خاندان کیا ہے؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے عام طور سے اسے وراثت سے خلط ملک کردیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عام لوگ اس امر سے واقف ہی نہیں ہیں کہ خاندان سے مراد کیا ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے اور معاشرہ میں اس کی اہمیت کیا ہے؟ اس ناواقفیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہےکہ لوگ سماجیات کے علم سے مانوس نہیں ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ معاشرہ کے اس بنیادی رکن کے بارے میں مختصر انداز میں معلومات فراہم کردیں۔
خاندان کی تشکیل
خاندان معاشرہ کا بنیادی رکن ہے، جو خون کے رشتہ سے یا ازدواجی رشتہ سے قائم ہوتا ہے۔ اس کے ہر فرد یا رکن کی ایک دوسرے سے توقعات ہوتی ہیں۔ ان توقعات کے لیے اصول و قواعد دین اسلام کے ذریعہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے طے کیے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی شوہر، آل اولاد، سب یا ان میں سے چند مل کر خاندان بناتے ہیں۔ شوہر بیوی کا رشتہ خون کا نہیں ازدواجی ہوتا ہے جب کہ ماں باپ، بھائی بہن اور بیٹے بیٹی کا رشتہ خون کا ہوتا ہے۔ ان تمام افراد سے مل کر خاندان ایک متعین شکل اختیار کرلیتا ہے۔
اسلام میں خاندان کی شکلیں
بنیادی طور پر اسلام خاندان کی کسی ایک شکل کی ہدایت نہیں کرتا۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی خاندان کا ذکر آیا ہے وہاں وحدانی (Unitray) خاندان کے حوالہ سے ہی بات کی گئی ہے۔ وحدانی خاندان سے مراد وہ خاندان ہے جس میں صرف شوہر بیوی اور ان کے بچوں ہوں۔ اگر ان کے ساتھ ان کے والدین، بھائی بہن، پھوپھی، خالہ یا ساس وغیرہ بھی رہیں تو وہ توسیعی خاندان کہلائے گا۔ اسلام میں مشترک خاندان (جوائنٹ فیملی) کا کوئی تصور نہیں ہے کیوں کہ اس میں خواہ افراد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مل جل کر رہیں، لیکن ہر خاندانی اکائی کے اپنے آزادانہ حقوق و فرائض ہوں گے۔ اس کے برخلاف مشترک خاندان میں سب کچھ کرنا یعنی خاندان کے سربراہ کے اختیار میں ہوتا ہے اور وہی سب کی ذمہ داری کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے۔ اسلام کے کسی خاندانی نظام میں خواہ وہ وحدانی ہو یا توسیعی ایسا نہیں ہوتا۔
خاندان میں افراد کی حیثیتیں
خاندان میں افراد کی حیثیتیں دو اور کبھی کبھی تین طرح کی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی حیثیت شوہر، بیوی اور بچوں کی ہوتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے خاندان کے مرکزی ارکان یا ممبر ہوتے ہیں۔ ان کے بعد دوسری حیثیت کےافراد ہوتے ہیں جیسے شوہر کے ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ۔ ان دوسری حیثیت کے عزیزوں کے واسطے سے جن افراد سے رشتہ بنتا ہے وہ تیسری حیثیت کے ارکان ہوتے ہیں، جیسے بیوی کے والدین، شوہر کی پھوپھی اور اس کے شوہر، چچی اور اس کی اولادیںو غیرہ۔ خاندان میں اصل حق اور اس سے متعلق فرائض پہلی حیثیت کے افراد کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی فرد کو اسلامی شریعت کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ میراث سے لے کر تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت تک کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ کسی کو اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔
دوسری حیثیت کے افراد کے حقوق صرف اس حد تک ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے والدین سے جو کچھ ورثہ میں ملا ہے اس پر ان کو اختیار ہے۔ دوسرے کی میراث و ملکیت پر کسی دوسری حیثیت کے رکن کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ تیسری حیثیت کے افراد کا کوئی شرعی یا قانونی حق اس وقت تک نہیں بنتا جب تک پہلی اور دوسری حیثیت کے افراد بیچ سے ناپید نہ ہوجائیں۔ یہ تیسری حیثیت کے افراد خاندان کو بڑا تو کرسکتے ہیں، یعنی اس کی توسیع تو کرسکتے ہیں لیکن اس میں اشتراک نہیں کرسکتے۔ یعنی ہندو خاندان کی طرح مشترک خاندان کے حقوق حاصل نہیں کرسکتے۔
مسلم خاندان میں کئی چھوٹی چھوٹی اکائیاں یعنی شوہر بیوی اور بچے مل کر دوسری اکائیوں کے ساتھ رہ سکتے ہیں، ایک ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرسکتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتے ہیں اور کرنی چاہیے، لیکن مشترک خاندان نہیں بنا سکتے۔ایسے ساتھ مل کر رہنے والے خاندان کو اجتماعی خاندان Collective Family کہا جائے گا۔
ان سب خاندانوں کو اپنی مرضی اور پسند کا پورا اختیار ہوگا لیکن کسی نوعیت سے شوہر اور بیوی، والدین اور اولادوں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو قوانین مقرر کردیے ہیں ان میں سے کسی قانون کو تبدیل کرنے کا حق کسی کو نہ ہوگا۔ مثلاً کسی اجتماعی خاندان میں کسی شوہر کا حق، کسی بیوی کا حق، کسی کی اولاد پر اختیار کوئی دوسرا حاصل نہیں کرسکتا۔ یومِ حشر میں شوہر سے اس کی بیوی اور اولاد کے بارے میں، بیوی سے اس کے شوہر کے بارے میں اور اولاد سے اس کے والدین کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ وہاں کوئی یہ کہہ کر نہ چھوٹ سکے گا کہ میری بیوی کی کفالت میرے بڑے بھائی کے ذمہ تھی یا میری اولاد کی تربیت کی ذمہ داری میری بہن پر تھی۔
اسلامی خاندان کی ہیئت
اسلام نے کسی خاص ہیئت یا شکل کے خاندان کی تاکید نہیں کی ہے۔ وہ عموماً وحدانی (Unitary) خاندان کے سلسلے میں ہدایات دیتا ہے۔ اس کے ارکان کے حقوق و فرائض کی تفصیلات بیان کرتا ہے جس سے پورے خاندان کا نظام قانون تیار ہوجاتا ہے۔ البتہ جب وہ والدین کا ذکر کرنے لگتا ہے اور ان کے حقوق جتانے لگتا ہے تو ایک نوعیت سے توسیعی(Extended) خاندان کی رعایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد جب بھائی بہنوں اور دوسرے ذوی القربیٰ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت دیتا ہے تو اجتماعی خاندان کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔
میں (ابنِ فرید) یہ نہیں کہتا کہ قرآن و حدیث میں اس نوعیت سے خاندانوں کی تخصیص کی گئی ہے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ مروجہ خاندانوں کی ان شکلوں پر اسلام کوئی اعتراض یا گرفت نہیں کرتا، البتہ مشترک خاندان (Joint Faimly) کا براہِ راست ٹکراؤ اسلام کے عائلی/ خاندانی قوانین سے ہوتا ہے اس لیے اس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
خاندانی شناخت کے اصول
انسان شروع سے اپنے خاندان پر فخر کرتا رہا ہے اور اپنی بڑائی کی دلیل اپنی اعلیٰ نسبی سے دیتا رہا ہے۔ اس کے لیے اپنے خون کے خالص ہونے، اپنی ذات (جاتی) کے بلند تر ہونے، اپنی ہڈی کے بے میل ہونے کے دعوے کرتا رہا ہے۔ اسلام نے خاندان کی اس خصوصیت کو ایک دوسری نوعیت سے اہمیت دی ہے۔ وہ خون کے خالص ہونے کو حلال رشتوں اور جائز واسطوں پر منحصر قرار دیتا ہے۔ یعنی اولاد نکاح کے ذریعہ شوہر اور بیوی کے تعلقات سے پیدا ہوئی ہو۔ اگرخاندان خود کو مسلم خاندان ہونے کا اعلان کرتا ہے تو وہ دین پر ایمان رکھتا ہو اور عمل کرتا ہو۔
مسلم خاندان کے شوہر اور بیوی اگر مسنون طریقے سے رشتہ میں منسلک ہوئے ہیں تو وہ خاندان بنائیں گے، ورنہ مسلم رہتے ہوئے اگر انھوںنے غیر منکوحہ ازدواجی زندگی گزاری تو وہ خاندان جائز خاندان نہ کہلائے گا۔ خاندان کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس کے تمام ارکان ایک ساتھ رہتےہوں۔ مثلاً شوہر، بیوی یا بچوں میں سے کسی ایک یا دو کے نہ ہونے سے خاندان ختم نہ ہوگا۔ اس کمی کے باوجود خاندان باقی رہے گا۔ ایسا اکثر شوہر کے گھر سے دور ملازمت یا کاروبار کرنے، بچوں کا تعلیم کے سلسلے میںگھر سے دور رہنے، بیوی کا طلاق یا موت کی وجہ سے نہ ہونا، خاندان کے وجود کو ختم نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف غیر شادی شدہ جوڑے کے شوہر و بیوی کی طرح رہنے سے خاندان نہیں بنتا کیونکہ اسلام انھیں کسی طرح کے عائلی حقوق عطا نہیں کرتا۔
کسی مشرک یا کافر کے کسی مسلمہ سے یا کسی مشرکہ و کافرہ کے کسی مسلمان سے شادی کرنے سے مسنون رشتہ قائم نہیں رہتا۔ اس لیے ان سے اسلام کے نقطۂ نظر سے خاندان نہ بنے گا۔ رہ گئی بات عرف عام کی تو اسلام اس کا مکلف نہیں ہے کہ وہ اپنی شریعت لوگوں کی مرضی کے مطابق بدلتا رہے۔
اسلام کے نظام کے حیات میں خاندان کی شناخت ہی یہ ہے کہ وہ شرعی حدود کے اندر قائم ہوا ہو۔ اس شرط کو مشترک خاندان پورا نہیں کرتا کیونکہ یہ منوسمرتی کے قوانین کے مطابق قائم ہوتا ہے۔ اس میں بچہ پیدا ہوتے ہی وراثت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ اسلام میں ایسا اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ اصل وارث حیات ہوتا ہے۔ مشترک خاندان میں مذہبی طور پر سب سے بڑا فرد تمام حقوق و اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ دوسرے چھوٹے، خواہ وہ خود خاندان کی ایک آزادانہ اکائی بناتے ہوں۔ اسلامی عائلی نظام میں اس طرح ایک فرد میں حقوق و اختیارات محدود کرکے دوسروں کو محروم نہیں کیا جاتا۔
کثرت ازواج والے خاندان کی ہیئت
مرد کا ایک سے زیادہ شادیاں کرنا صرف عربوں میں ہی عام نہیں رہا ہے۔ اس کا وہاں سے زیادہ رواج بھارت میں رہا ہے۔ اسلام نے اس کی تحدید کردی۔ اس نے پابندی لگادی کہ بہ یک وقت چار سے زیادہ شادیاں نہ کی جائیں اور ایک سے زیادہ شادیاں اس وقت کی جائیں جب شوہر تمام بیویوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرے۔ ایسا نہ کرسکنے والے کو مزید شادیاں کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت کے ساتھ انصاف اور سب بیویوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جائے نہ کہ اسے کلین برہمنوں اور نائروں کی طرح شادی کرکے عورت کو بے سہارا چھوڑ دیا جائے۔ اس شرط کی وجہ سے ہی بھارت میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں میں کثرت ازدواج کی شرح کم ہے۔
ایک سے زیادہ شادیوں کو اسلام نے نہ تو لازمی قرار دیا ہے، نہ ان سے منع کیا ہے۔ اسی طرح خاندان کی ہیئت کی اس نے کوئی خصوصی تصریح نہیں کی ہے۔ ان دونوں مسئلوں کو شوہر کی مرضی اور سہولت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر وہ اپنی ہر بیوی کو الگ الگ گھروں میں رکھنا چاہے گا تو ہر بیوی کا گھر وحدانی خاندان کہلائے گا حالانکہ شوہر ان میں سے کسی کے بھی ساتھ مستقلاً نہ رہے گا۔ اگر وہ ان سب بیویوں کو ایک ہی گھر میں رکھے گا تو ہر بیوی کے اپنے انفرادی حقوق و اختیار ات ہونے کی وجہ سے توسیعی خاندان کہلائے گا۔
خاندان بہ حیثیت مذہبی اکائی
اسلام خاندان کو مذہبی شکل نہیں دیتا ہے۔ وہ اس کے لیے خاندان والوں کی پسند، سہولت اور معاشرتی ترجیح کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔ البتہ وہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے دیے ہوئے حقوق و اختیارات متاثر یا مجروح ہوں۔ مثلاً اسلام نے شوہر بیوی، والدین اور اولادوں کے جو حقوق و فرائض متعین کیے ہیں یا وراثت و ملکیت کا جو قانون بنایا ہے وہ مشترک خاندان کی طرح تمام افراد سے چھین کر ایک فرد (گھر کے کرتا) کے حوالے کردے یا رواجی انداز میں عورت کو کسی طرح کا کوئی حق ہی نہ دے۔
اسلام نے واضح الفاظ میں مرد کو اہلِ کتاب عورت سے نکاح کی اجازت دی ہے۔ (اہلِ کتاب مردکے ساتھ مسلمان عورت کو نہیں)۔ ایسی صورت میں جو خاندان بنے گا اس میں مرد کو اہلِ کتاب رشتہ داروں کے ورثہ میں کوئی حق نہیں ہوگا اور اسی طرح اہلِ کتاب عورت کا مسلمانوں کے ورثہ میں کوئی حق نہ ہوگا۔
اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلم خاندانوں کے اصول و قواعد میں اسلامی ریاست کوئی دخل اندازی نہ کرے گی الا یہ کہ وہ خود اس سلسلے میں یا کسی مسئلہ کے سلسلے میں انصاف یا انتظام کی غرض سے مداخلت کا مطالبہ کریں۔
اسلامی معاشرہ میں ہر چند کہ خاندان مذہبی نہیں ہوتا، لیکن وہ ان حقوق، اختیارات اور فرائض میں کسی طرح کی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا جو اس نے شوہر بیوی، بچوں اور والدین کے لیے متعین کردیے ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو خاندان کی وہ شکل باقی نہ رہے گی جو اسلام کو مطلوب ہے۔ مثلاً آج کل بہت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ لوگ اپنی ماں اور بہنوں کا حصہ اپنی جائداد میں نہیں لگاتے۔ یہ شرعاً جرم اور ایماناً گناہ ہے۔ اسی طرح بیوی کو محکوم بناکر رکھنا اور اسے وہ مقام نہ دینا جو اسلام نے اسے عطا کیا ہے کسی صورت سے درست نہیں ہے۔ توازن و عدل اسلامی معاشرہ کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس کا لحاظ خاندان کے ہر فرد کو رکھنا ہوگا، تبھی خاندان کو وہ ہیئت نصیب ہوگی جو اسلام کی مقصود ہے۔
اختتامیہ
اسلام نے جو اصول و قواعد اور قوانین اسلامی معاشرہ کے لیے مقرر کیے ہیں ان سے یہ بات صاف طور پر عیاں ہوتی ہے کہ اس نے خاندان کو کوئی ایسی شکل دینے کی کوشش نہیں کی ہے جو حالات و ضروریات کو نظر انداز کردے۔ اس نے پہلی بار یہ کیا ہے کہ خاندان کے ہر رکن یا ممبر کو اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق حقوق و اختیارات دیے ہیں اور خاندان کو صحیح و مناسب انداز میں کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ہر رکن پر کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں تاکہ وہ اپنے فرائض ٹھیک طور پر ادا کرکے معاشرہ کو صحیح و صالح اسلامی شکل و ہیئت عطا کرسکے۔ جب بنیادی اینٹ یا اکائی ٹھیک ہوگی تو ان اکائیوں سے مل کر بننے والا معاشرہ بھی صحت مند اور تعمیری ہوگا۔ یہی معاشرہ اسلام کا مقصود ہے۔ اس کے فروغ پر ہی سچے مومن و مسلم کا انحصار ہے۔
اسلام نے کوئی دنیا سے نرالا خاندان نہیں بنایا ہے۔ اس نے بس اتنا کیا ہے کہ ایسے خاندان کا تصور دیا ہے جو ان خرابیوں، برائیوں، زیادتیوں، نا انصافیوں، توہمات، شرک، بت پرستی، غلط رسوم و رواج،ظالمانہ استحصال وغیرہ کو رفع کرتا ہے جن کو انسان نے اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے پروان چڑھایا ہے اور جن کی وجہ سے انسان برابر خسارے میں ہے۔ ان کی جگہ توحید، اسلامی اقدار، صلہ رحمی ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کا احترام، تعاون و اشتراک، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور ان کے تحفظ کا یقین پیدا کرتا ہے۔
یہی اسلامی معاشرہ کا مطلوب ہے کیونکہ اسی طرح انسان کے لیے امن و سکون کی سادہ زندگی گزارنا ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح وہ بڑے اعتماد کے ساتھ بے ریا ماحول میں سانس لے سکے گا۔ اور اسی طرح وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکے گا۔