وہ جو نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’آدمی اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔‘‘ اس کا مصداق بڑوں سے کہیں زیادہ بچہ ہوتا ہے۔ بچہ پیدائش کے وقت، جیسا کہ رسول کریم ﷺ کا قول ہے، فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس کے اولین معلّم، ساتھی اور ’’ماحول‘‘ اس کے والدین ہوتے ہیں۔ اس کے حواسِ خمسہ پر جو اولین سمعی، بصری اور دوسرے تاثرات ، مشاہدات و کیفیات مرتب ہوتے ہیں، وہ براہِ راست والدین اور ان کے گھریلو ماحول سے صادر ہوتے ہیں۔ والدہ خصوصی طور پر بچے پر اپنی شخصیت کی چھاپ لگاتی ہے کہ اس کی آغوش بچے کا گہوارئہ اول ہوتی ہے۔ اس گھریلو ماحول کا کینوس بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن بچے کی کل کائنات یہی ہوتی ہے۔
بچے کی تعلیم اور تربیت کے متعلق ہمارے یہاں جو نظریات مروج اور مقبول ہیں وہ حد درجہ سطحی اور جاہلانہ ہیں۔ عام طور پر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر حصولِ تعلیم کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کو اساتذہ کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں۔ بعض والدین تو یہاں تک غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوتے ہیں کہ وہ بچے کو اسکول میں داخل کرواکر برملا کہتے پھرتے ہیں کہ ’’چلو چھٹی ہوئی، کمبخت نے ناک میں دم کررکھا تھا۔‘‘ ان بدنصیبوں کو یہ کون بتائے کہ ’’تم نے بچے کو ابتدائی تربیت اور تیاری کے بغیر ہی اسکول میں دھکیل دیا ہے۔ جس کا آغاز یہ ہے، اس کا انجا م کیا ہوگا؟‘‘ کتنے ہی ایسے والدین ہوں گے جو اپنے’نالائق‘ اور ’ناکام‘ بچوں کا رونا ہر کس و ناکس کے آگے روتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس کی نالائقی اور ناکامی کا سنگِ بنیاد انہی کا رکھا ہوا ہے۔
بچے کی تعلیم و تربیت کا جو میکانکی نظریہ ہمارے معاشرے اور گھروں میں رائج ہے، اس نے بیشتر گھرانوں کی بنیادیں کھود ڈالی ہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے مغربی تعلیم و تربیت کی بھونڈی نقالی میں تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن اس کے مضمرات و افادات کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے۔ چنانچہ موجودہ طریقِ تعلیم اور اندازِ تربیت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اول تو امتحانوں میں طلبا اور طالبات کا ’قتلِ عام‘ ہوتا ہے اور جو خوش قسمت کامیاب ہوجاتے ہیں، ان میں سے بھاری اکثریت نہ زبان پر قادر ہوتی ہے نہ قلم پر۔ کسی نے کہا تھا کہ ہمارے تعلیمی ادارے کلرک سازی کی فیکٹریاں ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ ان فیکٹریوں نے ڈھنگ کے کلرک بھی تو پیدا نہیں کیے۔
رسول کریمﷺ کا قولِ سدید ہے کہ ’’گود سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو۔‘‘ گویا تعلیم و تربیت کی ابتداء پہلی جماعت اور انتہا سولہویں جماعت نہیں ہے جیسا کہ ہم سمجھے بیٹھے ہیں۔ بلکہ بچے کے تولد ہوتے ہی اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اس کے والدین پر عائد ہوجاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بہت کم والدین اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام خود کرتے ہیں۔
بچے کی تعلیم و تربیت کی شروعات میں نہ انفرادی نفسیات کے عمیق مطالعے کی ضرورت ہے نہ ’’بچوں کی نفسیات‘‘ سے آگاہی کی۔ ہاں تعلیم یافتہ والدین کو ان علوم کی الف ب معلوم ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر بچے کی منظم تربیت ممکن نہیں ہوتی۔
والدین کو بچے کی تربیت و تہذیب کے سلسلے میں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ بچے کی ذہنی و جسمانی نشونما کے عمل میں ایسا رول ادا کریں کہ اس سے بچے کی شخصیت پامال یا مغلوب ہونے کی بجائے آزادانہ پنپ سکے۔ اس ضمن میں والدین کا رویہ سختی اور بے جا لاڈ پیار کے بین بین ہونا چاہیے۔ بچے کی دیکھ بھال، تربیت، تہذیب، تادیب اور تعلیم میں درجہ اعتدال سے ادھر ادھر نہیں ہونا چاہیے کہ تشدد یا لاڈ پیار دونوں بچے کو بالآخر ’’بگڑا بچہ‘‘ بنادیتے ہیں۔
بچے سے والدین کا رویہ متناقص یا متضاد نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ والد تو بچے کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے اور والدہ اس کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ یا والد تو بچے کو پھوٹی کوڑی دینے کو تیار نہیں اور والدہ چوری چھپے اس کو جیب خرچ دیتی رہتی ہے۔ والدین کو ایک ایسا لائحۂ عمل تیار کرلینا چاہیے جو بچے کی صحیح خطوط پر تربیت کرسکتا ہو۔
بچے کی نگرانی ہمہ وقتی توجہ کی محتاج ہوتی ہے، لیکن نگرانی یوں نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تلوار بن کر بچے کے سر پر لٹکتی رہے۔ بس بچے کو یہ احساس رہنا چاہیے کہ والدین مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس خوف کی بجائے والدین کی جانب سے اک گونہ دلچسپی اور توجہ کا احساس ہونا چاہیے۔ نیز اس کو قدم قدم پر ان کی مہربان رہنمائی حاصل ہونی چاہیے۔
ہمارے ملک کی بیشتر خواتین اَن پڑھ یا نیم تعلیم یافتہ ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہماری معاشرتی پابندیوں نے ان کو گھر کی چار دیواری میں پابند کررکھا ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان خواص سے یکسر عاری ہوتی ہیں جو بچے کی تربیت کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ دنیاکی عظیم شخصیتوں کی مائیں بھی عظیم ہو تی ہیں اور وہ اپنے بچوں کو دنیا میں دھکیلنے سے پہلے ان میں وہ تمام خواص اور صفات پیدا کردیتی ہیں جو آگے چل کر ان کی عظمت کی ضمانت بنتے ہیں۔ بڑے آدمیوں کی مائیں واقعی بڑی ہوتی ہیں کہ وہ بچے کے اندر اعتماد، اعتقاد، عزت نفس اور بنیادی شرافت کے جوہر کوٹ کوٹ کر بھر دیتی ہیں۔
ایسی مائیں اپنی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار پڑوسنوں اور ملنے والیوں سے بچے کی تربیت اور تعلیم کے متعلق رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے تعلیم یافتہ شوہروں اور عزیزوں سے مدد لے سکتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ان کو بچے کی تربیت کی ضرورت اور اہمیت کا بھرپور احساس ہو۔ اَن پڑھ یا نیم تعلیم یافتہ ماں اپنے بچے کے اندر وہ بیشتر خصوصیات پیدا کرنے کی اہل ہوتی ہے جن کی تخلیق کے لیے رسمی تعلیم ضروری نہیں ہوتی۔ مثلاً صداقت، دیانت اور محبت۔ اسی طرح وہ بچے کی خوراک، لباس اور نشست وبرخاست میں اس کی صحیح خدمت کرسکتی ہے تاکہ وہ جسمانی طور پر اچھی طرح پرورش پاسکے۔ غرضـ یہ ہے کہ اگر محنت اور طریقے سے کام کیا جائے تو بچے کی زندگی کا سنگِ بنیاد اچھی طرح رکھا جاسکتا ہے۔
والدین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایک تو بچے کی قوتِ مشاہدہ بڑی تیز ہوتی ہے اور دوسرے وہ مکمل نقال ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی گفتگو، حرکات و سکنات، نشست وبرخاست وغیرہ سے برابر اثر پذیر ہوتا رہتا ہے اور شعوری، نیم شعوری یا لاشعوری طور پر ان کے سانچے میں ڈھلتا رہتا ہے۔
انفرادی نفسیات کے ماہروں بالخصوص الفریڈایڈلر نے ایسی کئی مثالیں دی ہیں۔ جن سے بچے کے رویے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ نفسیات کے ان ماہروں کے افکار کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان، بالخصوص بچہ اپنے گردو پیش سے متاثر ہوتا اور اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ ان باتوں کے پیشِ نظر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ والدین بچے کو اچھا ماحول مہیا کریں۔
اچھا ماحول کیا ہے؟ اچھا ماحول اعلیٰ فرنیچر، قیمتی کپڑوں اور ٹھاٹھ کی زندگی پر مشتمل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے عناصر اربعہ اچھے انسانی تعلقات، سادہ صاف زندگی، مصروف اوقات اور محبت ومؤدت ہوتے ہیں۔ آپ اپنے بچے کو یہ عناصرِ اربعہ بہم پہنچادیجیے، پھر دیکھئے وہ کس طرح ذہنی، جسمانی اور روحانی ترقی کے مدارج طے کرتا ہے۔
بچہ جب تک منزلِ بلوغ کو نہیں پہنچتا، اس کی نشوونما کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ بچے کے لیے پاکیزہ اور پرمحبت ماحول پیدا کریں۔ ایسا ماحول جو اس کے شریفانہ جذبات کو پروان چڑھائے اور غیر شریفانہ جذبات و احساسات کے سوتوں کو بہنے سے پہلے خشک کردے۔