عزت و ذلت کا قرآنی اصول

مدیحہ رحمٰن (گیا)

قرآن میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

’’ان پر ذلت اور بے چارگی تھوپ دی گئی اور اللہ کے غضب کا انھوں نے سودا کیا۔‘‘

پھر اسی آیت میں اس ذلت و بے چارگی اور اللہ کے غضب کی وجہ بھی بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ وہ اللہ کی نافرمانی کرتے اور اس سے بغاوت کی روش رکھتے تھے۔ (دیکھئے آل عمران:112)

اسی طرح کا بیان سورۃ البقرہ کی آیت:61 میںبھی ہمیں ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو بنی اسرائیل کو من و سلویٰ دے کر فکرِ معاش سے آزاد کر دیا اور دین کی تبلیغ و ترویج کا حکم دیا۔ لیکن ان بد بختوں نے من و سلویٰ کی نسبت زمین کی پیداوار کو ترجیح دی۔ ان کی اس بات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کی خواہش کرتے ہو؟ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں وہی عطا کیا جس کی انہیں خواہش تھی۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ اپنی خواہشات کے اس قدر غلام ہوتے چلے گئے کہ انسانیت کے بہت نچلے درجے پر گر گئے۔ بالآخر ان پر ہمیشہ کے لئے ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی۔

مذکورہ دونوں آیتوں کا اگر ہم بہ غور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ملتوں اور قوموں پر ذلت و بے چارگی مسلط ہونے کے اسباب و وجوہات کیا ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے اصول وضوابط کیا ہیں۔

امتِ محمدیہ یعنی ہم مسلمان بھی اللہ کی کتاب اور اس کی شریعت کی حامل امت ہیں اور عروج و زوال اور عظمت و پستی اور ذلت و عزت کے وہی اصول ہم پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بہ حیثیت مسلمان یہ سوچنا چاہیے کہ آج مسلمانوں کی حالت زار ایسی کیوں ہے کہ جیسے ہم پر بھی ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی ہو۔ ان آیات کے تناظر میں کچھ نکات پر غور وفکر کیا جانا چاہیے۔

بنی اسرائیل کی ذلت و بے چارگی کی وجہ اللہ کی نافرمانی ’’ذالک بما عصوا و کانوا یعتدون‘‘ بتائی گئی ہے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا آج کے مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو بنی اسرائیل کے برعکس مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے؟ ہرگز نہیں، آٹے میں نمک کے برابر کچھ لوگ ہوں گے جو اس پر پورا اترتے ہوں ورنہ اکثریت تو دینی تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔ اور جو لوگ کچھ قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں ان تک کا رویہ ایک مثالی مسلم جیسا نہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے آخری وقت میں امت کو ہدایت دی تھی کہ ’’میں تمہارےدرمیان دو خبریں چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اپنی سنت جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوسکتے۔‘‘ مگر افسوس کہ ہم نے ان دونوں کو فراموش کردیا۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے آراستہ ہیں۔کیا یہ ہمارے لیے انفرادی اور اجتماعی احتساب کا مقام نہیں ہے؟

کیاہم مسلمان عملی مسلمان ہیں؟اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں زندگی گزارنے کے لیے جو ہدایات دی ہیں انہیں اپنی زندگی میں نافذ کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں سود سے بچنے کا حکم دیا گیا ، مگر ہم اس میں پوری طرح مبتلا ہیں۔ اسلام کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی ہدایات کی ترجمانی کرنا تو دور کی بات صرف یہ دیکھ لیں کہ امت کے کتنے افراد دین کے اہم ترین اور بنیادی حکم نماز پنجگانہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا ہمیں ذلت و رسوائی کے علاوہ اور کچھ ملنا چاہیے؟

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ امت محمدیہ بنیادی طور پر داعی امت ہے۔ اس کا کام لوگوں کو اللہ اور اس کے دین کی طرف دعوت دیتنا ہے۔ یہ بات ’’کنتم خیرامۃ اخرجت للناس، تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر‘‘ (تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے برپا کیے گئے ہو، تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دوگے اور برائیوں سے روکوگے) سے واضح ہوجاتی ہے۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا تھا: ’’خدا کی قسم تم ضرور لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے رہو گے اور برائیوں سے روکتے رہوگے۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تم پر عذاب مسلط کردے گا، پھر تم اس کو پکاروگے اور تمہاری پکار نہیں سنی جائے گی۔‘‘ اللہ کے رسولؐ کا یہ قول ہمیں جہاں دعوتِ احتساب دیتا ہے وہیں ہماری موجودہ ذلت و بے چارگی کا راز بھی ہمارے سامنے کھول دیتا ہے۔

باہمی اتحاد اور یک جہتی قوموں اور ملتوں کی ترقی، استحکام اور ان کی قوت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔بہ صورت دیگر اچھی اچھی اور ترقی یافتہ قومیوں پستی اور زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں بھی بنی اسرائیل کی ایک مثال پیش کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر گئے تو ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ان کی قوم کے ایک فرد نے سونے چاندی کو پگھلا کر ایک بچھڑا بناڈالا اور اس کی پوجا کرنے لگا۔ اور قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔ حضرت موسیٰؑ نے واپسی پر جب دیکھا تو رنجیدہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس تفریق پیدا کرنے والے کو سخت سزا دی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ طٰہٰ:80-98)

قرآن کریم ہمیں ’’کونوا عباداللہ اخوانا‘‘ اللہ کے ایسےبندے جو آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہوں، بننے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسول نے امت کے افراد کی مثال ایک مضبوط دیوار سے دی ہے، جس کی اینٹیں آپس میں جڑ کر ایک دوسرے کو طاقت دیتی ہیں لیکن ہم نے اپنے آپ کو فرقوں، گروہوں اور مسلکوں میں بانٹ کر کمزور کرلیا ہے۔ یہی کمزوری ہمیں ذلت و بے چارگی کی طرف کھینچ کر لے گئی ہے۔

اوپر جو باتیں عرض کی گئی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم قرآن اور اقوالِ رسول کی روشنی میں اپنا انفرادی و اجتماعی احتساب کریں۔ عزت و سربلندی اور پستی و ذلت کے پیمانے اور اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کردیے گئے ہیں ضرورت صرف انہیں سمجھنے اور اپنی زندگی کو بہتر کرنے کی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146