کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رابعہ پاگل ہو گئی ہے۔ بعض کہتے ہیں رابعہ مر چکی ہے، خدا نہ کرے، اور یہ خبر ان سے چھپائی جا رہی ہے، تو کچھ لوگ اسے شدید ذہنی بیمار سمجھنے لگے ہیں۔ جہاں تک میرا گمان ہے رابعہ یقیناً زندہ ہے اور صحیح سلامت ہوگی’’انا کی سلاسل میں جکڑی ہوئی ضد کی بیڑیوں میں بندھی ہوئی۔‘‘ یہ میرا قیاس ہے، لیکن بعض قیاس سچائی کا جامہ پہنے ہوتے ہیں۔ میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مجھے اس سے ملے مدت ہوئی ایک زمانہ گزرگیا۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ لوگ رابعہ کو پاگل سمجھنے لگے؟ کچھ اسے مرا ہوا تصور کرنے لگے اور چند اسے دائمی مریض سمجھ بیٹھے؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔
رابعہ میری بیوی تھی۔ نہایت خوش اخلاق، خوبصورت اورحسین و جمیل۔ اس سے میرے تین بچے ہوئے، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ شادی کے سالوں بعد مجھے دھیرے دھیرے پتہ چلا کہ اس پر رہ رہ کر ضد اور انانیت کا دورہ پڑتا ہے۔ میں مدتوں اس موذی بیماری کو سمجھنے سے قاصر رہا ۔ جب میرے علم میں یہ بات آئی تو میں نے اسے کئی بڑے ڈاکٹرس اور حکیموں کو دکھایا۔ کئی نامی گرامی اسپتالوں میں اس کا علاج بھی کرایا، ساتھ ہی کسی مولوی و عامل کو نہ چھوڑا۔ کوئی درگاہ و مزار، پیر اور ولی کا آستانہ ایسا نہ بچا تھا جہاں اس کے لیے دعائیں نہ کی گئی ہوں اور منت نہ مانی گئی ہو۔ ہر قسم کی دعا و مناجات سے بھی آخر کار جب کوئی فائدہ نہ ہوا تب گھر والوں نے کہا کہ اس پر جنات کا سایہ ہے جو رہ رہ کر اسے پریشان کرتا ہے۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ یہ ایک خاندانی بیماری تھی جو اس کی دادی سے اس تک منتقل ہوئی تھی۔ ان پر بھی ضد کا دورہ پڑتا تھا۔ اگر کسی چھوٹی بڑی بات پر ناگواری کا اظہار کریں، کسی کام کا انکار کر دیں اور ’نہ‘ کہہ دیں تو مجال نہیں کہ بڑے بوڑھے، بچے، جوان، مرد و عورت کسی کے بھی سمجھانے پر’ہاں‘ کہیں اور مان جائیں۔
شروع شروع میں اس مرض کی مدت دو تین دن سے ہفتوں تک چلی جاتی تھی پھر یہ بڑھتا ہوا مہینوں تک جا پہنچا۔ اس علالت کی خاص علامتوں میں بھوکے پیاسے رہنا، اکثرچپ بیٹھنا، تنہا پڑے رہنا اور خود سے باتیں کرنا رابعہ کی زندگی کا اذیت سے بھرا ہوا حصہ بن گیا۔ وہ خود ہی ٹھیک بھی ہو جاتی تھی اور گھر میں سب کچھ پہلے کی طرح ہی معمول پر آ جاتا تھا۔ بچے اور میں اب اس کے عادی ہو چکے تھے۔ ہماری کوشش رہتی کہ گھر میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے رابعہ کا موڈ خراب ہو جائے۔
زندگی اسی طرح گزر رہی تھی، لیکن ایک دن معمولی سی بات پر رابعہ اچانک گھر سے چلی گئی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ اس کے پہلے وہ کبھی گھر چھوڑ کر نہیں گئی تھی۔ عام حالت میں اگر وہ ناراض ہو جاتی تو ہم اور بچے تھوڑی بہت کوشش سے مل جل کر اکثر اسے منا لیتے تھے۔ کبھی وہ مان بھی جاتی اور کبھی اپنی حالت پر قائم رہتی لیکن بار بار منانے اور سمجھانے کے اس کھیل سے آخر کار میں تنگ آگیا تھا اور اس کی اس عادت سے پریشان اور تھک چکا تھا۔
دو ماہ گزر گئے لیکن وہ گھر نہیں آئی۔ فون کرنے پر کاٹ دیتی اور میسیج کا کوئی جواب نہ دیتی۔ میں گاہے گاہے اسے فون کرتا رہتا تھا، لیکن نہ کبھی اس نے فون اٹھایا، نہ خود کبھی بات کی۔ پھر ایک دن اس نے میرا نمبر بلاک کر دیا اور کچھ دنوں بعد فون بند کر دیا گیا۔ ہاں اس کے گھر والوں سے کبھی کبھار مختصر ہی سہی اس کے تعلق سے بات ضرور ہو جاتی تھی۔
میں ایک دن تھک ہار کر اس کے گھر پہنچا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ بغیر منائے واپس نہیں آئے گی۔ اس کے بھائی بہن اور باپ ماں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ میرے ساتھ آنے پر راضی ہونا تو دور کی بات ہے، اس نے مجھ سے ملنا اور بات کرنا تک گوارا نہ کیا۔ اس بار اس نے ضد کی ساری حدیں پار کر لی تھیں اور اسی حد نے ایک سرحد بنادی تھی، جس کی اونچی دیواریں اب ہم دونوں کے درمیان حائل ہو گئی تھیں۔ میں نے اپنی غلطیوں کو بہت ٹٹولا، اپنے آپ کا جائزہ لیا، لیکن مجھے اپنی دامن پر کوئی ایسا داغ نظر نہ آیا جس سے میں اس کا گنہگار ٹھہرتا۔ میں بے بس و لاچار اس کے گھر سے واپس آ گیا۔ راستے بھر سوچتا رہا آخر ایسا کیا ہوا کہ اس نے ملنا اور بات کرنا بھی پسند نہ کیا؟ میرے خیال کی حد تک اب وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق تھی۔
میں نے چھہ ماہ بعد ایک اور کوشش کی، اب بچوں کے ساتھ اس کے گھر گیا۔ اس نے بچوں کو دیکھ کر پیار کیا لیکن ضد اور انا کی دیوار اپنی جگہ قائم و برقرار رہی اور اس میں کوئی شگاف نظر نہ آیا۔ نہ اس نے مجھے نظر اٹھا کر دیکھا نہ ہی کوئی بات کی۔ اس بار اس کے گھر والوں نے پہلے جیسی دلچسپی بھی نہیں دکھائی۔ شاید وہ سب بھی اس کی ضد سے تنگ آکر ہار مان چکے تھے۔ میں نے اس کے گھر والوں کے سامنے بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر اسپتال میں علاج کرانے اور مشہور و معروف ڈاکٹروں کو دکھانے کی بات بھی رکھی، لیکن اس مرتبہ ان سب کا رویہ بھی میرے تئیں انتہائی خشک اور ترش تھا۔ پتہ نہیں رابعہ نے اس دوران میری کیسی تصویر ان کے سامنے پیش کی جو محبت نفرت و حقارت میں بدل گئی؟ میں مایوسی و ناامیدی کو اپنے دامن میں سمیٹے ایک آخری کوشش کرتے ہوئے واپس گھر لوٹ آیا اور دل ہی دل میں کہا ’’ضد نے لاتعداد زندگیاں تباہ کی ہیں ایک تم بھی سہی؟‘‘
میں آخری امید کوبھی اب دفن کر چکا تھا۔ پھر بھی گھر کی کنڈی وقت بے وقت جب بھی کھٹکتی مجھے رابعہ کے آنے کا گمان گزرتا، لیکن اسے نہیں آنا تھا اور وہ نہیں آئی۔ میں نے اس کا انتظار برسوں کیا، اپنے ماں باپ، بھائی بہن اور کئی قریبی رشتے داروں کو اس کے گھر بھیجا، اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن سب کچھ لاحاصل و بے سود ہی ثابت ہوا۔ نہ کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور نہ ہی کوئی تسلی بخش جواب حاصل ہو سکا۔ آخر کار تھک ہار کر بچوں کے لیے اور اپنی ذہنی پریشانی و اذیت کو دور کرنے کی خاطر میں نے دوسری شادی کر لی۔
میری دوسری بیوی کا نام سلمیٰ ہے۔ وہ نہایت شریف، قبول صورت اور انتہا درجے کی نیک، پاکباز اور باکردار عورت ہے۔ بچوں کے تعلق سے اس کا رویہ انتہائی مخلصانہ، محبانہ اور دوستانہ ہے۔ جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے بالکل اسی طرح عورت کے دئے ہوئے دکھ، رنج و الم اور تکلیف سے مرد کو صرف ایک عورت ہی بچا سکتی ہے، اسے جسمانی و روحانی عذاب سے نکال سکتی ہے، اس کے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹ سکتی ہے اور اسے دوبارہ زندگی سے ہم کنار کر سکتی ہے۔ اللہ کی یہ مخلوق ایک مردہ انسان میں جان پھونکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سلمیٰ کی آمد کے بعد رابعہ کے یاد کی شدت اب قدرے کم ہو گئی تھی، لیکن میرا دل آج بھی اسے رہ رہ کر یاد کرتا ہے، اس کے لیے آہیں بھرتا اور روتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی ہم نشینی اور طویل رفاقت اور مصاحبت کی یادیں آنسوؤں میں بہہ کر اس کی یاد کا عکس دھندلا کرتی چلی گئیں۔ وہ بدزبان نہیں تھی، وہ بے وفا بھی نہیں تھی لیکن جو کچھ بھی تھی میرے لیے ذہنی کوفت اور روحانی صدمہ کا بڑا سبب بن گئی تھی۔ پھر بھی وہ مجھے دل و جان سے زیادہ عزیز تھی۔
ایک دن سلمیٰ بازار سے واپسی پر کہنے لگی کہ آج کپڑے کی دکان پر ایک عورت ساڑی خرید رہی تھی۔ جو ساڑی اسے پسند تھی اس کے لیے اس کے پاس اتنے پیسے دستیاب نہیں تھے اور دکاندار کسی صورت اس رقم میں اس کی پسندیدہ ساڑی اسے دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کی عاجزی و انکساری دیکھ کر مجھے اس پر ترس آ گیا، میں نے وہ ساڑی اسے دلوا دی اور پانچ سو روپیہ اپنی طرف سے ادا کر دیا۔ وہ پیسہ لینے کے لیے بالکل تیار نہ تھی مجھے وہ ایک خوددار خاتون معلوم ہوئی لیکن میں نے بہن کہہ کر دے دیا اور کہہ دیا اگلی کسی ملاقات میں واپس کر دوگی تب جا کر وہ راضی ہوئی۔
میں نے سلمیٰ کی پوری بات سن کر ازراہ ہمدردی کہا۔ واہ تم نے تو آج نیکی کا بہت بڑا کام کیا ہے۔ واقعی یہ قابل ستائش اور قابل تعریف ہے۔ انسانی ہمدردی اور بھلائی کا ایسا مواقع کسی انسان کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میں اتنا کہہ کر چپ ہو گیا۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد سلمیٰ کہنے لگی۔ بہت دکھی معلوم ہوتی تھی۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد کہنے لگی کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے باپ کے گھر آ گئی ہے۔ زندگی کی حسین یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئےوہ رو پڑی۔ پھر کہنے لگی: ’’غصہ، ضد، غرور اور تکبر زندگی کے وہ کیڑے ہیں جو اس کی جڑوں کو چاٹ جاتے ہیں۔ پھراندر سے کھوکھلا درخت کسی دن اچانک دھڑام سے گرجاتا ہے۔ زیست کی ہری بھری ٹہنیوں کو مرجھاتے اور سوکھتے دیر نہیں لگتی۔ وقت کے ساتھ بھائی بہن، یہاں تک کہ ماں باپ بھی دامن بچانے لگتے ہیں۔‘‘
سلمیٰ ایک لمحے کو رکی پھر کہنے لگی ’’پڑھی لکھی خاتون معلوم ہوتی تھی۔‘‘ پھر’’اف‘‘ کی ایک مبہم سی صدا بلند ہوئی۔ سلمیٰ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا :’’یہ بھائی اور باپ بھی بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ اسے سمجھا بجھا کر اس کے شوہر کے گھر واپس بھیج دینا چاہیے تھا؟‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا اور بدبدایا کہ آخر کار مرد کے ظلم کی شکل میں ہی اس کہانی کا بھی اختتام ہوا۔ سلمیٰ نے پوچھا کچھ بول رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں کچھ نہیں۔
پھر وہ چائے بنا کر لے آئی۔ کیا نام تھا اس کا؟ کہتے ہوئے میں نے چائے کی پیالی سلمیٰ کی جانب بڑھائی۔ اوہ! میں تو نام پوچھنا ہی بھول گئی؟ اس بار ملوں گی تو ضرور پوچھ لوں گی؟ غلطی عورت کی بھی ہو سکتی ہے، میں نے استفسار کیا۔ سلمی بولی:’’ہے تو ظلم ہی، چاہے کسی نے بھی کیا ہو؟ اس کے شوہر کو چاہیے کہ اس کے گھر جائے، اسے منائے اور واپس لے آئے۔‘‘ پھر اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ چائے کی پیالی ہاتھ میں اٹھانے کے بعد کچھ دیر خاموش رہی پھر رک رک کر کہنے لگی: ’’بعض عورتیں بڑی ضدی طبیعت کی ہوتی ہیں۔ ’ہٹ‘ ان کے خون میں سرایت کر جاتا ہے۔ انا ان کے رگ و پے میں پیوست ہو جاتی ہے۔ غصہ ان کی جبلت بن جاتا ہے۔ وہ ٹوٹنا پسند کرتی ہیں لیکن جھکنا نہیں؟ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ عورت کا جھکنا ہی مرد کی ہار اور اس کی جیت ہے۔‘‘ پھر کہنے لگی کہ انہیں اپنے کربناک اور تکلیف دہ مستقبل اور بچوں کی فکر نہیں ستاتی؟ اتنا کہتے کہتے وہ بالکل مغموم اور اداس ہو گئی۔ قدرے توقف کے بعد کہنے لگی:’’اسے اپنی ضد اور انا کو بالائے طاق رکھ کر اپنے شوہر کے گھر واپس چلے جانا چاہیے تھا اسی میں اس کی بھلائی تھی۔‘‘
بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سلمیٰ کہنے لگی کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ تمہیں ستاتا تھا، مارتا تھا اور تم پر ظلم کرتا تھا؟ اس کا کیا جواب تھا، میں نے قدرے تجسس سے پوچھا۔ سلمیٰ نے چائے کی پیالی میری طرف سرکاتے ہوئے کہا۔ اس نے نفی میں سر ہلادیا اور کہا نہیں بالکل نہیں کبھی نہیں۔ پھر آنسوؤں کے چند قطرے اس کے عارض کو بھگو گئے۔ یہ کہ کر سلمیٰ غمگین چہرہ لیے کچن میں چلی گئی؟ میری آنکھیں اس کہانی کو سن کر بھیگ گئی تھیں۔
اس بات کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ ایک دن جب میں آفس سے آیا تو سلمیٰ کہنے لگی :آج وہ بازار میں پھر ملی تھی۔ میرا دیا ہوا پانچ سو روپیہ مجھے واپس کر رہی تھی۔ میں نے نہیں لیا۔ کہہ دیا کہ گھر آنا، کھانا ساتھ کھائیں گے اور وہیں ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔ وہیں پیسہ بھی دے دینا۔ پھر سلمی کہنے لگی کہ مجھے اسے اپنے گھر بلانے کا ایک بہانہ مل گیا تھا اور ہاں میں نے اس سے یہ بھی کہا کے تمہارے شوہر کے گھر چلیں گے اس سے بات کریں گے۔ پھر کیا وہ راضی ہو گئی؟ کچھ کہا اس نے؟ میں نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا اور مزید جاننے کا شوق ہوا۔ سلمیٰ خاموش رہی جیسے وہ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔
آج سلمیٰ بہت خوش تھی اتوار کا دن تھا صبح ناشتے کے بعد اچانک کہنے لگی اگر میں آپ سے کچھ مانگوں، منع تو نہیں کریں گے؟ ’’نہیں بالکل نہیں‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا۔ پھر وہ خاموش ہو گئی۔ مجھے جاننا تھا کہ وہ کیا مانگتی ہے۔ وہ پچھلے کئی اتوار سے ایسا کہتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔ میں نے کہا:’’دیکھومجھے ایسی بات سے چڑ ہوتی ہے جس کی ابتدا تو ہو لیکن انتہا نہیں؟ نہ پوری کہی جائے نہ ہی بولی جائے؟ اگر نہیں بولنا تھا تو پوچھا ہی کیوں؟ پچھلے تین ہفتے سے تم یہی کر رہی ہو؟‘‘
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور خود سے قریب کرتے ہوئے رومانوی انداز میں کہا۔ آج بہت پیاری لگ رہی ہو بتا بھی دو پھر مغل اعظم کے انداز میں کہا:’’جو بھی مانگو گی یقیناً عطا کیا جائے گا۔‘‘ چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جان ہی کیوں نہ بیچنی پڑے؟ وہ متبسم چہرہ لیے کہنے لگی کہ جان بیچنے کی ضرورت نہیں ہے دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے شدید غصہ آیا جو میری شکل سے ظاہر تھا۔ میرے چہرے کو اپنے دونوں ہتھیلیوں میں لے کر پیار سے بولی ایک دن ضرور مانگوں گی انکار نہ کیجئے گا۔ اف! تم بھی بہت ستاتی ہو۔ اللہ جانے کیا بلا ہے جو اکثر زبان تک آکر رک جاتی ہے۔ میرے سر کو چومتے ہوئے کہنے لگی ہر چیز بلا نہیں ہوتی آپ تو ہمیشہ برا ہی سوچتے ہیں، کبھی اچھا بھی سوچ لیا کیجئے؟
آج بلاشبہ اس نے مجھے اس پہیلی نما معمہ میں ڈال کر کافی حیران و پریشان کر دیا تھا۔ میں تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ سوچتا رہا پھر اس کی توجہ اپنی جانب دیکھ کر پوچھا۔ اگر میں تم سے کبھی کچھ مانگوں تو کیا تم مجھے منع کر دوگی؟ یہ سنتے ہی وہ میرے پاس سے اٹھ کر صوفہ کے کونے میں سرک گئی۔ پھر میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولی میرے پاس دینے کے لیے ہے ہی کیا جو منع کروں گی؟ سب کچھ تو آپ کا ہی ہے مانگ لیجئے کیا مانگتے ہیں؟ یقیناً ظل الٰہی کی ہر خواہش پوری کی جائے گی؟ میں نے اس کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے کہا کوئی ایسی چیز ہے جو تم ہی مجھے دے سکتی ہو۔ وہ تذبذب میں گرفتار ہو گئی پھر کہنے لگی:’’اب آپ مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں‘‘ نہیں بالکل نہیں ہرگز نہیں کہہ کر میں ایک کتاب کے مطالعہ میں منہمک ہو گیا۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ ہی رہا تھا تبھی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ سلمیٰ نے دروازہ کھولا میں نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی کوئی بندہ خدا ہے گزارش لے کر حاضر ہوا ہے۔ پھر کسی قدر سرگوشی اور کچھ گہما گہمی سی ہونے لگی۔ پھر مجھے کچن میں برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی اور چائے کی پیالی کے دھونے کی آواز آئی۔
تھوڑی دیر بعد سلمیٰ اندر آئی اور کہنے لگی آئیے باہر! لکھنا پڑھنا بعد میں کیجئے گا۔ ایک سائل ندامت و شرمندگی کا لبادہ اوڑھے معافی کا طلبگار ہے۔ میں نے اپنی فلسفی و دانا بیوی کو گھورا، پھر بادل ناخواستہ اٹھ کر ہال میں آگیا۔ رابعہ جو صوفہ پر بیٹھی تھی، مجھے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ سلمی کچن میں چائے بنانے چلی گئی تھی۔ شاید وہ اس دلدوزمنظر کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ میں رابعہ کو دیکھ کر مبہوت و حیران اپنی جگہ جیسے پتھر بن گیا تھا۔ ماضی کی رابعہ اور حال کی رابعہ میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اس کے چہرے کا نور پوری طرح مرجھا گیا تھا۔ اس کی خوبصورتی زائل ہو چکی تھی۔ اس کا وہ مرمریں حسن اب مدھم پڑ چکا تھا۔ اس کا توانا اورخوبصورت جسم نحیف و لاغر تھا۔ وہ کسی مجسمہ کی صورت میرے سامنے تھی۔ آنسوؤں کے قطرے اس کے رخسار کو بھگوتے ہوئے فرش پر گر رہے تھے۔ میں تھوڑی دیر انتہائی حیرت اوربے بسی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا پھر یکلخت میرا دل درد سے بھر گیاجیسے میرا سینہ تکلیف سے پھٹ جائےگا۔ جب مجھے اس درد سے نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اسے اس کے شانے پر انڈیل دیا۔ رونے کی آواز سن کر بچے دوسرے کمرے سے نکل آئے اور’’ممی‘‘ کہہ کر رابعہ سے لپٹ گئے۔ سلمیٰ بھی اب کچن سے آ چکی تھی۔ میں نے سلمیٰ کی جانب دیکھا اور التجا آمیز لہجے میں کہا :’’میں نے تم سے ایک دن کہا تھا کہ اگر میں تم سے کچھ مانگوں تو کیا تم مجھے دوگی؟ اور تم نے اس دن ہاں کہا تھا۔‘‘
سلمیٰ خوش تھی اس کے چہرے پر نور کا ہالہ تھا جو سورج کی طرح روشن تھا اور چاند کی مانند چمک رہا تھا۔ لیکن وہ خاموش رہی وہ عورت نہیں کچھ اور شئے تھی ایسی خاتون رب العالمین کی کائنات میں اب مفقود ہو چکی ہے۔ پھر وہ اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہنے لگی:’’اچھا ہوا مجھے آپ سے کچھ مانگنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔‘‘