عائلی زندگی اور حقوق و فرائض

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

کامیاب اور اچھی عائلی زندگی کا راز ایک دوسرے کے لیے حقوق و فرائض کے جاننے اور ان کے بہ حسن و خوبی ادا کرنے میں ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں بہت تفصیل سے عائلی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ہدایات موجود ہیں۔ وہیں خاندان کے افراد کے لیے حقوق و فرائض کا بھی بیان ہے۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی حقوق کی ادائیگی میں مراتب کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ خوش دلی ، عدل اور احسان کا معاملہ کرے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سبقت لے جانے والا ہو جائے تو یقینا ہمارے خاندان اور معاشرے میں ایک خوش گوار فضا قائم ہو جائے گی اور خاندان کے مختلف افراد کےمابین مزاج کے اختلاف کے باوجود ہم آہنگی اور اپنائیت کاجذبہ پیدا ہو گا جس سے خاندان کا کوئی بھی فرد دوسرے کے لئے مسئلہ نہیں بنے گا۔
عائلی زندگی کی ابتدائی شکل زوجین کا باہمی رضا مندی سے عقدِ نکاح میں بندھنا ہے۔ اس عقد کے ساتھ ہی دونوں حقوق و فرائض کے بندھن میں بھی بندھ جاتے ہیں۔چونکہ نکاح سے ایک خاندان کی بنیاد پڑتی ہے اس لئے قرآن و حدیث میں زوجین کے حقوق و ذمہ داریوں پر تفصیلی ہدایات موجو د ہیں جتنا خوبصورت یہ رشتہ ہو گا یقینا اتنا ہی بہتر خاندان وجود میں آئے گا۔
عمومی حقوق
کچھ ایسے حقوق ہیں جو شوہر و بیوی دونوں کے یکساں ہیں مثلا عزت و احترام دینا، دلجوئی کرنا، جذبات و احساسات کا خیال رکھنا، دکھ درد ، بھلے برے وقت میں ساتھ دینا وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی ایک دوسرے کی جنسی ضروریات کا خیال رکھنا۔
اسلام نکاح کے ذریعے مرد و عورت کے بیچ مودّت و رحمت کا ناطہ جوڑتا ہے اور ایک ایسے خاندان کی تشکیل کو ممکن بناتا ہے جس میں ہر رشتہ دلی محبت اور جذباتی ہم آہنگی سے جڑا ہوا ہو۔ اسی لئے شوہر بیوی دونوں پر لازم کرتاہے کہ ایک دوسرے سے محبت و الفت، دل جوئی و دل سوزی کا تعلق رکھیںاور ایک دوسرے کے لئے باعث سکون بنیں۔قرآن کا ارشاد ہے:
ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا۝۰ۚ(الاعراف ۱۸۹)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘۔
بیوی کے حقوق
بیوی کے حقوق میں مہر، نان نفقہ کی ادائیگی کے اصولی اور قانونی حقوق کے علاوہ بھی حضور پاکؐ نے کچھ خاص ہےہدایات دی ہیں جو حقیقت میں اچھی ازدواجی زندگی کی بنیاد ہیں اور خوشگوار زندگی کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان بیوی کے ساتھ معاملے میں حسن سلوک کا رویہ اختیار کرے اور پسند وناپسند اور خوشی و ناخوشی ہر صورت میں اس کی عزتِ نفس اور احترامِ ذات کا لحاظ رکھے۔
حدیث نبویؐ ہے :’’تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہو اور میں بھی اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہوں۔‘‘
آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ’’لوگو! سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ کیوں کہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔ تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سوائے اس صور ت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی نافر مانی سامنے آئے۔‘‘
’’کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی خصلت اس کو ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری خصلت اس کی پسند کے مطابق ہوگی۔‘‘
’’پھر اگر وہ تمہیں (کسی وجہ سے) ناپسند ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر خدا نے اس میں (تمہارے لئے) بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ (النساء:۱۹)
شوہر کے حقوق
شوہر کے حقوق کی بات کی جائے تو اس سلسلے میں کچھ باتیں اصولی نوعیت کی ہیں مگر ان اصولی باتوں کے علاوہ کچھ باتیں ایسی ہیں جن کی حیثیت اعتماد باہمی، الفت و محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا رویہ رکھنے کی تلقین کرتی ہیں۔
آپؐ نے نیک عورت کی صفت یوں بیان کی: ’’جو اپنے خاوند کو خوش کرئے جب وہ دیکھے اس کی طرف اور جب وہ حکم کرے تو بجا لائے اور مخالفت نہ رکھے اس سے اپنے جی میں اور اپنے مال میں جو خاوند کو برا لگے۔‘‘
اس انتہائی ’احسان‘ کی تلقین کے بعد ان اصولی باتوں کو بھی دیکھیں جو زوجین کے درمیان مضبوط تعلق اور اعتماد کو پروان چڑھاتی ہیں۔
1- نیکی کے کاموں میں اطاعت کرنا۔ عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام معروف کاموں میں شوہر کی اطاعت کرے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:پس جو نیک روش رکھنے والی عورتیں ہیں وہ مرد کی اطاعت شعار ہوتی ہیں‘‘۔(النساء:۳۶)
2- اس کی عزت، مال، اولاد اور گھر کی حفاظت کرنا۔
3- اس کی غیر موجودگی میں کسی ایسے شخص کو آنے کی اجازت نہ دینا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
اولاد کے حقوق
اولاد کے حقوق میں خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اسے ہر حال میں زندہ رہنے دیا جائے۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کی ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔‘‘(انعام: ۱۵۱)
زندگی کے بعد سب سے اہم اولا دکا حق اور والدین کی ذمہ داری یہ ہے کہ ان کی بہترین تربیت و پرورش کی جائے۔ رسولؐ نے فرمایا کہ اچھی تربیت سے زیادہ بہترین تحفہ اولاد کے لیے کچھ اور نہیں۔ اسی طرح اولاد پر مال خرچ کرنے کو بہترین صدقہ قرار دیا گیا۔
رسولؐ نے فرمایا: ’’سب سے افضل پیسہ وہ ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال اور اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہے۔‘‘
یہ اصولی اور قانونی نوعیت کی باتیں ہیں جو اولاد کے حقوق کے بارے میں قرآن و حدیث سے ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مگر اس سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اولاد کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے۔ اگر آدمی آخرت کی تیاری چاہتا ہے، وہ اپنی اولاد کے سلسلہ میں کس قدر حساس اور ذمہ دار ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’جب مسلمان آدمی اپنی جورو بال بچوں پر اللہ کا حکم ادا کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اس میں اس کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔‘‘
والدین کے حقوق
اسلام میں والدین کے حقوق پر بہت تاکید وارد ہوئی ہے ۔ اللہ تعالی اپنے حق کے بعد والدین کے حق کا ذکر کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ کے بعد ہم پر سب سے بڑا حق ہمارے والدین کا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۝۲۳
تو اس میں ان کی دلجوئی، بے پناہ الفت و محبت کا اظہار، ادب و احترام ، ان کی خواہشات کی تکمیل ، خاص طور پر بڑھاپے میں انہیں وقت دینا ، ان کی چڑچڑاہٹ کو محبت سے دور کرنااور ان سے نرمی و شفقت سے برتاؤ کرنا وغیرہ شامل ہے۔
قرآن میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو۔‘‘ (سورہ الاسراء: ۲۳)
ماں کی بے پناہ ممتا اور اس کی مشقتوں کے نتیجے میں اس کے حق کو باپ سے تین گناہ زیادہ بتایا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبیؐ کے پاس آیا اور پوچھا:’’اے خدا کے رسول! میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے‘‘؟ آپؐ نے فرمایا’’ تیر ی ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا پھر کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’تیری ماں ‘‘اس نے پھر پوچھا پھر کون ہے؟ ارشا دفرمایا ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے پھر کہا پھر کون ہے تو آپؐ نے فرمایا’’تیرا باپ۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: ’’تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ والدین پر مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا مال اور وہ خود والدین کی ملکیت ہیں۔
اس سے والدین کے حقوق اور اس سلسلے میں بچوں کی ذمہ داری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
رشتے داروں کے حقوق
اسلام رشتوں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس کو کھلے دل سے نبھانے کا حکم دیتا ہے۔ جس سے جتنا زیادہ قریبی رشتہ ہوگا اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوگااور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہوگا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ میں رحمان ہوں اور رحم ( رشتہ) کو میں نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے ۔ جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑ دوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹ دوں گا۔‘‘ (سنن ابی داودو ترمذی)
فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پرنگرانی کر رہا ہے۔‘‘ ( سورہ النساء :۱)
رحم کے رشتے کو اللہ تعالیٰ نے صفت رحمان سے منسلک کیا اور ان میں باہم محبت قائم کی۔اللہ تعالی فرماتا ہے:رشتہ داروں کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (الاسراء :۲۶) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے ، انہیں برقرار رکھتے ہیںاور اپنے رب سے ڈرتے ہیںاور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔‘‘ (الرعد: ۲۱)
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:’’جو پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (مسلم)
رشتے داروں میں الاقرب فالاقرب کے اصول پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔آج کے دور میں اکثر ایسا مشاہدہ ہوتا کہ ایک انسان جو دور کے رشتے داروں عموما سسرالی رشتے داروں اور دوستوں کے لئے بہت اچھا ہوتا ہے وہ اپنے قریب ترین خونی رشتے داروں سے دوری بنائے ہوتا ہے یا قطع تعلقی پر آمادہ ہوتا ہے ۔ جب کہ اسلام حقوق اور صلہ رحمی کے سلسلے میں قریب ترین رشتے داروں کو دور کے رشتے داروں پر فوقیت دیتا ہے۔
اپنی مصروفیات میں پھنس کر اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس رشتے کو مضبوط کیا۔ بھائی بہن کو اگر مدد اور تعاون کی ضرورت ہو تو اس کو پورا کرنا فرائض میں شامل کیاگیا ہے۔
اسلام نے بہن بھائی کے قانونی حقوق بھی رکھے ہیں۔ انھیں ایک دوسرے کے لئے محرم قرار دیا۔ بعض حالات میں وہ وراثت میں بھی ایک دوسرے کے حق دار ہوتے ہیں۔ساتھ ہی جو دوسرے قرین ترین رشتے ہیں وہ بھی صلہ رحمی، حسن سلوک، زکوۃ اور محبت کے زیادہ حق دار ہیں۔
خاندان کے یتیموں،بیواؤں، معذوروں اور کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ مسلمانوں کا بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کا بد ترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی جاتی ہو۔‘‘
اسلام سماج کے کمزور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور جب وہ کمزور ہمارا رشتے دار بھی ہو تو اس حکم کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ بیوہ عورت اور مسکین کے لئے کوشش کرنے والا راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘
پڑوسیوں کے حقوق
انسان اور اس کے تمدن کی بنیاد باہمی اشتراک و تعاون ہے۔ اس دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایک دوسرے کی نصرت و حمایت پر دوسرے کا انحصار ہے۔ اپنے قریب ترین رشتے داروں کے بعد ایک انسان کا سب سے زیادہ واسطہ اپنے پڑوسیوں سے پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات رشتے دار بعد میں آتے ہیں اور قریب ہونے کی وجہ سے پڑوسی کی مدد پہلے مل جاتی ہے۔ اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کی بہت تاکید کی ہے۔ آج کے نفسا نفسی کے دور میں ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی سے ناواقف ہوتا ہے جس کا بسا اوقات بہت برا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جبرئیل امین مجھے پڑوسی کی امداد و حمایت کی تاکید کرتے رہے یہانتکہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتے داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا۔
اسی طرح آپﷺ نے فرمایا’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور ایذا رسانیوں سے مامون نہ ہو‘‘۔
یہ وہ قرآنی ہدایات ہیں جن کو اپنا کر خوبصورت ، پر سکون اور جنت نما خاندان تشکیل کیا جا سکتا ہے جس میں ہر ایک فرد دوسرے سے محبت، عزت و احترام ، ذمہ داریوں اور حقوق کے درمیان توازن، عدل و انصاف، باہمی مشاورت، عزت نفس کا خیال، خوشدلی، فراخدلی، درگزر، گھر کے قوانین پر عمل، کمزوروں کی دیکھ ریکھ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، تعلیم و تربیت، دینی رہنما اورباہمی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرے جس سے عائلی نظام کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین معاشرے کو بھی دجود میں لایا جا سکتا ہے۔l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں