موجودہ دور نے انسانی زندگی کو جہاں آسانیاں فراہم کی ہیں وہیں مختلف قسم کی الجھنوں اور پریشانیوں میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ ِیہی وجہ ہے کہ آج ہم تمام آسانیوں کے با وجود الجھے ہوئے ہیں اور زندگی کو آسان بنانے والی ہر شے نے زندگی کواور زیادہ دشوار بنادیا ہے۔ ذہنی پیچیدگی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بالکل فطری ہے، کیونکہ عام آدمی اپنے ذہن کی تربیت و تہذیب اورزندگی اور مسائل زندگی کے تجزیے میں ناکام ہے اور اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ زندگی اور مقصد زندگی کے بارے کچھ سوچ ہی نہیں رہا۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے بنیادی چیز سوچ ہے۔ سوچ ہی کی بنیاد پر ہمارے رویوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ رویہ یعنی طرزِعمل۔ ہم کسی بھی معاملے میں کیا کریں گے اِس کا تعین ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔
ہمارامعاشرہ بہت سی معاشی اور معاشرتی پیچیدگیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ تمام پیچیدگیاں ایک دوسرے پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ کہیں معاشرتی خرابیاں معاشی الجھنیں بڑھارہی ہیں اور کہیں معاشرتی پیچیدگیوں کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ تمام معاملات آپس میں ایسے الجھ گئے ہیں کہ کئی باتوں کا تو سِرا ہی ہاتھ نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہے کہ معاملات کو سمجھنا با لکل مشکل یا ناممکن ہے۔
آج بہت سی رکاوٹیں ہماری زندگی کے سکون کو خراب کررہی ہیں۔ یہ رکاوٹیں رجحانات اور عادتوں کی شکل میں ہیں۔ معاشرے کی مجموعی روش یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے بس وہی ہم بھی کرنے کا سوچتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی نقّالی اور ایک دوسرے کے ساتھ نام نہاد معیار زندگی کی ہوڑ کو زندگی بسر کرنے کا بہترین طریقہ سمجھ کر اپنی روش بنا بیٹھے ہیں۔ قناعت و میانہ روی اور’’ جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلانے‘‘ کے سنہری اصول کو چھوڑ دیا ہے۔
اب معاشی معاملات ہی کو لیجیے۔ ہم نے کم و بیش تین عشروں میں ایک ایسی روش کو اپنایا ہے جو کسی بھی اعتبار سے معقول ہے نہ سُودمند۔ آج بیشتر افراد اپنی آمدنی کی طرف دیکھے بغیر خرچ کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ اور ذریعہ ہے بہ آسانی ملنے والا وہ قرض جوکنزیومر اشیاء بنانے والی کمپنیاں اورقرض دینے والے سرمایہ دار معاشرے کو بانٹ رہے ہیں تاکہ ان کی مصنوعات لوگوں کی دسترس میں آجائیں اور وہ انہیں بیچ کر منافع میں اضافہ کر سکیں۔ اِسے کہتے ہیں کنزیومر اِزم، یعنی زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا۔ یہ سوچے بنا کہ ان کی آمدنی اس بات کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ یہ محض رجحان نہیں بلکہ بیماری ہے، اور بیماری بھی ایسی جو ہمارے ذہنی سکون و چین کی جان لے کر ٹلے۔ آج پورا معاشرہ کنزیومر اِزم کے شکنجے میں ہے۔ اس میں دیہی اور شہری ماحول کی بھی کچھ قید نہیں رہ گئی ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک ایسی سہولت ہاتھ لگ گئی ہے جس نے زندگی کو آسان کر دیا ہے۔ یہ سہولت ہے اُدھار کی۔ آج کسی بھی چیز کو بہت آسانی سے محض برائے نام ابتدائی قسط ادا کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ بہت محدود پیمانے پر تھا لیکن مالیاتی اداروں نے اس معاملے کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔ کریڈٹ کارڈز نے یہ معاملہ بہت پیچیدہ کردیا ہے۔ مالیاتی اداروں نے لوگون کو اُکسایا کہ جہیز بھی اُدھار کی بنیاد پر خریدا جاسکتا ہے۔ بیٹی کی رخصتی کے بعد چار پانچ سال تک ادائیگی کرتے رہیے۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں نے ٹی وی، ریفریجریٹر، موٹر سائیکل، ایئر کنڈیشنراور کاریں تک اُدھار لے کر جہیز میں دینا شروع کردیا۔ جنہیں کسی چیز کی کچھ خاص ضرورت بھی نہیں تھی انہوں نے بھی اُدھار کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں اپنے آپ کو قرض میں پھنسانا شروع کردیا۔
انسان مزاجاً ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ جب اسے کوئی چیزآسانی سے مل رہی ہو تو فوراً اُس کی طرف لپکتا ہے اور یہ نہیں سوچ پاتا کہ یہ سرمایہ داروں کا بچھایا گیا جال ہے۔ دنیا بھر میں کننریومر اِزم کو پروان چڑھانے کے لیے کاروباری اداروں نے یہی جال تو بچھایا ہے۔ اگر اس وقت آپ کے اندر مالی اعتبار سےخریدنے کی سکت نہیں تو کوئی بات نہیں، فی الحال خرید لیجیے، پیسے بعد میں دیتے رہیے گا۔ دنیا بھر میں یہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ مغرب میں اس کلچر کو پہلے تو خوب پروان چڑھایا گیا پھر سخت قواعد و ضوابط کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روش ابھی تک صرف پروان چڑھائی جارہی ہے اور متعلقہ قواعد و ضوابط کے ذریعے معاملات کو قابو میں رکھنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔اِس سے بڑی نادانی یہ ہے کہ سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی ، نہ تو افراد سوچتے ہیں اور نہ ہی حکومتیں چاہتی ہیں کہ لوگ اس بارے میں سوچیں۔
لوگوں نے اپنی آمدنی ذہن میں رکھے بغیر قسطوں پر گاڑیاں اور گھرخریدےاور بعد میں جب مالی سکت جواب دے گئی تب وہی گاڑیاں اور گھر فائنانس کرنے والوں نےضبط بھی کرلئے۔ یہ سراسر خسارے کا سودا تھا۔ بات حرام و حلال سے ہٹ کر صرف منطق اور عملی زندگی کی ہورہی ہے اگرچہ اکثر چیزوں میں سودی نظام کار فرما ہے مگر بعض صورتوں میں اس کا جواز بھی ،مگر یہ بات ہے تو منطق اور عملی زندگی کے تقاضوں کے خلاف ہی۔ اب اگر کوئی محض ساٹھ ستّر ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ کے ساتھ مہنگی اشیاء خرید کر اپنا معیار زندگی وہ ظاہر کرنا چاہے جو نہیں ہے تو ذہنی الجھنیں اور گھریلو مشکلات کو دعوت تو دے گا ہی۔ بروقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں خریدی ہوئی چیزکا ہاتھ سے چلے جانا یا ضبط کر لیا جانا الگ ذہنی اذیت اور رسوائی سی دوچار کرتا ہے۔
آج خریدیے، کل ادائیگی کیجیے۔ یہ بات کتنی سادہ سی لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس سادہ سی بات نے پورے معاشرے اور معاشرتی اخلاقیات کو تلپٹ کردیا ہے۔ لوگ اپنی آمدنی سے زائد خرچ کر ڈالنےمیں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتےاور یہ بھی نہیں سوچتے کہ دیگر ضروری چیزوں کے لیے مالی وسائل کہاں سے لائیں گے اور پھرمعاشی دشواریوں کا شکوہ کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ اُدھار کے کلچر نے گھروں کو غیر ضروری اشیاء اور بے سکونی اور معاشی الجھنوں سے بھردیا ہے۔
اسلام ہمیں اس بارے میں واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن کریم میں کئی جگہ معاشی زندگی سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں اور ان کا نچوڑ یہ ہے کہ ہمیں اپنی معاشی زندگی میں درمیانی روش اختیار کرنی چاہئے۔ سورۃ اسراء میں ایک جگہ اہل قرابت کا حق ادا کرنے اور ’’تبذیر‘‘ یعنی فضول خرچی سے منع فرمایا گیا اور ساتھ ہی فضول خرچ لوگوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اسی سورۃ میں آگے کہا گیا :’’ اپنے ہاتھ نہ تو بالکل گردن سے باندھ لو اور نہ ہی ایسے کھلا چھوڑ دو کہ ملامت کا شکار رہو اور بالکل عاجز اور بے دست و پا بن کر رہ جاؤ۔ یہاں ہاتھ باندھنا کنایہ ہے بخل کا اور اور کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے فضول خرچی۔‘‘
قرآن مجید میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت کا ذکر بڑے خاص انداز میں کیا گیا ہے۔ ان نصیحتوں میں جہاں کئی قیمتی اور زندگی کو سنوارنے اور سجانے واکی نصیحتیں ہیں وہیں ایک نصیحت یہ بھی ہےکہ:
ترجمہ: رحمان کے بندے وہ ہیں کہ وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ تو وہ اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں اورنہ بخل سے کام لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی راہ اختیار کرتے ہیں۔( الفرقان ۶۷)
اللہ کے رسولؐ نے ایک مرتبہ فرمایا: خود کو امن میں آنے کے بعد خوف میں مبتلا نہ کرو۔ صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول یہ خوف کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا: قرض۔
قرض بعض اوقات انسان کی ضرورت بھی ہو جاتا ہے مگر یہ کتنےاہم اور ضروری کام کے لئے لیا جارہا ہے یہ فیصلہ تو ہم خود ہی کرتےہیں اور یہ بھی ہم خود ہی طے کرتے ہیں کہ یہ قرض کس سے اور کن شرائط پر لینا ہے۔ اس سلسلے میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اسلام سودی قرضوں کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اب یہ فیصلہ بھی ہمارے ہی ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں اور کس لئے؟
قرض بہ ہر حال قرض ہے خواہ وہ آسانی سے میسر آجائے یا بڑی مشکلوں سے۔ اس کی ادائگی ایک ذمہ دار اور اللہ کے سامنے جواب دہ بندے کے لئے بڑی ذمہ داری ہے۔ بینکوں اور فائنانسرس کے ذریعہ دیا جانے والا قرض بھی قرض ہی ہے اور اسکی بہ ہر حال ادائیگی کرنی ہے اس پر مستزاد یہ کہ اس میں سود بھی شامل ہے جس کی حرمت واضح ہے اس لئے اس سلسلے میں کوئی اقدام کرنے سے پہلے سو بار سوچ لینا چاہئے اس لئے کہ اس ’’آسان قرض‘‘ کی وجہ سے کتنے ہی سفید پوش افراد کی عزت و وقار داو پر لگ گئے اور ان کی معاشی زندگی بحران سے دوچار ہوگئی۔ اسی بات کو رسول پاک نے امن سے خوف کی طرف خود چل کر جانا قرار دیا ہے اور بچنے کی تلقین کی ہے۔l