يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۰ۚ (النسائ:1)
ترجمہ: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوںسے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیئے۔‘‘
اللہ کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں۔ ان میں پیدائشی اعتبار سے کوئی امتیاز اور بڑائی نہیں۔ سب یکساں ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں۔ قرآن کی دعوت اور پکار سب کے لئے ہے۔
اسی طرح سورہ الحجرات میں فرمایا گیا ہے: ترجمہ: ’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (الحجرات:13)
پھر اس کی یاد دہانی آخری مرتبہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں کی گئی:
’’اے قریش کے لوگو! اللہ نے تمہاری جاہلیت کی نخوت دور کردی ہے۔ اب نسبوں اور خاندانی اعزازات کے لئے کوئی مقام باقی نہیں رہا۔ اب یہاں حسب نسب کے لئے کوئی فخر نہیں ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، سوائے تقویٰ کے۔تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو۔ (پھر فرمایا) غلام تمھارے بھائی ہیں، جو کھاتے ہو انھیں کھلاؤ اور جو پہنتے ہو انھیں پہناؤ۔ اور عورتوں کے حقوق کا خیال رکھو۔‘‘
قرآن نے انسانوں کو جو حقوق دیئے ہیں وہ سب کے لئے یکساں ہیں۔ اس میں عام آدمی اور خاص آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر فرق ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ کون اللہ کا زیادہ فرماں بردار ہے۔ جو جتنا زیادہ فرماں بردار ہے وہ اسی قدر عظمت والا ہے۔