اماں نسانوں کی پہلی درسگاہ اور اخلاق و کردار کا سانچہ ہے، جس میں انسانوں کی زندگیاں ڈھلتی اور عظمتوں، بلندیوں اور کارہائے نمایاں کی بنیادی رکھی جاتی ہیں۔یہاں سے نئی نسل کو خواب بھی ملتے ہیں اور ان کی تعبیر تلاش کرنے کا حوصلہ اور جذبہ بھی۔ جو مائیں اپنے بچوں کو خواب دکھا رک ان کی تعبیر کی تلاش کا حوصلہ اور جذبہ دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں وہی کامیاب مائیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر عظیم انسان کی عظمت اور اس کے بلند پایہ کارناموں کے پیچھے ماں کی شفقت، رہنمائی اور وہ تربیت ضرور رہی ہے جو بچپن میں اسے حاصل ہوئی۔ اس حیثیت سے ماں اگر اپنی ذات کی اہمیت کا ادراک کرے اور خود کو ایک مکمل اور کارگر ماں کی حیثیت سے تیار کرلے تو نہ صرف یہ اس کی معراج ہوگی بلکہ اس کی گود میں پلنے والی نسل کے بلند مرتبوں کی ضمانت اور کارگہہ حیات میں کارہائے نمایاں خدمات انجام پانے کا ذریعہ بھی ہوگی۔
اس کے برخلاف غافل، بے سلیقہ، فن تربیت و تعلیم سے ناآشنا اور ماں کے فرائض و واجبات سے ناواقف عورت اپنی نسلوں کو فکری و عملی افلاس اور زندگی کے میدان میں ناکامیوں کی کھائی میں دھکیلنے کا سبب بنے گی۔ ذرا ان ماؤں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیے جو پارٹ ٹائم مائیں ہیں یا جن کو زندگی کی تگ ودو اور عیش و عشرت نے گم کردئہ راہ بنادیا۔ ان کی نسلوں کا کیا حال ہے۔ مغربی دنیا اس کی واضح مثال ہے جہاں ماؤں کی شفقت و محبت اور تربیت و نگرانی سے محروم بچے جرائم کی دنیا کے بڑے بڑے ڈان بن رہے ہیں اور وہ حکومتوں اور اپنے معاشروں کے لیے درد سر ہی نہیں بلکہ سماج کا کینسر بن رہے ہیں۔
ذیل میں ماں کی شخصیت کے چند پہلوؤں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ ہماری خواتین ان پہلوؤں کا بھر پور جائز لیں اور ان پہلوؤں سے خود کو مضبوط، مستحکم اور کامل بنانے کی فکر کریں۔
مشفق مربی
ماں کی شخصیت کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو اس کی اولاد کے لیے شفقت و محبت ہے۔ ماں کی فطری شفقت و محبت ہی وہ خوبی ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر آخری دم تک اولاد کی خدمت میں مصروف رکھتی ہے۔ اولاد کی محبت میں ایک ماں کیسی کیسی مشقتیں اٹھاتی ہے بلکہ اپنی زندگی، اپنی خواہش اور عیش و آرام کو اولاد کی محبت پر قربان کردیتی ہے۔یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے۔
’’اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف، تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو اور ان کے لیے خاکساری اوررحمت کے بازو جھکائے رہو اور (ان کے لیے دعا کرو) کہ اے میرے رب ان پر رحمت فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں (شفقت و محبت سے) ہماری پرورش کی۔‘‘
ایک مرتبہ کسی صحابی نے اللہ کے رسول سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول میرے سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ نے تین مرتبہ فرمایا تمہاری ماں اور پھر چوتھی مرتبہ پوچھنے پر فرمایا تمہارا باپ۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے تین مرتبہ کہا : ’’کیا میں تمہیں بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں۔ صحابہ نے کہا ضرور یا رسول اللہ! اس پر آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا اور والدین کی نافرمانی و حق تلفی۔
قرآن کی یہ آیت اور اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تعلیمات یقینا والدین کے حقوق، ان کی عظمت اور ان کی نافرمانی کی وعید بیان کرتی ہیں لیکن ان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مائیں خصوصاً اور والدین عام طور پر ان اوصاف سے اپنی زندگیوں کو متصف کریں جو انہیں اس عظمت سے سرفراز کرتی ہیں۔
ماں کی ذات میں اللہ تعالیٰ اس قدر شفقت و محبت اسی لیے رکھی ہے کہ وہ اس کے ذریعے اولاد کی تربیت اور کردار سازی کا کام کرسکے ماں کی گود میں ہی کردار کی بلندی بھی پلتی تھی اور اخلاقی پستی بھی۔ وہیں حق گوئی اور عدل و انصاف کی بنیاد بھی پڑتی ہے اور بے ایمانی اور ظلم و زیادتی کی ابتدا بھی ہوتی ہے۔ وہیں خدا خوفی اور انسانیت سے محبت کے جذبات بھی پروان چڑھتے ہیں اور طغیان و بغاوت اور مجرمانہ ذہنیت کی بھی شروعات ہوتی ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے، ظلم کو مٹانے اور انسانیت کو فلاح و کامرانی سے ہم کنار کرنے کا عزم و حوصلہ بھی ملتا ہے اور دولت و شہرت کمانے اور اعلیٰ افسر بننے کی خواہش بھی پیدا کی جاتی ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار بھی وہیں سے آتا ہے اور تاریخ ہند کا بلند پایہ ڈاکو سلطانہ بھی اپنے فن کی شروعات وہیں سے کرتا ہے۔ خیر اور اچھائی کی پرورش بھی وہیں سے شروع ہوتی ہے اور شروبرائی کا پودا بھی اسی جگہ سے لگ جاتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ماں اپنی گود میں کون سے جذبات پروان چڑھاتی اور کون سے طبقہ کی پرورش کرتی ہے۔
عام ماؤں کی ترجیحات، افکار و خیالات اور زندگی کے ارادے اور عزائم کچھ بھی ہوں ایک اسلام پسند ماں کی خواہش اور کوششیں یہی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی ایسی صالح تربیت چاہے جو اسے دنیا میں خیرو فلاح اور عدل و انصاف کے قیام کا ذریعہ بنادے، کردار کی بلندی اور اخلاق میں رفعت ہو اور آخر کار وہ آخرت میں خود بھی کامیاب ہو اور ماں باپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے اور اس وقت جب ان کا زندگی سے رشتہ کٹ جائے تو ان کے لیے دعائے خیر کرے۔
ایک مرتبہ رسول ﷺ صحابہ کے ہمراہ کہیں جارہے تھے۔ راستہ میں ایک گھر سے گزر ہوا جہاں چولہا جل رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا بچہ رینگتا ہوا چولہے کی آگ کی طرف بڑھ رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ آگ میں ہاتھ ڈال دے کہ اس کی ماں دوڑتے ہوئے آئی اور اسے گود میں اٹھالیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ لوگو! کیا یہ ماں اپنے بچہ کو آگ میں جلتا ہوا دیکھ سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ماں اپنے بچہ کو آگ میں جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تو پھر اسے چاہیے کہ وہ اپنے بچہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے بھی فکر مند ہو۔
ایک مسلمان اور صاحبِ ایمان ماں اسی حیثیت سے عام ماؤں سے ممتاز اور منفرد ہوگی کہ وہ اپنی اولاد جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرتی ہے اور اس کی ایسی صالح تربیت کے لیے کوشاں ہوتی ہے جو آخرت میں اسے جہنم کے بجائے جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنے۔ یہی بات ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں توجہ دلائی ہے:’’لوگو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! تم میں ہر ایک ذمہ دار اور نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت ذمہ دار اور نگراں ہے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولاد کی اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
ماں کی شخصیت کا یہ پہلو اور زیادہ پھیلا ہوا اور وسیع ہے جس میں محبت و شفقت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ وہ تمام ذمہ داریاں بھی آتی ہیں جو ایک نگراں کی حیثیت سے کسی انسان پر عائد ہوتی ہیں۔ ماں اولاد کی نگراں ہے یعنی یہ اس کی شخصیت کا بنیادی پہلو ہے کہ وہ اولاد کے تمام امور پر متوجہ رہے۔ ان کے لباس و ضروریات زندگی سے لے کر ان کے اخلاق و کردار، حلقہ یاراں اور دوست احباب اور ان کے معاملات و اندازِ زندگی تک پر نظر رکھنا ماں کی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک ماں خود کو اولاد کے لیے بہترین نگراںاور ان کی ضروریات کے لیے بہترین منتظم ثابت کرے۔ اور بہترین نگراں اور بہترین منتظم کی حیثیت سے ماں کے اندر اولاد کے لیے انتہائی درجہ کا جذبہ شفقت و محبت درکار ہوتا ہے۔ بہ حیثیت مربی وہ کسی ڈنڈے باز استاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری انجام نہیں دے سکتی اور نہ ہی بہ حیثیت نگراں اور ذمہ دار کسی افسر کی طرح اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکتی ہے۔ اس کے لیے رحمت و مودت اور الفت و محبت کے جذبات بھی کارگر ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہوسکا تو ماں نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داریاں انجام نہ دے سکے گی بلکہ اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچانے میں بھی ناکام رہے گی جو ایک بڑا خسارہ ہوگا اور خود اس کی دنیا و آخرت کی تباہی پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔
ماں کی حیثیت سے اہم رول
ماں اپنی دل پذیر زبان میں بچوں کو لوریاں سنا کر، کہانیاں سنا کر اور میٹھی میٹھی باتوں کے ذریعے غیر محسوس انداز میں اپنے بچے کو خواب دکھاتی ہے اور بعد میں ان کی شخصیت انہی خوابوں کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے۔ ماں پیار سے پوچھتی بیٹا تم بڑے ہوکر کیا بنوگے؟ پھر خود ہی جواب بھی دیتی ہے۔ کچھ مائیں اونچے عہدوں، بلند امنگوں اور مال و دولت کے خواب دکھاتی یں اور کچھ مائیں زندہ و جاوید ہونے کے خواب دکھاتی ہیں۔ عبد القادر جیلانی نے یوں ہی اپنی اشرفیاں ڈاکوؤں کے سردار کے سامنے لاکر نہیں رکھ دیں۔ سید احمد شہید نے یوں ہی انی زندگی دین و وطن کے لیے قربان کردی، جو ہر برادران نے یوں ہی خود کو قید و بند اور آزمائشوں میں نہیں جھونک دیا اور حسن البنا شہید اور شید قطب نے یوں اس دین کے لیے جان نہیں لگا دی۔ انھوں نے اسی کے خواب دیکھے تھے اور ان کی ماؤں نے انہیں اسی لیے پالا تھا اور یہی سکھایا تھا۔
بہ حیثیت ماں اور بہ حیثیت مربی ہمیں بھی اپنی نسلوں کو عظیم خواب دکھانے میں اور ان کی تعبیر کی تلاش عورت کے لیے زندگی لگا دینے کا جذبہ بھر دینا ہے۔ دنیا کو بدل دینے کے خواب، ظلم و ستم کے خاتمے کے خواب اور بلند کردار بننے کے خواب کہ کردار کے پختہ اور نڈر و بہادر بن جائیں، ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا داعیہ ان کے اندر بیدار ہوجائے اور انسانوں سے محبت اور ان کی فلاح و کامرانی کی وجہ سے وہ اپنی زندگیاں اس راہ میں لگا دیں۔
بلندیوں کے خواب دکھانے کے لیے فکر و خیال کی بلندی، جذبہ کی پاکیزگی اور قلب و نظر کی وسعت درکار ہوتی ہے اور یہ بلندی و وسعت ماؤں کی اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی۔ اگر یہ پیدا نہ ہوسکی تو جان لیجیے کہ پست خیالی فکر کی سطحیت اولاد کو بلندیوں پر پہنچنے ہی نہیں دے گی۔