ڈیجیٹل دور اور مطالعہ

محمد اقبال عادل، کولکاتا

سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ ڈیجیٹل کیا ہے؟ڈیجیٹل آلات اب عام ہیںانہیں اپنے ہاتھوں میں رکھ کر اپنی انگلیوں کی مدد سے باآسانی استعمال میں لا سکتے ہیں۔ خواہ وہ موبائل فون ہو، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر اس کی مدد سے آپ جو چاہے دیکھ اور تلاش کر سکتے ہیں، حتی کہ خریداری بھی کر سکتے ہیں ساتھ ہی روزگار کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں مطالعہ کا بڑھتا رجحان اور نئی کتابوں کی پزیرائی سے ایک حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا ہے۔ آکسفورڈ کی ایک تحقیق مطابق گزشتہ چند برسوں میں دنیا کے زیادہ تر ممالک میں میں آن لائن کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی آئی ہے اور باقاعدہ کتابیں پڑھنے کے رجحان کو تقویت ملی ہے۔ ہم ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر آنے والے نئے دن کے ساتھ بازار میں نئی چیزیں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ خیز ارتقاء ہوا ہے جس کے سبب ہم تک ضرورت سے کہیں زیادہ معلومات پہنچ جاتی ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ٹی. وی، اسمارٹ فون، انسٹاگرام وغیرہ اور اس طرح کے کئی ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ہم سے ہمارا قیمتی وقت چھین لیا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ ہم ان کے ذریعہ معلومات باآسانی حاصل کر تو لیتے ہیں لیکن دیر تک یاد رکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لہٰذا اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں کتابیں لکھنے اور پھر انہیں شائع کرنے کے عمل میں ایک زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ مطالعہ کتب ہمیں علم و حکمت کے ساتھ تخلیقی ذہن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ برسوں کی تحقیق کے بعد ایک منظم کتاب تحریر کی جاتی ہے جو نہ صرف ہمارے تخیل کو بڑھاوا دیتی ہے بلکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ساتھ ہی ہمیں لکھنے کے مختلف گر سے متعارف کرواتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مطالعہ کتب پر ہونے والی تحقیقات میں یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ لوگوں کے مطالعہ میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد مجلد کتاب پڑھنے کے بجائے ‘ای بک’ پڑھنے کو زیادہ ترجیح دے رہی ہے۔ اس کے باوجود مصنف کی ایک بڑی تعداد کتابیں لکھنے میں ہمہ وقت مصروف نظر آتی ہیں۔ ایک تحقیق میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ 2011 کے مقابلے میں 2020 میں مصنفین اور ادیبوں کی تعداد میں30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند برسوں میں ‘ای بک’ پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے۔ لوگ آن لائن سے زیادہ آف لائن کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم دونوں طبقہ کے مطالعہ کرنے والوں کے فیصد میں زیادہ فرق نہیں ہے۔‌ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ دونوں ہی سطح سے کتابیں پڑھی جارہی ہیں جس کا فائدہ مصنّفین اور ادیبوں کو ہو رہا ہے۔ دراصل کتابیں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ مصنّفین اور ادیبوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اب طالب علم بھی کتابیں لکھنے میں سرگرم ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں ایسے طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے کم سنی ہی میں کئی کامیاب کتابیں لکھی ہیں۔ کئی طلبہ و طالبات ایسے ہیں جن کی کتابوں کو مبصرین اور ناقدین نے سراہا ہے۔
طلبہ و طالبات میں کتابیں لکھنے کا رجحان صرف ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندوستان سمیت متعدد ترقی پذیر اور غریب ممالک کے طلبہ بھی اس جانب توجہ دے رہے ہیں۔ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ کتابیں امریکہ کے طلبہ نے لکھی ہیں۔ آج سے تقریباً 40 سے 50 سال قبل لوگ روشنائی، قلم یا ٹائپ رائٹر کی مدد سے کتابیں تحریر کر کے منظر عام پر لاتے تھے۔ لہٰذا اس وقت تک زیادہ تعداد میں کتابیں شائع کرنا ناممکن سا تھا۔ بتدریج زندگی میں تغیر کے آنے سے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے ذریعہ تحریر شائع کی جانے لگیں۔ موجودہ دور میں 95 فیصد کتابیں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ یا اسمارٹ فون پر لکھی جاتی ہیں۔
پہلے پہل مصنف مسودہ لکھ کر مختلف پبلشرز کو روانہ کرتے تھے۔پڑھنے کے بعد ناشر اس نتیجے پر پہنچتے تھے کہ وہ کتاب شائع کرنی ہے یا نہیں لیکن اب اس طرح کا معیار بالکل مفقود ہو چکا ہے۔ خاص طور پر انگریزی کتب کی دنیا میں۔ موجودہ دور میں آن لائن پبلیشرز ہیں جن کی مدد سے مصنّفین دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنی تخلیق شائع کروا سکتے ہیں۔ متعدد آن لائن پبلیشرز ایسے ہیں جو نئے لکھنے والے ادیبوں کو ایک خاص سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح مصنف اپنی طویل کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کرکے تحریر کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ جو باب تحریر کریں گے وہ دنیا کے تمام لوگوں کو پڑھنے کے لیے دستیاب ہوگا۔ اس طرح لوگوں میں ایک خاص کتاب کو پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر انہیں آنے والے اگلے باب کا انتظار رہتا ہے۔ ناشر جب یہ دیکھتا ہے کہ آن لائن کی صورت میں سب سے زیادہ کونسی کتاب یا سیریز پڑھی گئی ہے تو وہ اسے اور دوگنی تعداد میں شائع کرواتا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کتابوں سے شغف رکھنے والے قارئین اپنی ذاتی لائبریری کا حصہ بنانے کے لئے اس کتاب کو کتابی شکل میں خرید لیتے ہیں۔
فیوچر لرن کے مطابق ’کنڈل‘ جیسی ٹکنالوجی اور ایپ کے آنے کے بعد نصف سے زیادہ لوگوں نے آن لائن کتابوں کے مطالعہ کو ترجیح دی تھی لیکن مسلسل اسکرین دیکھتے رہنے کے نقصانات کے پیش نظر یہ رجحان تبدیل ہوتا گیا اور ایک بار پھر کتب بینی کی جانب توجہ دی گئی۔ ایک تحقیق میں انکشاف یہ ہوا ہے کہ 60 فیصد افراد آج بھی آف لائن کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ آن لائن سے حد درجہ دوری اختیار کرتے ہیں۔ جس کی انہوں نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ جیسے کتابیں ہاتھ میں لے کر پڑھنا اچھا لگتا ہے، کتابوں کی خوشبو مطالعہ کی جانب راغب کرتی ہے،آنکھوں پرزور نہیں پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کسی بھی وقت کتب کا با آسانی مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اسمارٹ فون میں پڑھنے کے سبب بیٹری ختم ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے، اسکرین وقت میں اضافہ ہوتا ہے، صحت پر جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ کورونا وائرس کی وباء اور لاک ڈاؤن کے دوران نہ صرف کتابوں کے مطالعہ کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کتابوں کی فروخت بھی بڑھی ہے۔
کتابوں کے مطالعہ اور فلم دیکھنے کا جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کتاب فلم سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہے۔ لازمی امر ہے کہ کتابیں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ایک مہینے میں ختم کی جاتی ہیں اس کے برعکس ایک فلم صرف 3 گھنٹے میں ختم ہو جاتی ہے۔ جب ہم کتاب کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارا تخیل بھی وسیع ہوتا جاتا ہے، نت نئے پیرائے سمجھ میں آتے ہیں ساتھ ہی الفاظ کا ایک ذخیرہ وجود میں آتا ہے جب کہ خیالات کو ربط دینے اور اسی طرز پر تحریر کرنے میں بڑی حد تک مدد ملتی ہے۔
ہاں! یہ تلخ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کی سرگرمیاں جیسے سنیما، ٹی۔ وی اور تھیٹر وغیرہ ایسے ذرائع ہیں جہاں ہمارا اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں مطالعے کے رحجان میں کمی کی ایک اور اہم وجہ ان کی خریداری پر آنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھنے کے لئے صبر اور یکسوئی ہے۔ ایسے میں آڈیو بکس یا صوتی کتب اس مسئلے کا جامع حل پیش کرتی ہیں۔ ٹکنالوجی کے باعث اب ہم کھانا پکاتے ہوئے، ڈرائیونگ کرتے ہوئے، یہاں تک کہ کرکٹ میچ دیکھتے ہو ئے کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بجائے سماعت کر سکتے ہیں۔ یہ سہولتیں ان لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس مطالعے کا بالکل بھی وقت نہیں ہے، لیکن طلبہ و طالبات کے پاس مطالعے کا وقت کیوں نہیں ہوتا؟ کیا انہیں تمام تر مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں؟ یا پھر سوشل میڈیا کی چکا چوند نے انہیں اس قدر مصروف رکھا ہے کہ وہ کتابوں، رسالوں اور اخبارات کے مطالعے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جن اقوام میں کتب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل ٹھہر جاتا ہے تو وہاں کے لوگوں کی زندگی میں سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ اور یہ لوگ ایک قسم کی شدید مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ مشہور ہے کہ کتاب شخصیت سازی کا ایک عمدہ ذریعہ ہے ساتھ ہی ساتھ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں ان کی ہم سفر ہوتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد ایسے ہیں جن کے اندر سے کتب بینی کا رجحان بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ موجودہ انٹرنیٹ ہے، اس نے کتب بینی کی جگہ باآسانی حاصل کرلی ہے۔اب ہمارے ارد گرد وہ لوگ جو مطالعے سے خاصی دلچسپی لیتے ہیں، کتب خانوں میں جا کر کتابیں، رسائل و ناول پڑھنے کے بجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کو گھر میں بیٹھے بٹھائے انٹرنیٹ کے ذریعہ تمام مواد، نئی و پرانی کتابیں بے حد آسانی سے مطالعے کے لئے فراہم ہو جاتی ہیں۔ طلبہ و طالبات بھی کمپیوٹر یا موبائل پر اپنے امتحانات، پروجیکٹ بنا کر واٹس ایپ، ای میل یا دیگر انٹرنیٹ ذرائع سے ایک دوسرے کو ایک ہی جگہ پر رہتے ہوئے پہنچا دیتے ہیں۔ اس طرح سے تعلیم کے میدان میں بھی تبادلہ خیال میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں ساتھ ہی طالب علم کا اساتذہ سے رابطہ بھی رہتا ہے۔ موجودہ دور کے طالب علم اس انٹرنیٹ دنیا کے باعث صرف اور صرف اپنے نصاب کی کتابوں تک ہی اپنے علم کو محدود رکھتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر طلبہ انٹرنیٹ پر چیٹنگ (CHATTING) اور سماجی روابط کی ویب سائٹ پر اپنا زیادہ تر وقت صرف کرتے ہیں۔
موجودہ انٹرنیٹ اور موبائل کے زمانے میں بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا ایک دشوار کن مرحلہ بن گیا ہے۔ حالانکہ اس دور میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو رہے بچوں کے لیے ماہرین نفسیات نے مطالعے کو ایک لازمی جز قرار دیا ہے کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سی غیر ضروری چیزوں سے دور رکھتی ہیں۔ آج کے دور کے بچوں میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں والدین اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔ جیسے ہی بچہ سیکھنے اور پڑھنے کی عمر کو پہنچے، والدین کو چاہیے کہ اسے بہترین اور مفید کتابیں لا کر دیں۔ ابتدا میں انہیں کہانیوں کی کتابیں لا کر دیں جس سے ان کے مطالعے میں دلچسپی پیدا ہو گی۔ بچے کہانیاں سننا اور پڑھنا بے حد پسند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کے اندر مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا ہو گا۔ اس کے علاوہ والدین بچوں کے سامنے اپنی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ فارغ اوقات میں انہیں چاہیے کہ ٹی۔ وی دیکھنے یا فون سننے کے بجائے وہ کسی کتاب یا رسالے کی ورق گردانی کر کے بچےکو بھی اس طرف مائل کر سکتے ہیں۔ جب بچہ والدین کو مطالعہ کرتا ہوا دیکھے گا تو لاشعوری طور پر اسے یہ ادراک ہوگا کہ فارغ اوقات میں مطالعہ ہی کرنا بہتر ہوتا ہے۔ والدین کو ہو سکے تو اپنے بچوں کو ہفتے میں ایک بار لائبریری ضرور لے جایا کریں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری دماغ کی بہترین زبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ بے حد خوش ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی مرضی، مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کرکے اپنی دماغی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر آج کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ایک کامیاب انسان بنے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو مطالعے کی عادت دلائیں۔ll
(بہ شکریہ ’ترجیحات‘ آن لائن)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146