آغا صاحب آفس سے لوٹے تو دیکھا ان کے بچے آنگن میں محلے کے دو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔بڑا بیٹا باقر سائیکل چلا رہا تھا چھوٹا بیٹا علی اور بیٹی علینا مرغی کے چوزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے جو کہ انہوں نے بڑے شوق سے منگوائے تھے۔یہ دیکھ کر ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
ـارے بیگم ہر کسی کو گھر میں مت گھسنے دیا کرو۔ ان بچوں کو پڑھنے لکھنے کا شوق ہے نہ بولنے کی تمیز۔ ہمارے بچوں پر بھی غلط اثر پڑے گا۔’’ جی! آیندہ خیال رکھوں گی۔‘‘ بیگم نے دھلے کپڑوں کی تہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔
آغا صاحب ایک نفیس اور سلیقے مند انسان تھے۔ نرمی سے بات کرتے تھے کبھی بھی بیکار گفتگو نہیں کرتے تھے۔گھر میں صفائی ستھرائی کو پسند کرتے تھے ۔وہ جب بھی محلے کے ان بچوں کو دیکھتے تو انہیں ناگوار گزرتا تھا۔انہیں محلے میں گھومنے پھرنے والےبچے بالکل پسند نہ تھے۔
زاہد ،اکبر اور ثمینہ تینوں بہن بھائی پڑوس کے گھر کے ہی تھے۔پڑھائی کے علاوہ سارا دن مٹرگشتی کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔آغاصاحب کو ایسے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں کا گھلنا ملنا پسند نہ تھا۔اس لیے آج انہوں اپنی بیگم کو سختی سے ٹوک دیا۔
اگلے دن آغا صاحب بیگم کے ساتھ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے تو پاس سے گزرتے ایک بچے نے انہیں سلام کیا۔یہ انہی میںسے ایک بچہ تھا، جنہیں دیکھتے ہی انہیں ناگواری کا احساس ہوتا تھا۔انہوں نے سلام کا جواب دیا اور آگے بڑھ گئے ۔
آغا صاحب نے نوٹس کیا کہ وہ جب بھی گلی سے گزرتے تو وہ دونوں بھائی انہیں دیکھتے ہی سلام کرتے۔ انہوں اس تبدیلی کو محسوس کیا۔ ایک دن شام کو آفس سے گھر آئے تو بیگم سے کہنے لگے: بیگم!پہلے تو مجھے ان بچوں کو دیکھ کر اچھا نہیں لگتا تھا۔لیکن ان کی سلام کرنے کی عادت نے میرے دل میں ان کے لیے جگہ بنا دی ہے۔
’’جی! سلام کرنے میں برکت ہے اس سے دوسرے کے دل میں عزت بھی پیدا ہوتی ہے اور محبت بھی،خود ہمارے آخری نبیﷺ سلام کرنے میں پہل کیا کرتے تھے اس لیے اسلام میں سلام کرنے کی اہمیت بھی ہے اور افادیت بھی۔‘‘ بیگم نے مسکرا کر کہا۔’’ بالکل‘‘ آغا صاحب نے بھرپور انداز میں تائید کی اور محبت سے بیگم کی طرف دیکھا۔ ll