کردار:
۱۔سلیم (ضرورت مند) ۲۔ سیٹھ صاحب
۳۔ دربان
(ایک شاندار عمارت کے سامنے کا منظر)
دربان: (کرسی پر بیٹھا اونگھ رہا ہے۔)
سلیم: (بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس گردن جھکائے آکر)سلام علیکم۔
دربان: (اسی حالت میں بیٹھارہتا ہے)
سلیم: (ہاتھ لگا کر)دربان صاحب، السلام علیکم، کیا سیٹھ صاحب گھر میں ہیں؟
دربان: (انگڑائی لے کر) وعلیکم السلام۔ نہیں ۔ابھی دُکان سے نہیں آئے۔
سلیم: کب تک آتے ہیں؟
دربان: آنے کا وقت ہو چکا ہے، تھوڑی دیر میں آتے ہی ہوں گے۔
سلیم: ٹھیک ہے۔ میں انتظار کرلیتا ہوں۔
دربان: (اوپر سے نیچے دیکھ کر) ویسے کیا کام ہے؟
سلیم: پورا گھر بیمار ہے۔
دربان: پورا گھر بیمار ہے! کیا ہواانھیں ؟
سلیم: (آہ بھر کر) بھوک کی بیماری۔
دربان: یہ بیماری نہیں وبا ہے۔ بھلے آدمی، کچھ کام وام بھی کرتے ہو یا نہیں؟
سلیم: کرائے کا رکشا کھینچتا ہوں بھائی۔ لیکن بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہو پاتا ہے۔
دربان: خیر، یہ تو غریبوں کے لیے عام بات ہے۔
سلیم: سیٹھ صاحب سے مدد کی امید لے کر آیا ہوں۔
دربان: ہمم !گھر میں کون کون ہے؟
سلیم: والدہ کا سایہ سر پر سلامت ہے۔ غم گسار بیوی کے ساتھ تین بچوں کی پرورش کررہا ہوں۔
دربان: (انگلیوں پر گن کر) کل پانچ، اور تم ایک چھہ۔ چھہ افراد کا کنبہ ہے۔
سلیم: الحمدللہ۔
دربان: بیٹے ہیں؟
سلیم: ہاں ایک بیٹا ہے اور دو بیٹیاں ہیں۔
دربان: بڑا ہوکر تمھارا سہارا بنے گا۔
سلیم: ان شاء اللہ۔ پانی مل سکتا ہے؟
دربان: (پانی کی بوتل دیتا ہے)
سلیم : (پانی پی کر)جزاک اللہ
دربان: (ایک طرف اشارہ کرکے)وہاں کھڑے رہو۔ سیٹھ صاحب کو بیچ راستہ میں کسی کا کھڑا ہونا پسند نہیں۔
(کار کے ہارن کی آواز)
دربان: لو سیٹھ صاحب آ گئے۔(کھڑا ہوکر سیلوٹ کرتا ہے)
سیٹھ: (اندر جانے لگتے ہیں)
دربان: سیٹھ صاحب یہ آپ سے ملنے آئے ہیں۔
سلیم : (ادب سے )السلام علیکم سیٹھ صاحب۔
سیٹھ : وعلیکم السلام ، کہو؟
سلیم : سیٹھ صاحب، میں بہت غریب آدمی ہوں۔ رکشا کھینچتا ہوں، جیسے تیسے گذارا ہوجاتا ہے۔ آپ ضرورتمندوں کی امداد کرتے رہتے ہیں اس لیے چلا آیا۔
سیٹھ: وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب میں نے طے کیا ہے کہ صرف نابینا لوگوں کی مدد کروں گا۔
سلیم: جی؟
سیٹھ: وہ مدد کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔
سلیم: (نفی میں سر ہلاتے ہوئے) آپ صرف اندھوں کی مدد کریں گے؟
سیٹھ: ہاں۔ صرف اندھوں کی۔ تمھاری آنکھیں سلامت ہیں تمھیں محنت کرنا چاہیے۔ (اندر جانے لگتا ہے۔)
سلیم: (روکنے کے انداز میں)سیٹھ صاحب،میری آنکھیں سلامت نہیں ہیں۔
سیٹھ : (قہقہہ لگاتا ہے)
دربان: تم اندھے ہو!!
سلیم: ہاں میں اندھا ہوں۔
سیٹھ: (مذاق سے)اور انھیں ابھی ابھی اس بات کا الہام ہوا۔
سلیم: دنیا میں مجھ سے بڑا کوئی اندھا نہیں۔اگر اندھا نہ ہوتا تو کیا اس سے نہ مانگتا جس سے مانگنا چاہیے، یعنی اللہ رب العزت سے۔ میں اسے چھوڑ کر ایک چھوٹے دل والے بندہ سے مانگنے آ گیا۔یہی میرے اندھے پن کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
دربان: بدتمیز، تجھے بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔ سیٹھ صاحب نے مدد نہیں کی تو زبان درازی کرنے لگا۔
سلیم: (قدرے جھک کر) معافی چاہتا ہوں سیٹھ صاحب۔
سیٹھ: (گہری سانس لے کر) نہیں نہیں، تم نے بڑی گہری بات کہہ دی۔(جیب سے پیسے نکال کر دیتا ہے)
سلیم: نہیں سیٹھ صاحب، بہت شکریہ۔ ضرورت میں مجھے اپنا پروردگار نہیں دکھائی دیا۔ مجھے اپنے اندھے پن کا شدید احساس ہو گیا۔
سیٹھ : خیر، اب یہ رقم ے لو۔
سلیم : نہیں سیٹھ صاحب۔ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اب میں اسی سے مانگوں گاجس سے مانگنا چاہیے۔
سیٹھ: (مسکرا کر) اور وہ تمھیں خوب دے گا ، دیکھنا۔
سلیم: ان شاء اللہ۔ اچھا خدا حافظ۔ll