ہم عموماً یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ذہین افراد ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرینِ نفسیات کی تحقیق یہ ہے کہ ذہانت اپنی جگہ ضرور اہمیت کی حامل ہے، مگر کامیابی کا راز صرف اس میں نہیں بلکہ انسان میں چھپی ایک اور صلاحیت میں پوشیدہ ہے، جو ہماری رہنمائی کرتی اور ہمیں بہتر زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔ اس صلاحیت کو امریکہ کے مشہور ماہر نفسیات ڈینل گلومین نے جذباتی ذہانت (EMOTIONAL INTELLIGENCE) کا نام دیا ہے، جو معاشرتی نفسیات دانوں کے نزدیک ایک جدید اصطلاح ہے۔
گلومین کا کہنا ہے ’’کسی انسان کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ بہت ذہین ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی اپنی شخصیت ایسی ہو کہ وہ ذہنی صلاحیت کا بہترین استعمال کر سکے، اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صلاحیتیں بہت کم لوگوں میں یکجا ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جو ذہانت اور جذبات پر بیک وقت قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی کامیاب ہوتے، خوش رہنے کا فن جانتے اور ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں پر اپنی خوبیوں کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ گلو مین اپنی تحقیق کے حوالے سے کہتا ہے:
’’جولوگ اپنے جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتےہیں وہ ماحول سے مطابقت رکھنے والے محنتی، پراعتماد اور قابل بھروسا ثابت ہوتے ہیں۔ جو شیلے، بے صبرے، جذباتی اور ذہنی طور پر غیرمستحکم عموماً نہ صرف ناکام بلکہ عملی زندگی میں ضدی اور من مانی کرنے کی وجہ سے جلد احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہار بھی جلد مان لیتے ہیں۔‘‘
گلومین کا کہنا ہے کہ جذباتی ذہانت کی موجودگی یا غیر موجودگی کا اندازہ انسان کے بچپن پر نظر ڈال کر لگایا جا سکتا ہے۔ بقول ماہرینِ نفسیات ضرورتوں کے حصول میں جلد بازی کے بجائے صبر سے کام لینا بڑا فن ہے۔ یہ در اصل جذبات پر عقل کی فتح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی عمل جذباتی ذہانت کی نشانی ہے جس کی مدد سے آدمی خراب ترین حالات سے بھی سمجھوتاکرلیتا ہے۔
جذباتی ذہانت دراصل بہتر رویے، دوسروں سے اچھا برتاؤ، تہذیب و شائستگی، صبر وتحمل اور بردباری جیسی خصلتوں کا نام ہے جن کے ذریعے ہمارے کردار میں بہتری اور پختگی آتی ہے۔ دوسروں سے روابط، بہتر کارکردگی دکھانے، کامیاب ازدواجی زندگی گزار نے اور معاشرتی اور اقتصادی طور پر اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں بھی یہی خصلتیں مددگارثابت ہوتی ہیں۔
ہم میں سے جو لوگ یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ کسی بات کے جواب میں مخالف کا رد عمل کیا ہوگا، وہ زندگی بہتر طور پر گزارتے ہیں ۔ جو لوگ یہ صلاحیت نہیں رکھتے، وہ خواہ کتنے ہی ذہین ہوں انہیں زندگی میں اکثر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ ان کے لیے ذہنی سکون حاصل کرنا اور منزل تک پہنچنا خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس نکتے سے ظاہر ہے کہ ہماری سلامتی اور جذبات کے درمیان قریبی اور گہرا تعلق ہے۔ ہم میں سے کئی افراد غصے، پریشانی، اداسی اور تکلیف دہ حالات میں اس بات کا بالکل لحاظ نہیں رکھتے کہ جذبات کا کھلا اظہار کرنے سے اپنے علاوہ دوسرے لوگوں پر کیا اثر ہو گا۔ لیکن جو لوگ جذباتی ذہانت کے حامل ہوں ،وہ ناروا حالات میں بھی خود پر قابور رکھتے ہیں۔ اگر جذباتی اظہار کی ضرورت پڑے تو وہ معقول راستہ اختیار کرتے ہیں۔ غصہ کرنا آسان فعل ہے، مگر جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا:
’صحیح وقت پرصحیح مقصد کے لیے، صحیح انداز میں غصہ کرناآسان کام نہیں۔‘‘
غصے کی حالت میں ہم پر جوش ہوجاتے ہیں اور ایسے میں خود کو سنبھالنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اکثر یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ غصہ آئے تو اسے ضرور نکالنا چاہیے، لیکن اب یہ مشورہ اہمیت کا حامل نہیں رہا کیوں کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار غصہ کرنے سے یہ عمل پختہ ہوجاتاہے۔ جیسے مسلسل پریشان رہنے سے پریشانی عادت بن جاتی ہے۔ پریشان رہنے کا بڑا نقصان یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے اور نتیجے میں ناکامی سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔
جو لوگ دوسروں سے اچھے برتاؤ کا ہنر جانتے ہیں، وہ معاشرتی صورتِ حال سمجھنے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا وقت خوش گوار گزرتا ہے اور وہ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں پسند کر کے ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس تکرار پسند، دوسروں کو پریشان کرنے، حقیر جاننے اور خود کو اونچا سمجھنے والے لوگ اکثر نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو شخص خود کو پہچان جائے، اسے دوسروں سے برتاؤ کا ڈھنگ آجائے گا، اس میں اخلاق اور دیانت داری کی اعلیٰ خوبیاں موجود ہوں گی اور وہ جذباتی ذہانت کا مالک بھی سمجھا جائے گا۔
ماہرین نفسیات کی تحقیق مدِ نظر رکھ کر اگر ہم اجتماعی طورپر اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بحیثیت مجموعی ہمارے اندر جذباتی ذہانت خاصی کم ہے۔ ہم میں حقیقت کے اعتراف کا حوصلہ نہیں اور ضرورتوں اور خواہشوں کو یک دم پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا رجحان ہمیں اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرنے اور بد دیانتی کی طرف لے جاتاہے۔ لیکن ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ناپسندیدہ عمل اختیار کرنے سے ہمیں جو بھی کامیابی اور خوشی حاصل ہو، وہ دیر پا نہیں ہوتی۔ نتیجے میں رسوائی اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ہمارے اندر اخلاق و کردار کے حوالے سے کئی خرابیاں ہیں جو نہ صرف ہماری انفرادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ قومی و ملی ترقی کے عمل میں بھی سدِ راہ ہیں۔ ان میں سرِ فہرست یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں اپنی مرضی چاہتے ہیں، دوسروں کو ان کا حق نہیں دیتے اور ان کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں کرتے۔ دوسروں کی پسند نا پسند ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہم میں کردار، تہذیب اور شائستگی جیسی خوبیاں ختم ہوتی جارہی ہیں اور دوسروں کی عیب جوئی اور برائی کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے۔ ہم اپنے دین کی ہدایات کی بھی پروا نہیں کرتے۔ دوسروں پر الزام لگاتے، دھوکے بازی کرتے اور روزمرہ کے کاموں میں کوتاہیاں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں پر شرمندہ ہونے کے بجائے انہیں درست سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری کم تر جذباتی ذہانت کا کھلا ثبوت ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ ماہرین نفسیات کے مطابق پختہ ارادے اور عمل پیہم سے جذباتی ذہانت بڑھائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے صبر و تحمل، محنت و لگن اور باشعور ریاض کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا جذباتی ذہانت کے فروغ کا عمل خود احتسابی اور تزکیۂ نفس عمل ہے۔ خود احتسابی اور تزکیۂ نفس ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ll
(مرسلہ: ڈاکٹر اقبال احمد ریاض، اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)