بعض رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی ان کا مصداق بن جائے تو اندر سے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ مثلاً چچا،ماموں وغیرہ۔ پہلی بار ماموں بننے پر ہمیں بھی ایسی ہی خوشی ہوئی تھی بلکہ ہمارے دوستوں کو بھی خوشی ہوئی اور انھوں نے ہم سے مٹھائی بھی کھائی۔
ہمارا چھوٹا بھائی جب پہلی بار چچا بنا تو وہ بہت خوش تھا۔ لیکن بعض رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی سرخی آپ کی پیشانی پر لگ جائے تو شاید آپ کو اپنی بزرگی اور عمر درازی کا احساس ہونے لگے اور آپ یوں محسوس کرنے لگیں کہ اچانک آپ ایک ہی جست میں نوجوانی کی دہلیز کو پھلانگ کر بزرگی کے دیار میں قدم رکھ چکے ہیں۔ایسا ہی تجربہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں پہلی بار کسی بچے نے انکل کہہ کر پکارا۔اس وقت کے اپنے اندرونی رد عمل پر آج غور کرتے ہیں تو ٹی وی کا ایک اشتہار یاد آجاتا ہے۔ایک صاحب کے بال کم عمری میں سفید ہوجاتے ہیں اور یہ وبا آج عام ہو چکی ہے۔بچے انھیں انکل کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ گھر پہنچنے کے بعد بھی دیر تک بچوں کی یہ آواز انھیں اپنے کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور وہ فوراً بازار سے اشتہار والی کالی مہندی خرید کر اپنے بالوں پر لگاتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی بچہ انھیں انکل کہہ کر نہ پکار سکے۔ سو کچھ کچھ یہی کیفیت ہماری بھی ہوئی۔ ہم بازار سے کالی مہندی تو خرید کر نہیں لائے البتہ ہمیں یوں محسوس ہواجیسے ہم لمحہ بھر میں چالیس برس کی عمر کو بھی کراس کر چکے ہیں اور اب اس بچے کے سر پر ہمیں شفقت سے ہاتھ بھی رکھ دینا چاہیے اور ’جیتے رہو، خوش رہو‘ جیسی دعائیں بھی دینی چاہئیں۔
اس موقع پر ہماری طرح آپ نے بھی شاید یہ فیصلہ لینے کی کوشش کی ہو کہ اب کیوں کہ ہم خود بھی انکل کی صف میں شامل ہو چکے ہیں، اس لیے اب ہم کسی کو انکل نہیں کہیں گے۔ لیکن اس فیصلے کے بعد بھی ہمیں کافی دشواری یہ طے کرنے میں ہوئی کہ ہم اپنے بڑوں کو انکل نہ کہیں تو پھر کیا کہیں۔’انکلیت‘میں مشارکت کی وجہ سے انھیں بھائی صاحب بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ ایسا کہنے میں عمر کا تفاوت مانع تھا۔ اس موقع پر ہمیں اپنے ایک جاننے والے صاحب کا دلچسپ واقعہ یاد آگیا ہے۔ ایک بار وہ اپنے ایک استاد سے ملنے گئے۔ اس وقت استاذ محترم کے پاس چند اور شاگرد بھی موجود تھے۔ ان صاحب نے اپنے استاد محترم کو ’سر‘ ، ’ماسٹر جی‘ یا’ مولانا‘ ’حضرت جی‘ جیسے القاب سے مخاطب کرنے کے بجائے انھیں (ان کے نام کے ساتھ) بھائی لگا کر مخاطب کیا۔ استاد محترم بھی ایک لمحے کے لیے چونکے لیکن خاموش رہے کہ شاید بے خیالی میں ایسا کہہ گئے، لیکن وہاں پہلے سے موجود شاگردوں میں سے ایک نے ان صاحب کو احساس دلایا کہ آپ غلطی سے اپنے استاد کو بھائی کہہ گئے لیکن ان صاحب نے فوراً اپنے شاگرد بھائی کی غلط فہمی دور کردی۔ بولے: ’’در اصل وہ (استاد محترم)جس نظریاتی تحریک کے ممبر ہیں ، میں بھی اب اس کا ممبر بن گیا ہوں۔ اور اس’ ممبریت‘میں مشارکت کی وجہ سے ہم دونوں بھائی ہو گئے ہیں۔‘‘ بہر حال ہم اپنے بزرگوں کو اس طرح اپنا بھائی تو نہیں بنا پائے، لیکن بہر حال کسی نہ کسی طرح ہم نے یہ مسئلہ حل کرہی لیا۔
اس سے بھی زیادہ ’پریشان کن ‘مرحلہ ہمارے لیے شادی کے فوراً بعد آیا۔ شادی کے محض دو روز بعد ہی جب چھوٹے چھوٹے بچوں نے ہمیں پھوپھا اور خالو کہہ کر پکارا۔ بلکہ ایک صاحب زادے نے تو اس بات کا بھی انتظار نہیں کیا کہ نکاح کی رسم ہوجانے دیتے۔ انھوں نے ہمیں نکاح کے اسٹیج پر بیٹھے دیکھا ، فوراً بھاگے بھاگے آئے اور ہمیں پھوپھا کا لقب عطا فرما گئے۔ تو ہمیں لگا کہ ہمارے سر کے بال کھچڑی ہوگئے ہیں اور چہرے پر دو چار جھریاں بھی آنے لگی ہیں۔ شاید ایسا محسوس ہونے کی وجہ یہ رہی ہو کہ ہمارے جتنے بھی پھوپھائوں اور خالوئوں کی تصویرہمارے ذہن میں محفوظ تھی وہ سب کافی عمر والے تھے۔ لیکن صاحب یہ رشتے ایسے ہیں کہ ایک بار آپ ان سے منسلک ہو گئے تو تا زندگی انھیں نبھانا ضروری ہو جاتا ہے۔البتہ جب ہم پہلی بار ’ابّا‘ بنے تو یہ بتانا مشکل ہے کہ ہم مذکورہ بالا دونوں تجربات میں سے کس سے دوچار ہوئے۔ شاید پہلے سے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس موقع پر ہمارا تاثر ناقابل بیان تھا۔ اگر آپ ’ابّا‘ بن چکے ہیں تو آپ اس تاثر سے خود بھی واقف ہوں گے اور اگر نہیں بنے ہیں تو انتظار کیجیے ابّا بننے تک، کیوں کہ اس کیفیت کا آپ کو صحیح اندازہ اسی وقت ہو سکے گا۔ تاہم اس رشتہ’ٔ ابّائیت ‘اور دوسرے رشتوں میں اتنا فرق ضرور ہمیں محسوس ہوا کہ باقی رشتوں کا آپ کی زندگی پر محض اتنا اثر ہوتا ہے کہ ان سے سماج میں آپ کا مقام بیس ، اکیس ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ رشتہ ایسا ہے کہ یہ اپنے ساتھ محبت وشفقت کے جذبات لے کر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بے آب وگیاہ میدان میں پھول ہی پھول کھل اٹھے ہیں اور ان پھولوں کی مہک سے سارا جہاں معطر ہو گیا ہے۔آپ کی ہر کاوش اور زندگی کی ہر آرزو کاسرا اس رشتے سے وابستہ ہوجاتا ہے۔مستقبل کی منصوبہ بندی کا دائرہ اولاد کے گرد گردش کرنے لگتا ہے۔فرائض و واجبات متعین ہو جاتے ہیں۔ایک الگ قسم کا احساس ذمہ داری پیدا ہونے لگتا ہے۔بس یہی اس رشتے کی خاص بات ہے اور شاید اسی لیے اس رشتے سے متعلق تاثرات و احساسات کو نوک زبان یا نوک قلم پر لانا بہت مشکل ہے۔ بس مختصراً یہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے رشتے صرف اچھا یا بہت اچھا احساس دلاتے ہیں لیکن باپ بننے کا رشتہ محبت و شفقت، ذمہ داری و منصوبہ بندی کا احساس دلاتا ہے اور انسان کو زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ کرتا ہے۔