۔ بچوںکو اگر پیار ، محبت اور حکمت سے سمجھایا جائے تو نتائج حیران کن حد تک بہتر حاصل ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیرت نبوی کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ حضورؐ بچوں سے کیسا سلوک کرتے تھے اور اس سلسلے میں ان کی ہدایات کیا ہیں۔اس سلسلے کا ایک واقعہ قارئین کو بتانا چاہتا ہوں جو والدین کے لیے بھی ہے اور معلمین و معلمات کے لیے بھی۔
ایک دفعہ ایک معلمہ میرے پاس آئی۔ وہ قدرے پریشان تھی۔ اُس نے کہا کہ سر! آج ایک بڑا حادثہ ہوگیا۔ ایک بچے نے میرے ساتھ Misbehave ’ناروا‘ سلوک کیا۔ میں نے معلمہ کو اطمینان سے بیٹھنے کو کہا اور اس سے تفصیل پوچھی۔ اس نے بتایا کہ میں نے کلاس کو انگریزی پڑھانا شروع کیا اور نمونہ کا پیراگراف پڑھا۔ مشکل الفاظ کا تلفظ اور معنی بتائے اور پھر ایک طالب علم سے کہا کہ وہ کھڑے ہوکر پیراگراف پڑھے۔ طالب علم اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ میں نے دوبارہ اس سے پڑھنے کو کہا مگر طالب علم نے کہا ’’میڈم I will not “read میں نہیں پڑھوں گا۔ معلمہ نے پھر اصرار کیا لیکن بچہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ معلمہ نے مجھ سے کہا سر! یہ میری بے عزتی ہے۔ بچے کو سزا دینی چاہیے۔
میں نے معلمہ سے کہا کہ وقفے کے بعد آپ اس طالب علم کو تنہائی میں اسٹاف روم میں بلائیں اور بچے کی پیٹھ تھپتھپائیں اور کہیں:
’’بیٹے! آپ بہت اچھے لڑکے اور طالب علم ہیں۔ ہمیشہ اپنے ٹیچر کی عزت کرتے ہیں، پڑھنے میں بہت ذہین ہیں۔ آپ سے میں نے آج اس لیے سبق پڑھنے کو کہا تھا کہ دوسرے طلبہ آپ کی نقل کریں لیکن آج آپ کو کیا ہوگیا تھا۔ آپ سچ سچ بتائیں “You are so good so nice! ‘‘
معلمہ نے بچے کے ساتھ جب ایسا کیاتو بچے نے معلمہ سے کہا: میڈم! آج جب میں یونیفارم پہن کر تیار ہوا تو میں نے اپنے والد سے کہا کہ آج میں پوری چھولے کا ناشتہ کرنا چاہتا ہوں، مجھے دس روپئے دے دیں۔ اس پر ابا بہت ناراض ہوگئے اور انھوں نے میرے ایک لات رسید کردی اور کہا کہ پیسے نہیں ملیں گے۔ میں بغیر ناشتہ کیے اسکول آگیا۔ مجھے غصہ تھا جس کی وجہ سے مجھ سے یہ غلطی ہوئی۔ مجھے معاف کردیں۔
ٹیچر نے اسے معاف کردیا۔
میں نے دوسرے دن اس کے والد کو اسکول بلاکر سمجھایا کہ بچے بعض دفعہ ہماری بے جا سختیوں کی وجہ سے باغی ہوجاتے ہیں۔ آپ اپنا رویہ بدلیں۔ بچے کے والد پر خاطر خواہ اثر ہوا۔
اس طرح بعض دفعہ ہم خود بچوں کو باغی بنادیتے ہیں۔ اس لیے والدین اور معلمین اور معلمات کو بڑی حکمت سے کام لینا چاہیے۔