رسول اللہ ﷺ سے عقیدت و محبت اور اطاعت کا جذبہ ہر مسلمان کے دل میں بے حد و انتہا پایا جاتا ہے ۔ ہر مسلمان اللہ کے رسول ﷺ سے دل و جان ، مال و اولاد اور زندگی و حیات سے بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ اگر اس میں ذراسی بات پر کسی دوسری شے کو ترجیح دینے کا خیال یا تصور تک ذہن میں لائے تو ایسے بندے کے ایمان میں خلل واقع ہوتا ہے۔ ایمان کی تکمیل آنحضرت ﷺ سے محبت کی تکمیل کے ساتھ ہے۔ اسی سلسلے میں کتب احادیث میں ایک دلچسپ واقعہ درج ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے: ’’اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کواپنی ذات کے علاوہ تمام چیزوں سے عزیز رکھتا ہوں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’عمر! آپ کا ایمان کامل نہیں ، کوئی انسان جب تک مجھے اپنی ذات ، آل و اولاد اور والدین ( غرض دنیا کی تمام مخلوق) سے زیادہ عزیز نہیںرکھتا، اس وقت تک اس کا ایمان کامل نہیں۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے: ’’اللہ کے رسول ﷺ اب آپ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ عمر ! اب آپ کا ایمان کامل ہو گیا۔‘‘
یہی عقیدت، محبت اور عشق ہم رسول اللہﷺ سے رکھتے ہیں اور اسی کا دعویٰ ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت بغیر کم و کاست بر ملا کرتا ہے۔ اس کو متاع حیات جانتے ہوئے اپنے شب وروز کے معاملات ، اقوال اور افعال سے محبت اور عشق کا اظہار کرتا ہے۔ ہر ایسے طریقے کو اپنانے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جس سے آپؐ کے ساتھ عشق کا اظہار جھلکتا ہو۔ اپنے نام کے ساتھ آپ کے نام مبارک کا سابقہ لگانے کو فخر خیال کرتاہے۔
ان سارے حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد سوال یہ ہے کہ ہماری نجات کا مدار کیا ہے ؟ کن عوامل کی انجام دہی پر ہمیں یہ روز قیامت نجات کا پروانہ عطا ہو گا؟ کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پر سر زد ہونے والے اعمال ہمارے لیے نجات کا تمغہ حاصل کرنے کے سزاوار ہوں گے ؟ کیا صرف آنحضرتؐ سے عقیدت اور محبت ہماری نجات اور کام رانی کے لیے کافی ہوگی…؟
جب ان سوالات کے جوابات قرآن مجید سے تلاش کرتے ہیں تو قرآن مجید مختلف پیرایوں اور انداز سے ایک ہی بات کی تلقین کرتا ہے کہ دیکھو تم اپنے دعوئہ عشق کے پہلے مرحلے پر کھڑے ہو۔ ابھی تم نے دنیا کی عدالت میں رپٹ درج کروائی ہے اور کہا ہے کہ تم نے آنحضرت ﷺ کی ذات مبارکہ کے ساتھ تمام مخلوق سے بڑھ کر عشق و محبت کے تعلقات استوار کیے ہیں۔ اب کمرۂ عدالت میں بسنے والی مخلوق اپنے اپنے طرز، انداز اور اسلوب سے کئی سوالات اور امتحانات کے مراحل سے گزارے گی۔ اس عدالت نے شب و روز کے معاملات، اخلاق، طور و اطوار، رہن سہن، معاشرت و سیاست، تنہائی و مجلسی زندگی، پہننے اور سوچنے کی حد تک تمہارے ہر ایک عمل کی جانچ پڑتال کرنی ہے۔ اس عدالت میں رہنے والے تمام افراد تمہارے ہر اٹھتے ہوئے قدم اور زبان سے نکلنے والی بات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس عدالت کی کسوٹی یہ ہے کہ تمہارے اعمال واخلاق اور شب و روز کے افعال آنحضرتﷺ کے معاملات اور طرز زندگی کے کتنے قریب ہیں؟ آپ ؐ کی معاشرت اور سیاست سے تمہارے کیے گئے دعوے کی کتنی تصدیق ہوتی ہے ؟ کیا تمہاری زبان اور ہاتھ سے انجام پانے والے اعمال کی اجازت آنحضور ﷺ نے دی ؟ ان اعمال و افعال کو آنحضرتؐ نے انجام دیا ؟ اگر ان تمام کے جوابات درست آئے تو عدالت اپنی قلم سے یہ فیصلہ صادر کرے گی کہ تم اپنے دعوئہ عشق میں سچے ہو ورنہ یہ عدالت تم پر جھوٹے ہونے کا الزام لگائے گی۔ کیوں کہ قرآنی آیات اس بات کو جا بہ جا الگ الگ اسلوب اور الفاظ کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ فرمان ربانی کا مفہوم ہے:’’فرمادیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کریں گے۔‘‘ (آل عمران) ایک اور مقام میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ہم نے تمام رسول اس لیے بھیجے ہیں اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔‘‘(النساء) اور پھر رسول اللہ ﷺ کے فرامین کے بارے میں ارشاد فرمایا، (مفہوم) ’’رسول کریمﷺجو تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔‘‘ (الحشر )
یہ تمام آیات بتلاتی ہیں کہ آنحضرت ؐ سے عشق کا دعویٰ اسی وقت درست ہو سکتا ہے جب آنحضرتؐ کی ہر معاملے میں پیروی کی جائے۔ آپؐ کی زندگی کے ہر پہلو کو نگاہوں کے سامنے بہ طور آئینہ رکھا جائے اور اپنے اعمال و افعال، محبت والفت ، عقیدت و عشق کے تمام مراحل کو اس آئینہ کے سامنے لاکر کھڑا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہمارے پیش کردہ افعال و اعمال کی تصویر کیسی دکھائی دے رہی ہے، خدا نخواستہ ہمارے اعمال کی حقیقت دھندلاہٹ سے دوچار تو نہیں اگر ایسا ہے تو پھر از سر نو اپنے ہر فعل کا جائزہ لیتا ہو گا اور اس آئینے کی کسوٹی کے معیار کے مطابق اپنے آپ کو لانا ہو گا تا کہ ہمارادعویٰ عشق درست ثابت ہو۔