صبح چہل قدمی کے دوران دیکھا کہ صوفی ذوالنعلین بڑی عجلت میں اپنی ٹو وہیلر بھگائے جارہے تھے۔ ان کی حنائی داڑھی صبح کی خوشگوار ہوا میں پھلوں سے لدے کسی کمزور دوشاخہ کی مانند جھول رہی تھی۔ میں نے زور سے سلام کیا، جس پر مجبورا انہیں کچھ آگے جاکر گاڑی روکنی پڑی، ورنہ وہ نظریں چرائے نکل جانے کے چکر میں تھے۔سلام کلام کے بعد پوچھا کہ قبلہ صبح صبح کدھر کا قصد ہے؟ کافی جلدی میں لگتے ہیں۔بولے کہ ایک مشاورتی نشست ہے اس میں شرکت کرنی ہے۔ میں ہوٹل کے قریب تھا۔ ان سے کہا کہ آئیے ایک کپ چائے پی لیتے ہیں۔کہنے لگے ناشتے اور چائے کا انتظام وہیں ہے۔ میں ذرا جلدی میں ہوں پھر کبھی۔ اب ظاہر ہے مشاورتی اجلاس ہے تو ناشتہ بھی تگڑا ہوگا کیونکہ عموما ملّی مشاورتی اجلاسوں کا دنگل بڑا زور دار ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ مجھے بھی ایک ملّی تنظیم کی مشاورت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔اجلاس کیا تھا، عقلی گدّوں کا سائبر کیفے اور لفاظیوں کا آبشار۔پگڑی اور ٹوپی والے علماء کرام ریٹائرڈ آفیسرز بعض سماجی تنظیموں کے نمائندے اور رنگ برنگے چوغے کلغیوں میں ملبوس مجاوران و سجادگان ایک کہکشاں تھی جس میں ملت کے مقدر کے ستارے دمک رہے تھے۔ان کی زوردار تجاویز اور پرمغز تقریروں سے میری سٹّی گم تھی۔ مولانا ملبوس بادامی نے میرے گھٹنے کو زور سے دبایا تو میرے حواس بحال ہوئے۔مولانا ملبوس بادامی کافی معروف خطیب ہیں۔ درگاہ حضرت برہنہ شاہ کے قریب رہائش ہے۔ ان کی والدہ عقیدے سے کٹّر دیوبندی تھیں اور انہوں نے یہ نیت باندھ لی تھی کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام ملبوس رکھونگی اور اسے عالم دین بناؤںگی۔ بیچاری سیدھی سادھی مسلمان تھیں۔ مولانا ملبوس بادام بڑے شوق سے کھاتے تھےاور یہ یقین رکھتے تھے کہ جتنا بادام کا استعمال کثرت سے ہوگا دین کی خدمت کے لئے قوت جسمانی میسر آتے رہی گی۔ ’’قوی مومن کمزور مومن کے مقابلے اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔‘‘ والی حدیث بار بار سناتے تھے۔اس نسبت سے بادامی کہلانے لگے۔خیر تو کہہ رہا تھا کہ مولانا نے زور سے گھٹنا دبایا اور کہا کہ یار کیا ہم تمہیں اس لئے لائے تھے کہ تم داڑھیوں کو تکتے اور پگڑیوں کو تاکتے رہو۔ دو چار اچھی زوردار تجاویز بتاؤ تاکہ اجلاس میں سنا سکوں۔ تم سنا یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین میں کافی متحرک رہےہو۔ ذرا اپنے دماغ پر زور لگاؤ۔ مولانا ابھی کچھ اور کہنا چاہ رہے تھے کہ ان کے موبائل پر گھنٹی بجی اور میں نے دیکھا کہ نام کی جگہ اسکرین پر شہزادی جانم کے حروف جگمگارہے تھے۔ شاید اہلیہ کا نام فیڈ کررکھا تھا۔اچانک میرے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوااور پھر میں علامہ اقبال کا یہ شعر گنگنانے لگا: ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
مولانا جب فون سے فارغ ہوئے تو عرض کیا کہ مولانا ہماری آبادی کا نصف حصہ اس نشست میں موجود نہیں ہے۔ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے؟مولانا ایک لمحہ کے لئے سٹپٹائے ان کا چہرے پر بیک وقت کئ رنگ نمودار ہوئے۔زیر لب مسکراہٹ بھی نمودار ہوئی جسے انہوں فورا چھپالیا۔یقین و بے یقینی کی کیفیت میں مجھے گھورنے لگے پھر اپنے قلبی اطمینان کی خاطر مجھے گھورتے ہوئے شکی لہجہ میں پوچھا کہ سنجیدگی سے کہہ رہو ہو یا مذاق کے موڈ میں ہو ؟حالانکہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ایک دبا دبا سا جوش ان کے سارے جسم میں سنسنی مچائے تھا۔میں نے عرض کیا مولانا میں ایسی جرات کیسے کرسکتا ہوں؟کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آجکل خواتین کی اہمیت بڑھ گئی ہے، ان میں شعور جاگ چکا ہے اور ہر ملی تنظیم اور ادارہ انہیں نمائندگی دے رہا ہے۔ مولانا ویسے بھی خواتین مردوں کے بالمقابل ہر میدان میں قائدانہ رول ادا کررہی ہیں۔ شاہین باغ سے لیکر جامعہ تک ہر طرف خواتین چھائی ہیں۔ مولانا کا چہرہ کھل اٹھا اور انہوں نے میری پیٹھ ٹھونکی اور ان کے چہرے پر روحانیت کی ایک تازگی محسوس ہوئی۔ کہنے لگے بعد وقفہ خواتین کے لئے مناسب گنجائش نکالنے کی تجویز پیش کرتا ہوں تم ایک مسودہ تیار کرو۔ ویسے بھی صوفی ذوالجلال کئ دنوں سے خواتین کو لیکر بڑے فکر مند تھے۔بیچاروں کی اہلیہ کو فوت ہوئے کئی سال ہوگئے تب سے انہیں سلوک کی منازل طے کرنے میں کافی دشواری پیش آرہی ہےان کی حمایت تو پکّی سمجھئے۔ میں نے پوچھا کہ سلوک کی منازل کا اہلیہ سے کیا تعلق؟ ارے میاں صوفی صاحب کی ضروریات کا خیال رکھنے کے لئے کوئی تو ہو۔ تم بھی بڑے معصوم بنتے ہو۔ لگتا ہے ڈاکٹر حکیم الدین کی صحبت کے باوجود تم رہے نرے بدھو کے بدّھو!!