کردار:
1-شوہر
2- اہلیہ
( اہلیہ، ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی چوٹی ڈال رہی ہے۔)
شوہر: (آفس کا بیگ لیے کمرے میں داخل ہوتاہے اور بیگ ٹیبل پر رکھ کر صوفہ پر بیٹھ جاتا ہے۔)
اہلیہ: آگئے؟
شوہر: میرا تو یہی خیال ہے۔
اہلیہ: چلیے،میں آپ کی بات پر یقین کر لیتی ہوں۔
شوہر: اچھی بیویاں شوہر پر یقین رکھتی ہیں۔بھروسہ کرتی ہیں۔
اہلیہ: اور اچھے شوہر؟
شوہر: بیویوں کے بھروسہ کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔
اہلیہ: (طنز سے)خوب ٹوٹنے نہیں دیتے۔
شوہر: (انگڑائی لے کر)بہت تھک گیا، آج کچھ زیادہ ہی کام تھا آفس میں۔
اہلیہ: کام کب نہیں رہتاآپ کو؟
شوہر: اتوار کو۔
اہلیہ: اتوار کوبھی چلے جایا کریںآفس۔
شوہر: اجازت دینے کے لیے شکریہ۔
اہلیہ: (اسٹول پر بیٹھ کر پاوڈر کا ڈبہ اٹھا تی ہے)شام میں بھی گھر آنے کی کیا ضرورت ہے، وہیں سوجایا کریں۔
شوہر: (قہقہہ لگا کر)نہیں، میرے کیبن میں پلنگ نہیں آئے گا اور میں کرسی پر سو نہیں سکتا۔
اہلیہ: (پاوڈر کے ڈبہ کو پٹخ کر) لیجیے پاوڈر ختم ہوئے دو روز ہو گئے، آپ کوئی چیز جلدی نہیں لاکر دیتے۔
شوہر: کہیں جا رہی ہو؟
اہلیہ: ماتم پرسی کے لیے۔
شوہر: ماتم پرسی کے لیے پاوڈر لگا کر جانا ضروری ہے؟
اہلیہ: (غصہ سے)آپ تو یہی چاہتے ہیں کہ میں اجاڑ صورت رہوں۔
شوہر: بیگم، تم اتنی خوبصورت ہو کہ تمھیں میک اپ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اہلیہ: پاوڈر لگانے میں اور میک کرنے میں بہت فرق ہے۔
شوہر: سوری، کل لے آؤں گا، یہ بتاؤ ماتم پرسی کے لیےکہاںجا رہی ہو ؟
اہلیہ: پڑوس میں ، زینب باجی کے خسر کا انتقال ہوگیا ہے۔
شوہر: (آستین کے بٹن کھول کراوپر چڑھاتا ہے۔) اوہ، رشید چچا نہیں رہے! انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک عرصہ سے بیمار تھے۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ میت کب ہے؟
اہلیہ: (الماری میں سے شال نکال کر اوڑھتی ہے۔) ابھی اعلان نہیں ہوا۔ آپ ساتھ چلیں گے؟
شوہر: میں مغرب بعد چلا جاؤں گا۔ تم ہو آؤ۔اچھا پہلے چاے مل سکتی ہے؟
اہلیہ: نہیں مل سکتی ؛ دودھ پھٹ گیاہے۔
شوہر: بغیر دودھ کی بنا دو۔
اہلیہ: کالی چائے میں آپ کو لیمو چاہیے، آپ بازار سے لیمو ہی نہیں لائے۔
شوہر: اچھا ، کوئی بات نہیں۔ یہ بتاؤ، رات کے کھانے میں کیا بنا رہی ہو؟
اہلیہ: کچھ نہیں۔
شوہر: (حیرت سے)کیوں؟
اہلیہ: سبزی کس چیز سے کھائیں گے؟
شوہر : روٹی سے کھائیں گے ۔
اہلیہ: روٹیاں نہیں بنا سکتی کیونکہ آٹا ختم ہوگیا ہے۔
شوہر: تو چاول اور دال وغیرہ کچھ بنا لو، بہت دن ہوئے دال چاول کھائے۔
اہلیہ: دال چاول بھی نہیں بن سکتے، نمک کی برنی دو پہر میں ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی اور سارا نمک زمین پر گر پڑا۔
شوہر: جانتی ہو بچپن میں ہم کہتے تھے کہ اگر نمک زمین پر گر جائے تو قیامت کے دن پلکوں سے اٹھانا پڑے گا۔
اہلیہ: اٹھا لوں گی پلکوں سے۔
شوہر: پریکٹس کرتی رہو ورنہ مشکل ہوجائے گی۔
اہلیہ: آپ کے ساتھ رہنا اور پلکوں سے نمک اٹھانا ایک ہی بات ہے۔
شوہر: (بیچارگی سے) پڑوس سے دو چٹکی نمک لے لو۔
اہلیہ: دو چٹکی نمک سے کھانا نہیں بنتا اور دائیں جانب والے پڑوسی شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔
شوہر: اور بائیں جانب والے؟
اہلیہ: بائیں والوں سے میں بات نہیں کرتی۔ اور خبردار جو آپ نے اس گھر سے کوئی چیز منگوائی۔ خود کو بہت ہوشیار سمجھتی ہے وہ چڑیل۔
شوہر: (سر پکڑ کر)اچھا، صبح کا کچھ بچا ہوگا؟
اہلیہ: نہیں ، کچھ نہیں بچا۔
شوہر: (اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے)یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں، میں نمک خرید کر لاتا ہوں تم دال چاول ہی بنا لینا۔
اہلیہ: دوپہر میں گیس سلینڈر بھی ختم ہوگیا تھا۔
شوہر: (چڑ کر)چائے کے لیے دودھ نہیں، روٹی کے لیے آٹا نہیں، دال چاول کے لیے نمک نہیں اور اگر نمک آجائے تو وہ کیا کہا تم نے ، ہاں گیس سیلنڈر نہیں۔
اہلیہ: اس میں میرا قصور ہے؟
شوہر: تم ماتم پرسی کے لیے رشید بھائی کے گھرکیوں جا رہی ہو؟
اہلیہ: مطلب؟
شوہر: (اونچی آواز میں)تمھیں کسی کے گھر ماتم پرسی کے لیے جانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ پورے محلہ کے لوگوں کو ہمارے گھر آنا چاہیے، ماتم پرسی کے لیے۔
اہلیہ: (غصہ سے اندر چلی جاتی ہے)
شوہر: (غصہ سے آستینیں نیچی کر کےبٹن لگاتا ہے) ہوٹل سے کھانا لے کرآتا ہوں۔بھوکے پیٹ تو میں نماز بھی نہیں پڑھ سکتا۔
اہلیہ: (چاے کی پیالی پکڑے داخل ہوتی ہے)لیجیے، آپ کی کڑک چائے۔
شوہر: دودھ ؟
اہلیہ: (ہنس کر)ہر چیز موجود ہے الحمدللہ۔امی نے ٹفن بھجوایا ہے، اس لیے کچھ بنانے کی ضرورت نہیں۔ میں ماتم پرسی کر آؤں پھر کھانا کھالیتے ہیں۔
شوہر: (مسکرا کر پیالی لیتا ہے۔)بیگم جھوٹ بولنا مذاق میں بھی جائز نہیں ہے۔
اہلیہ: (کان پکڑ کر ہنستی ہے)