انٹرنیٹ پر عشق

ابوصارم

سالہ ڈیسمنڈ گریگور جنوبی آسٹریلیا کے قصبے ہویسٹن کا باسی ہے۔ مویشی پالتا اور اچھے خاصے ڈالر کماتا ہے۔ پچھلے سال اس کی بیوی چل بسی، تب سے وہ نئے جیون ساتھی کی تلاش میں تھا۔ اس سلسلے میں وہ دورِ جدید کی ایجاد، کمپیوٹر سے بھی مدد لینے لگا۔ وہ رات گئے مختلف ممالک کی عورتوں سے گفتگو (چیٹنگ) کرتا رہتا۔ آخر ایک لڑکی ’نتاشا‘ سے اس کا مزاج مل گیا۔

گو یہ لڑکی مالی کی تھی، مگر تعلقات بڑھ جانے کے بعد بذریعہ انٹرنیٹ نتاشا نے اپنی جو تصویر گریگور کو دکھائی، اس میں وہ خاصی حسین اور بھولی بھالی دوشیزہ لگتی تھی۔ بعدازاں ان کے درمیان ٹیلی فونک ملاقاتیں ہوئیں اور گریگور پر عشق کا بھوت سوار ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب نتاشا نے اسے مالی کے دارالحکومت بمباکو بلایا تو وہ بے سوچے سمجھے اس افریقی ملک روانہ ہوگیا۔

منصوبے کے مطابق ہوائی اڈے پر نتاشا کے بھائی نے اس کا استقبال کیا۔ گریگور نے اسے متاثر کرنے کے لیے بڑی خوش مزاجی دکھائی۔ ہوائی اڈے سے وہ ایک گھر پہنچے جو آبادی سے ذرا ہٹ کر واقع تھا۔ گریگور نتاشا سے ملنے کے لیے اس قدر بے چین تھا کہ وہ کچھ بھی محسوس نہ کرسکا۔ دونوں گھر میں داخل ہوئے تو نتاشا کے بھائی نے اسے مہمان خانے میں بٹھا کر بوتل پلائی۔ گریگور پھر بے تابی سے اپنی محبوبہ کا انتظار کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد نازک اندام نتاشا کے بجائے کرخت چہروں والے دو دیوہیکل پستولوں سے مسلح حبشی اندر داخل ہوئے۔ انھوںنے پستولوں کا رخ گریگور کی طرف کیا، تو اس کی سٹی گم ہوگئی۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ عشق میں اندھا ہوکر کسی مجرمانہ گروہ کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ ان آدمیوں نے گریگور سے کہا کہ اپنے بھائی ’فل‘ کو آسٹریلیا فون کرکے جلد از جلد ایک لاکھ ڈالر منگوائے ورنہ اس کی خیر نہیں۔

مرتا کیا نہ کرتا، گریگور نے بھائی کو فون کیا اور اسے سر پر پڑنے والی مصیبت کے بارے میں بتایا۔ بعد میں فل نے آسٹریلوی حکومت کو صورتِ حال بتائی، تو اس نے مالی کی حکومت سے رابطہ کرلیا۔ اوپر سے دباؤ پڑا، تو بمباکو پولیس سرگرمی سے گریگور اور اس کے اغوا کنندگان کو تلاش کرنے لگی۔ آخر مقامی جرائم پیشہ افراد کی مدد سے پولیس نے پتا چلا ہی لیا کہ گریگور کو کہاں چھپایا گیا ہے۔ پولیس جب وہاں پہنچی، تو دیکھا گھر خالی ہے اور رسیوں سے بندھا گریگور اسٹور میں پڑا ہے۔

آسٹریلوی ’مجنوں‘ کی خوش قسمتی تھی کہ اس کا واسطہ خونخوار مجرموں سے نہیں پڑا، ورنہ ’لیلیٰ‘ کے پالتو غنڈے کم از کم اس کے ہاتھ پیر سلامت نہ رہنے دیتے۔ دراصل جب گریگور کے بیگ میں پڑے دو ہزار ڈالر ان کے ہاتھ لگے، تو انھو ں نے اسی رقم کو غنیمت سمجھا اور پولیس کے آنے سے قبل رفو چکر ہوگئے۔

بے چارہ گریگور تباہ حال میں اپنے وطن پہنچا، گویا لوٹ کے بدھو گھر کو آئے! اب کوئی اس سے کہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی دوشیزہ سے دوستی کرلو، تو وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ ہمارے ملک کئی نوجوان غیر ملکی دوشیزاؤں سے محبت کی پینگیں بڑھا کر بیرونِ ملک کے خواب دیکھتے ہیں۔ انہیں گریگور کے واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وہ تو خوش قسمت تھا کہ اس کی جان بچ گئی لیکن ہر کسی کے ایسے نصیب نہیں ہوتے۔ گریگور کا کہنا ہے کہ بمباکو میں گزرے بارہ دن وہ ساری عمر نہیں بھول سکتا۔

(ماخوذ از اردو ڈائجسٹ، لاہور)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146