گھر کے اندر کی کیفیت کا اندازہ صحن کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ بوڑھے اور تجربہ کار لوگوں کا کہنا بھی ہے کہ ’’گھر کی حالت آنگن بولے‘‘ گھر کی عورت کتنی سلیقہ مند اور سگھڑ ہے یہ گھر کے رکھ رکھاؤ کو دیکھتے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت خانہ داری سے واقف بھی ہو اور دلچسپی بھی لیتی ہو۔ لفظ خانہ داری آتے ہی عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ عورتوں کی ذمہ داری ہے ۔ حالانکہ اس طرح کی سوچ غلط ہے۔ گھر کے ماحول کو بہتر بنانے یا گھر کے انتظامات کو بہ حسن و خوبی چلانے میں مردوں اور عورتوں دونوں کی برابر ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن کچھ خاص امور ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطرتاً عورتوں کے ذمہ کردیا ہے۔ مثلاً بچوں کی تربیت ، گھر کو صاف ستھرا رکھنا، کھانے پینے کا نظم چلانا وغیرہ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اچھی خاتون گھر کو جنت کا نمونہ بناسکتی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے جس کے اندر کفایت شعاری، سلیقہ مندی، خوش اخلاقی، تہذیب اور صفائی ستھرائی کا مادہ پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے گھر کو جنت کا نمونہ اور دلکش چمن بناسکتی ہے۔ وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرکے کم سے کم آمدنی میں بھی بہترین انداز میں گھر چلاسکتی ہے، شائستگی کا مظاہرہ کرسکتی اور بچوں کے اندر اسلامی صفات اعلیٰ پیمانہ پر پروان چڑھا سکتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی نامو رہستیاں پیدا ہوئی ہیں ان کی تربیت اور ان کو اعلیٰ مقامات تک پہنچانے میں ایک عورت ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ایسی عورت جس کے اندر سلیقہ نہ ہو، امور خانہ داری سے نہ واقفیت ہو اورنہ دلچسپی، بلکہ فضول خرچی کی عادت ہو، گھر کی ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو تو لاکھوں روپئے کی آمدنی میں بھی وہ گھر کو گھر نہیں بناسکتے گی نتیجتاً گھر کے اندر افراتفری، بے اطمینانی اور پراگندگی نظر آئے گی۔ بچوں کی تربیت نہیں ہوسکے گی، آوارگی اور دیگر خرابیاں گھر کے اندر داخل ہوجائیں گی اور پورا گھر جہنم کا نمونہ بن کے رہ جائے گا۔
یہ بات طے ہے کہ گھریلو اور ازدواجی زندگی میں خوشی و مسرت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ گھر کی خاتون کس قدرسلیقہ مند، صبر و ضبط کی حامل، تیز رفتار کام کرنے والی اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے، خاتون خانہ کے ذمہ محض گھریلو معاملات کی دیکھ بھال جیسے بچوں کے کام، کھانا پکانا اور اس طرح کی دوسری چیزیں ہی نہیں ہوتیں بلکہ گھر میں موجود بوڑھے اور بزرگ افراد کی ضروریات کی تکمیل اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک، رشتہ داروں سے بہتر تعلقات اور مہمانوں کی ضیافت، شوہروں اور بھائی بہنوں کی ضروریات کی تکمیل اور ان کے ساتھ محبت سے رہنا جیسے معاملات بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ان سے کسی بھی گوشہ سے غفلت ایک طرف تو گھریلو تنظیم کے بکھراؤ کا سبب بن سکتی ہے دوسری طرف خود خاتون کی شخصیت اس کی ذات اور اس کی شناخت تباہ کن ہوتی ہے۔ اس کے لیے درج ذیل چیزوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے:
رشتہ داروں کا خیال
گھر کی سربراہ خاتون کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے لوگوں کو محبت اور الفت کی لڑی میں پروئے رکھے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دے اور سب کو ان کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف متوجہ رکھے۔ گھر کے بزرگوں، بوڑھے ساس سسر یا شوہر کے دادا دادی وغیرہ کا دھیان رکھنا اور دن بھر کی مصروفیات میں سے چند منٹ ہی سہی ان سے گفتگو کے لیے نکالنا بڑا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر غیر شادی شدہ نندیں ہیں تو ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اور ان کی تعلیم و تربیت پر بھی اسی طرح متوجہ رہنا جس طرح اپنے بچوں پر توجہ دی جاتی ہے ان کے دل میں آپ کے لیے انتہائی قدر اور محبت کے جذبات پیدا کردے گا۔ شوہر کی ضروریات اور اس کے کاموں پر بھی نظر رکھنا گھر کی ایک اچھی سربراہ کے لیے ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سب کی ضرورتوں میں اور سب کے ساتھ حسن سلوک میں شوہر نظر انداز ہوجائے۔ اسی طرح گھر آنے والے رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا بھی رشتوں ناطوں کو مضبوط بناتا اور خاندان کو مستحکم کرتا ہے۔
کچن پر توجہ
خاتون خانہ کا اہم محاذ گھر کا باورچی خانہ ہوتا ہے۔ چھوٹے خاندان میں اگر چند افراد کا کھانا تیار ہوتا ہو تب بھی ضروری ہے کہ کھانا پکانے میں حسبِ استطاعت اہتمام اور سلیقہ مندی کا مظاہرہ کیا جائے اور چیزوں کو کم خرچ میں ہی بہتر سے بہتر انداز میں بنانے کی کوشش کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ شوہر کے دل کا راستہ منھ سے ہوکر جاتا ہے۔ یعنی لذیذ پکوان دل میں قدر پیدا کرتے ہیں۔ یہ بات صرف شوہر ہی کے سلسلے میں نہیں بلکہ گھر کے تمام افراد آپ کی قدر کریں گے، اگر آپ کھانا پکا نے میں مہارت رکھتی ہیں۔ واضح رہے کہ محض چکن اور مٹن و مچھلی وغیرہ ہی نہیں بلکہ معمولی معمولی تصور کی جانے والی اشیاء کو لذیذ انداز میں پکانا آپ کا کمال ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اگرکچن کے کاموں میں مہارت نہیں ہے تو اس میدان میں مہارت حاصل کریں کیونکہ یہ شوہر اور اہل خانہ کے دل جیتنے کا اہم ذریعہ ہے۔
کاموں میں مشورہ اور شرکت
بڑے اورمشترک خاندانوں میں بعض اوقات ہی نہیں اکثر مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ کاموں کی کثرت، افراد کی بڑی تعداد اور مختلف لوگوں کے مختلف اوقات الگ مسائل پیدا کرتے ہیں۔ بڑے اور مشترک خاندانوں میں شکوے شکایات کا ہونا بھی عین ممکن ہے۔ اس لیے گھر کی سربراہ کے لیے لازمی ہے کہ گھر کے کاموں کو باہمی مشوروں سے طے کرے اور گھر کے اہم فیصلوں میں دیگر خواتین مثلاً دیورانی، نندوں یا ساس وغیرہ کو بھی شریک کرے۔ اس طرح کاموں کی کثرت سے نمٹنے کے لیے جہاں وقت کی صحیح تنظیم ضروری ہے وہیں کاموں میں دوسروں کو شریک کرنا بھی اہم ہے۔ کاموں کو تقسیم کرکے ذمہ داریاں گھر کی دیگر خواتین اور نوعمر لڑکیوں پر ڈالی جاسکتی ہیں اور کاموں کا بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح شکوے شکایات کا سدباب بھی ممکن ہے اور کاموں کے بوجھ سے نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اہل خانہ کی تربیت
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پھر فرمایا: عورت ذمہ دار ہے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی۔ یعنی گھر کی سربراہ عورت سے اہل خانہ کے بارے میں سوال ہوگا کہ ان کے سلسلہ کی ذمہ دایوں کو صحیح طور پر انجام دیا یا نہیں۔
اہل خانہ کے سلسلے میں خاتون خانہ کی ذمہ داری صر ف یہی نہیں ہے کہ وہ ان کے لیے وقت پر اور بہترین کھانے کا انتظام کرے، ان کے لیے کپڑے اور دیگر ضروریات فراہم کرے اور بچوں کی تعلیم اور ان کی دیگر ضرورتوں پر نظر رکھے بلکہ یہ بھی ذمہ داری ہے اور اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو جہنم کی آگ سے بچائے۔چنانچہ خاتون خانہ کی اہم ذمہ داری اہل خاندان کی دینی تربیت و ذہن سازی اور اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت بھی ہے۔ اس کے لیے جہاں ہر وقت متوجہ رہنے کی ضرورت ہے وہیں باقاعدہ انداز میں اہل خانہ کے لیے تربیت اور تذکیری پروگرام منعقد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے چند منٹ کا گھریلو اجتماع ضرور ہونا چاہیے اور چند منٹ ہی سہی تمام لوگوں کو دین کی ضروری اور اہم باتیں بتائی جانی چاہئیں۔
ایک اسلام پسند خاتون اور ذمہ دار عورت کی حیثیت سے اگر آپ اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو اس اہم ذمہ داری سے غفلت ممکن نہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سے سوال کرے گا کہ تم نے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے کیا کچھ کیا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود ہم اس سوال کا جواب دینے میں ناکام ہوجائیں۔