عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ رَضِی اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ: اَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِمَنْکَبِیْ: فَقَالَ: کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔
(بخاری، ترمذی)
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑا اور ارشاد فرمایا: دنیا میں اس طرح رہو گیا تم اجنبی ہو یا مسافر۔‘‘
اس حدیث میں دنیا کو برتنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ ہر عقلمند انسان دورانِ سفر کم سےکم سامان رکھتا ہے۔ زیادہ بوجھ سمیٹنے اور اٹھانے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے کسی بھی انسان سے اس بات کی توقع نہیں ہوتی کہ وہ اس سے حسنِ سلوک کا معاملہ کرےگا۔ مسافر کو آرام و آسائش میسر ہونے کی بھی توقع نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اس کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے۔ یہی چیز اس حدیث میں بتائی گئی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ہم بہت زیادہ بوجھ اٹھانے سے بچیں سب سے بڑا اور برا بوجھ برائیوں کا بوجھ ہے۔ یہ بوجھ روزِ قیامت ایک دشوار گزار پہاڑ ثابت ہوگا۔ اسے سر کرنے کے لیے نیکیوں کی قربانی دینی ہوگی۔ اس لیے کامیابی کا نسخہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق دنیا کو برتیں۔
دنیا میں انسان کی حیثیت اگر مسافر کی ہے تو یہاں کے عیش و آرام کی حیثیت محض ٹھنڈی چھاؤں کی ہے جس کی محبت میں مسافر گرفتار نہیں ہوتا بلکہ چند منٹ یا چند گھنٹوں اس چھاؤں میں آرام کرلینے کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اس حقیقت کو اللہ کے رسول ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’دنیا میں میری حیثیت ایک مسافر کی سی ہے جو کسی گھنے سایہ دار درخت کے نیچے کچھ دیر آرام کرنے کے لیے رکتا ہے اور پھر اپنی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔‘‘