کھانے میں حلال اور طیب کی اہمیت و ضرورت

ڈاکٹر محمد اسلم

ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف صاف ستھرا یا حلال ہی نہیں، پاک بھی ہو۔ ہم کوئی بھی کھانے کی چیز بازار سے لینے جائیں تو خواہش ہوتی ہے کہ وہ حلال ہو اور بیرونِ ملک بھی ہم صرف حلال کھانا ڈھونڈتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ وہ حلال ہونے کے ساتھ ساتھ پاک بھی ہے یا نہیں؟ جی ہاں! ضروری نہیں کہ ہر حلال کھانا پاک بھی ہو۔ اس بارے میں دینِ اسلام سے راہنمائی لینا ازحد ضروری ہے۔
قرآنِ عظیم کے مطابق کھانا پانچ طرح کا ہوتا ہے:
حلال، طیب، ازکیٰ، حرام اَور خبیث۔یہ ضروری ہے کہ پہلے ہم حلال اور حرام کے فرق کو سمجھ لیں۔ حرام کھانے اجمالاً چار اور تفصیلاً دس ہیں۔ اجمالاً چار محرمات درج ذیل ہیں:’’اِس (اللہ) نے تمہارے لیے مردار اَور خون اَور سور کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام کر دیا ہے۔ ہاں اگر کوئی انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو (اور اِن چیزوں میں سے کچھ کھا لے) جبکہ اِس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اَور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اِس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقیناً اللہ بخشنے والا اور رَحم کرنے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۱۷۳)
اس آیت سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اِن محرمات کے علاوہ باقی ہر چیز حلال ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ باقی تمام چیزوں میں سے کون کون سی چیزیں حلال ہیں، اِس کے لیے سورہ المائدہ میں ایک اصول بیان کیا گیا ہے:’’آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اِن کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام طیب چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں۔‘‘ (المائدہ ۵:۴)
’’آج تمہارے لیے تمام طیب چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘ (المائدہ ۵:۵)
اِن آیات سے واضح ہے کہ طیب چیزیں حلال اور تمام خبیث چیزیں حرام ہیں۔ قرآنِ عظیم میں طیب اور خبیث چیزوں کی فہرست بیان نہیں ہوئی بلکہ اِس کو کھلا چھوڑ دِیا گیا ہے۔ طیب اور خبیث کے مفہوم اور فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
طیب کی تعریف
1- ہر وہ چیز جو ظاہری نجاستوں سے مکمل پاک صاف ہو۔ ایسی عمدہ، صاف ستھری اور خوشگوار کہ دیکھنے سے دل خوش ہو جائے۔ قرآنِ عظیم میں پاک یا پاکیزہ (معنی طیب) لفظ متعدد جگہ استعمال ہوا ہے۔
نجاست سے پاک مٹی (النسا ۴:۵)، پاکیزہ ہوا (کشتی کے لیے نرم اور موافق ہوا) (یونس ۱۰:۲۲) سخت ہوا (ناموافق ہوا جو کشتی کو الٹ دے) (یونس ۱۰:۲۲) پاکیزہ کلمہ، پاکیزہ درخت (ابراہیم ۱۴:۲۴) پاکیزہ زندگی (شرک، نفاق اور فِسق سے پاک) (النحل ۱۶:۹۷) سلام … بابرکت پاکیزہ تحفہ (النور ۲۴:۱۶) پاکیزہ شہر (صاف ستھرا، فرحت بخش) (سبا: ۱۵) جنت کے پاکیزہ مکانات (صف: ۱۲) پاکیزہ اَولاد (آلِ عمران ۳:۳۸)
اِن تمام آیات سے اگر ہم کھانے پینے کی چیزوں کے لیے طیب کا مفہوم اخذ کرنا چاہیں، تو کچھ اِس طرح بنتا ہے کہ طیب کھانا ایسا ہے جو دیکھنے میں صاف ستھرا ہو، اس کی بُو ٹھیک ہو، ذائقہ بھی درست ہو، صحت کے لیے موافق ہو، صحت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو اور جس برتن میں کھانا ہو وہ برتن بھی صاف ستھرا ہو۔ کسی بھی لفظ کا مفہوم اُس وقت زیادہ نکھر کر سامنے آتا ہے جب اِس کے مخالف لفظ کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔ طیب کا مخالف لفظ خبیث ہے۔
خبیث کی تعریف
یہ لفظ مادی اَور معنوی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مادی لحاظ سے ہر گندی، غلیظ، ردّی، ناکارہ گلی سڑی، بدبودار یا باسی چیز خبیث ہوتی ہے۔ ایسی چیز جو خراب یا عیب دار ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے خبیث چیزوں کو اپنی راہ میں صدقہ کرنے سے منع فرمایا ہے:
’’اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہو اَور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو، اِن چیزوں کا طیب حصّہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اَور یہ نیت نہ رکھو کہ بس خبیث قسم کی چیزیں (اللہ کی راہ میں) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے، تو نفرت کے مارے) تم اِسے آنکھیں بند کیے بغیر نہ لے سکو۔‘‘ (البقرہ ۲:۲۶۷)
کھانے کا طیب ہونا فرض ہے
ہر وہ بات فرض کے درجے میں ہے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا ہے۔ یہ حکم تو قرآنِ عظیم میں کئی مقامات پر ہے کہ صرف طیب چیزیں کھاؤ:
’’اے ایمان والو! اِن طیب چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں اور اَللہ کا شکر ادا کرو، اگر تم صرف اِسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘ (البقرہ ۲:۱۷۲)
اگر ہم کھانے کے حلال ہونے کے ساتھ ساتھ طیب ہونے کی پروا نہیں کرتے، تو پھر یہ بات ’اگر تم صرف اِسی کی عبادت کرتے ہو‘ کی نفی ہے۔ یہ اِس لیے کہ خبیث کھانا کھانے سے شیطان کی عبادت ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اِس حکم سے تجاوز کرنے سے اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔
کمزور سے کمزور اِیمان والا مسلمان بھی کھانے کے حلال ہونے کے بارے میں بڑا فکرمند رہتا ہے، مگر ’’مضبوط ایمان‘‘ والا مسلمان بھی کھانے کے طیب ہونے کے بارے میں فکرمند نہیں ہوتا، اِس طرف دھیان ہی نہیں جاتا! اِلا ماشاء اللہ۔ مغربی ملکوں کی دیکھا دیکھی اب مسلمان ملکوں کی بھی اکثر ڈبہ بند کھانے کی چیزوں یا مسالا جات وغیرہ پر ’’حلال‘‘ کا لفظ لکھا ہوتا ہے، مگر کیا آج تک کہیں ساتھ میں ’’طیب‘‘ بھی لکھا ہوا دَیکھا ہے؟ جبکہ قرآنِ عظیم کی ہدایت کے مطابق کھانا حلال ہونے کے ساتھ طیب بھی ہونا چاہیے۔
ارشادِ باری ہے:
’’لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال و طیب چیزیں ہیں، اِنھیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ ۲:۱۶۸)
غور طلب بات ہے کہ اِس آیت میں مخاطب صرف ایمان والے نہیں، بلکہ تمام انسان ہیں۔ جیسے ہر ایک انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اِس کی عبادت کرے، ایسے ہی حلال طیب کھانا کھانا بھی فطرتِ انسانی میں ہے۔
حلال و طیب اہم کیوں؟
اِس کا سادہ جواب تو یہی ہے کہ کھانے کا حلال ہونا انسان کے ایمان کی حفاظت کے لیے اور کھانے کا طیب ہونا انسان کی صحت کی حفاظت کے لیے ہے۔ دنیا کی زیادہ تر آبادی غیرمسلم ہے۔ وہ کھانے کے صاف ستھرا (طیب) ہونے کا تو بہت خیال رکھتے ہیں، مگر اِنھیں حلال حرام کا شعور نہیں۔ جبکہ حلال کی شرط پوری نہ ہونے سے انسان کا اللہ سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ ایمان کا تقاضا ہی یہ ہے کہ انسان اللہ کے ہر حکم کے آگے سر جھکا دے۔
اب رہی بات مسلمانوں کی، تو اِنھیں حلال حرام کا مسئلہ تو معلوم ہے، مگر بےشمار ایسے مسلمان ہیں جو کھانے کے طیب ہونے کے حکم سے لاعلم ہیں۔ کھانا اگر طیب نہیں، تو صحت تو جاتی ہی ہے، مگر ساتھ ہی ایمان بھی جاتا ہے، کیونکہ یہاں مسئلہ صرف صحت کا نہیں، بلکہ اللہ کے حکم کا ہے جو اتنا ہی اہم ہے جتنا کھانے کا حلال ہونا۔ اِس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ طیب ہے اور طیب چیزوں کو ہی قبول فرماتا ہے۔ اہلِ ایمان کو اِس نے اِس بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم اِس نے اپنے رسولوں کو دیا۔‘‘
چنانچہ قرآن میں فرمایا:
’’اے رسولو! طیب چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اِس کا مجھے علم ہے۔‘‘ (المومنون :۱۵)
اور فرمایا ’’اے ایمان والو! جو طیب چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں، اِنھیں کھاؤ۔‘‘ (البقرہ: ۱۷۲)
طیب کھانا کیسا ہو؟
کھانے پینے کی چیزوں کے طیب ہونے کے لیے ظاہری طور پر متعدد باتوں کا ہونا ضروری ہے:
1- کھانا یا پانی دیکھنے میں، سونگھنے اور ذائقہ میں درست ہونا چاہیے۔
2-جس برتن میں کھانا یا پانی ڈالا جائے، وہ صاف ستھرا ہو۔
3-جہاں کھانا پکایا جائے، وہاں کا ماحول صاف ستھرا ہونا چاہیے۔
4-برتن دھونے اور آٹا گوندھنے کے لیے طیب پانی استعمال کیا گیا ہو۔
5-جس کپڑے یا کاغذ میں روٹیاں لپیٹی جائیں، وہ طیب ہو۔
6-کھانا پکانے اور تقسیم کرنے والے افراد صاف ستھرے ہوں، ناخن بڑھے ہوئے نہ ہوں، کھانستے یا چھینکیں نہ مارتے پھرتے ہوں، ہاتھوں پر کوئی زخم نہ ہو۔
7-اگر ایک سے زیادہ اَفراد مل کر کھا رہے ہیں، تو کھانے میں جانے والے تمام ہاتھ صاف ہوں، کوئی شخص کھانے کے اُوپر ہو کر نہ کھائے (بعض لوگ لقمہ منہ میں ڈالتے وقت پلیٹ یا تھال کے اُوپر جھک جاتے ہیں جس سے کچھ کھانا اِن کے منہ سے واپس پلیٹ یا تھال میں گر جاتا ہے۔)
کھانا خبیث کیسے ہوتا ہے؟
1-جو کھانا دیکھنے یا سونگھنے سے ٹھیک نہ لگے یا ذائقہ خراب ہو۔ فریج میں رکھے کھانے بھی جلد خراب ہو جاتے ہیں، خصوصاً جب باربار کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہو۔ ڈبا یا پیکٹ بند چیزیں آخری تاریخ سے پہلے بھی خراب ہو سکتی ہیں، خصوصاً جہاں درجۂ حرارت زیادہ ہو یا پھر برسات کے موسم میں۔
2-کھانا یا پانی تو طیب ہو، مگر برتن گندا ہو یا برتن خراب پانی سے دھوئے گئے ہوں یا برتنوں کو دھونے کے بعد گندے کپڑے سے صاف کیا گیا ہو۔ بعض لوگ گلاس یا کپ اِس طرح اُٹھاتے ہیں کہ چار اُنگلیاں گلاس کے اندر ہوتی ہیں اور انگوٹھا باہر۔ ایسا کرنے سے بھی برتن گندا ہو جاتا ہے۔
3-روٹیاں لپیٹنے والا کپڑا یا اخباری کاغذ میلا یا بدبودار ہو۔
4-کھانا پکانے یا تقسیم کرنے والے لوگ بیت الخلا استعمال کر کے ہاتھ نہ دھوئیں۔
5-کھانا تو طیب ہو، مگر ڈھانپ کر نہ رکھا گیا ہو۔ کھانے پر مکھیاں بیٹھ رہی ہوں یا گرد و غبار اُڑ اُڑ کر اُس میں آ رہا ہو۔ اجتماعی کھانے کے وقت کوئی شخص چھینکیں مار رَہا ہو یا کھانس رہا ہو۔
6-گھر میں کام کرنے والی عورتیں اپنے ہاتھ بار بار اَپنے پہنے ہوئے میلے کپڑوں سے خشک کرتی ہیں اور اِنھی ہاتھوں سے باورچی خانے میں کام کرتی ہیں۔
7-جو چیزیں تلی جاتی ہیں، اُن کے لیے استعمال ہونے والا تیل، دو دَفعہ سے زیادہ استعمال کرنے سے خراب ہو جاتا ہے۔ اِس میں زہریلے مادے پیدا ہو جاتے ہیں جو خون کی نالیوں کو بند کرنے یا سرطان کا مؤجب بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں سموسے، پکوڑے اور فاسٹ فوڈ کے لیے استعمال ہونے والا تیل کئی دن تک سینکڑوں بار اِستعمال ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ یہ جلا ہوا تیل پھر ایسی فیکٹریوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صاف ہو کر واپس بازار میں دوبارہ استعمال ہونے کے لیے آ جاتا ہے۔
8-سڑک کنارے یا پُرہجوم مقامات پر کھانے پینے کے ٹھیلوں کی چیزیں بھی کئی وجوہات سے خبیث کے درجے میں آتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر برتن دھونے کے لیے کھلا پانی ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ پلیٹوں کو کپڑے سے صاف کر کے یا گندے پانی میں بار بار ڈبکیاں دینے سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔
بظاہر طیب مگر حقیقت میں خبیث:
کھانے پینے کی ایسی چیزوں سے بازار بھرے پڑے ہیں جو بظاہر تو بڑی نفیس اور لذیذ مگر طبی لحاظ سے صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ شرعی لحاظ سے یہ کھانے بھی خبیث کھانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
1-ملک میں شادی ہالوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ رش اِتنا کہ چھے چھے ماہ پہلے بکنگ کروانی پڑتی ہے۔ بریانی کی ڈش تقریباً ہر جگہ فہرستِ طعام میں شامل ہوتی ہے۔ کھانا کھایا کم اور ضائع زیادہ کیا جاتا ہے، لہٰذا بہت سارا کھانا پلیٹوں میں بچا رہتا ہے۔ اِس بچی ہوئی بریانی کو اُٹھانے کے ٹھیکے ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ٹھیکیدار بچی ہوئی بریانی اُٹھا کر اپنے ٹھکانے پر لاتے ہیں۔ کارندے اِس بریانی میں سے ہڈیاں اور ٹشو پیپر وغیرہ نکال کر الگ کر دیتے ہیں پھر یہی بریانی سڑک کنارے، کالجوں، عدالتوں، بس اسٹاپوں کے باہر کھڑے ٹھیلوں کو سپلائی کر دی جاتی ہے۔ وہ اِسے صاف تھال میں ڈال کر دوبارہ گرم کر کے مختلف ناموں سے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔
2-مصنوعی دودھ جو پانی میں خشک دُودھ، یوریا کھاد، شیمپو، ویجیٹیبل آئل اور سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ وغیرہ ملا کر تیار کیا جاتا ہے اس کی مثال ہے۔ اِس دُودھ کی بہ ظاہر شکل بالکل اصلی دُودھ جیسی ہوتی ہے۔ اِس پر بالائی بھی آتی اور دہی بھی بنتا ہے۔ یعنی اس کی اصل دُودھ سے پہچان کرنا نہایت مشکل ہے۔ یہ سخت مضرِ صحت ہے۔
3-ایک باورچی نے بتایا کہ گدھے کے گوشت میں خشک دھنیہ، اَنار دَانہ، الائچی، لونگ اور لہسن کا تڑکا لگانے سے گدھے کے گوشت کی مخصوص مہک ختم ہو جاتی اور وَہ بکرے کے گوشت سے بہتر ذائقہ دینے لگتا ہے۔ اِس کے علاوہ گدھے کے گوشت سے بنی قیمے والی ٹکیاں، قیمے بھرے نان، کوفتے اور تکہ بوٹیاں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔
4-بے ایمان تاجر اس طرح کی حرکت بھی کرتے ہوئے پکڑے گئے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسپورٹ کے دَوران جو مرغیاں مر جاتی ہیں، وہ ہوٹلوں اور دُکانوں کو نہایت سستے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔اس طرح حلال کے نام پر حرام خور لوگوں کو حرام کھلا دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی خدشات اور خطرات ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب ہم باہر سے کھانا کھاتے ہیں، تو ہم اپنی صحت کی قسمت دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ صرف اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ استعمال کیا گیا تیل سرطان کرنے والا نہ ہو، مرغی کو اچھی طرح دھویا گیا ہو یا بریانی میں خطرناک فوڈ کلر استعمال نہ کیے گئے ہوں اور جن برتنوں میں کھانا تیار کیا گیا ہو، وہ صاف طریقے سے دھوئے گئے ہوں۔ کچھ لوگ گندے ماحول میں تیار کیے گئے کھانے اور کھانے میں استعمال ہونے والے ناخالص اجزا کی وجہ سے اپنی صحت کے حوالے سے بھاری قیمت چکاتے ہیں۔
بازار میں70 فی صد خوراک ملاوٹ شدہ اور52 فی صد منرل واٹر غیرمحفوظ ہے۔ کھانوں میں غیر معیاری فوڈ کلر، تیل اور فلیور اِستعمال کیے جاتے ہیں۔
مسئلہ صرف گندے اجزا کا نہیں، بلکہ کھانے تیار کرنے والے افراد کا بھی ہے جو نہ دستانے پہنتے ہیں نہ سر ڈھانپتے ہیں بلکہ ِان کے جسم سے پسینہ بہ رہا ہوتا اور وہ گندے باورچی خانے میں کھانے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت نے ریستورانوں کے لیے پانچ معیار مقرر کیے ہیں:
1-کھانا بنانے اور تقسیم کرنے والے صاف ستھرے ہوں۔
2-باورچی خانہ صاف ستھرا ہو۔
3-پانی اور کھانے کے اجزا خالص ہوں۔
4-کھانا ٹھیک طرح پکایا (تیار کیا) گیا ہو۔
5-کھانا مناسب درجۂ حرارت پر رکھا کیا گیا ہو۔
سوچا جائے تو یہ سب اصُول اسلامی احکامات کے عین مطابق ہیں جن پر بحیثیت مسلمان سب سے پہلے ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ ایک فوڈ اِنسپکٹر ڈاکٹر نے بتایا کہ لوگ اگر بیکری کے گندے کچن کو دیکھ لیں جہاں بیکری کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں، تو وہ یہ چیزیں استعمال کرنے سے توبہ کر لیں۔
فوڈ اَتھارٹی کے چھاپوں کے دوران یہ بات دیکھی گئی کہ زیادہ تر ٹھیلوں پر بکنے والے کھانے غیرصحتمند تھے۔ وہاں صفائی نہ ہونے کے برابر اور گندا پانی استعمال ہوتا جبکہ اجزا انتہائی ناقص ہوتے ہیں۔
صحت کو سب سے زیادہ خطرہ اُنھی کھانوں سے ہے جو سڑک کنارے فروخت کیے جاتے ہیں۔یہ بیچنے والے نہ خود صاف ستھرے ہوتے ہیں اور نہ ہی اُن کا ماحول۔ صفائی ستھرائی کے معاملے میں اِن کا شعور صفر کے درجے پر ہوتا ہے۔ اِنھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کس کھانے کی کس چیز کو ٹھنڈا رکھنا ہے اور کسے گرم۔
قرآنِ عظیم میں طیب کھانا کھانے اور خبیث کھانوں سے بچنے کے جو احکامات ہیں وہ عین انسانوں کے مفاد میں اور ان کی صحت کے تحفظ کی ضمانت ہیں۔
انسانوں میں70 سے80 فی صد بیماریاں یا تو خبیث خوراک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا پھر غیر خالص اور ملاوٹی خوراک کی وجہ سے۔ اگر اس حقیقت کا پتہ لگانا ہو تو تو دنیا بھر میں پائی جانے والی بیماریوں اور ان کے اسباب جاننے کے لئے کبھی انٹرنیٹ پر سرچ کیجئے، آپ کو ہوش ربا حقائق دیکھنے کو ملیں گے۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 172، سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر 81 اَور سورۃ المومنون کی آیت نمبر 51 میں طیب چیزیں کھانے کا حکم ہے۔ جس طرح کھانے کی چیز کا حلال ہونا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ایسے ہی طیب ہونا بھی اللہ کا حکم اور فرض کے درجے میں ہے۔ نیز چیز کے حلال اور طیب ہونے کا اکٹھا حکم البقرہ 168، المائدہ 88 اَور النحل 114 آیات میں ہے:
البقرہ کی آیت نمبر168 سے واضح ہے کہ کھانے کے حلال اور طیب نہ ہونے سے انسان شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا کھانے کا کسی بھی لحاظ سے خبیث ہونا، نہ صرف انسان کو ایمان سے محروم کر دیتا بلکہ صحت بھی جاتی رہتی ہے۔
مسلمانوں کا عمومی المیہ یہ ہے کہ وہ حلال وحرام کے مسئلے میں تو بہت شدت اختیار کرتے ہیں، مگر چیزوں کے طیب اور ازکیٰ ہونے کی شرعی شرائط کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ یہ محض قرآنِ عظیم کی آیات میں غوروفکر کی کمی کی وجہ سے ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی یاد رَکھنے کی ہے کہ چیزیں اگر طیب اور خالص بھی ہوں، تب بھی اِنھیں پیٹ میں ٹھونس ٹھونس بھر کر کھانے کی اجازت نہیں کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ کا ایک اور حکم ہے:’’کھاؤ اور پیو اَور حد سے تجاوز نہ کرو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف:31)
کھانا اگر طیب اور اَزکیٰ کی صفات سے خالی ہو، تو انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور سنتِ رسول ﷺ پر عمل کرنے سے انسان کی صحت کی حفاظت ہوتی ہے۔ کھانے پینے کے معاملے میں اگر ہم طیب اور اَزکیٰ کے اصولوں کو ہمیشہ مدِنظر رکھیں تو اِس سے صحت کی حفاظت بھی ہو گی اور شیطان کی خواہش (خطوٰتِ الشیطان) کی نفی بھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146