نسیم کا سولہ سترہ سالہ بیٹا ایک مشنری اسکول میں پڑھتا تھا۔ گیارہویں میں خراب تعلیمی نتیجہ کے بعد اس نے اس اسکول میں مزید پڑھنے سے انکار کردیا۔ اس کی تعلیمی کارکردگی پر پریشان والدین کو اس کا انکار کرنا بالکل پسند نہ آیا۔باپ نے زور زبردستی کی تو لڑکا ایک روز گھر سے بھاگ گیا مگر وقت رہتے پتہ چل جانے کے سبب اسے پکڑ لیا گیا۔ تحقیق شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ اسکول کے ایک ٹیچر کا رویہ اس کے خلاف توہین آمیز تھا اور وہ اسے ’’حقہ باز‘‘ کہہ کر کلاس میں پکارتا تھا۔ حقہ بازی پر تحقیق شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ’’ایلکٹرک حقہ‘‘ استعمال کرتا ہے اور یہ کام وہ درجہ چہارم سے کررہا ہے۔
ہماری بلڈنگ کی پارکنگ میں کھڑی موٹر سائیکلوں کا پٹرول نکال لیا جاتا تھا۔ کبھی کسی کی موٹر سائیکل سے اور کبھی کسی اور کی۔ مشاہدہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ چھوٹے بچوں کا ایک گروہ ہے جو یہ کام کرتا ہے۔ لیکن وہ اس کا کرتا کیا ہے؟ کیا وہ اس پٹرول کو بیچ کر پیسہ بنالیتا ہے؟؟ جی نہیں! وہ اس کا استعمال نشہ کے طور پر کرتا ہے۔ پٹرول میں ڈوبا ہوا رومال جیب میں ہوتا ہے اوربچے اسے تھوڑی تھوڑی دیر میں سونگھتے رہتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے علاقے میں اس حرکت کا مشاہدہ کیا تھا مگر سمجھ نہیں سکے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نشہ کی عادی بچوں کا سستے نشہ کا سامان ہے۔
اعدادوشمار اور ماہرین سماجیات کی تحقیقات، دونوں یہ بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں نشہ کا استعمال بڑھا ہے اور بڑھ رہا ہے۔ جہاں نشہ کا بڑھتا رجحان تشویش کا باعث ہے، وہیں یہ بات اور زیادہ پریشانی کا سبب ہے کہ یہ رجحان نوعمروں، اسکولی بچوں اور نوجوانوں میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ اس لت میں جہاں غریب اور ناخواندہ خاندانوں کے بچے مبتلا ہیں وہیں تعلیم یافتہ اور خوش حال گھرانوں کے چشم و چراغ بھی بڑی تعداد میں ملوث ہیں۔ نشہ مافیادولت مند بننے اور پیسہ کمانے کے لیے نسلِ نو کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے اور انسانیت کے ساتھ کھلواڑ کررہا ہے۔ آئے دن اخبارات میں شائع خبریں بتاتی ہیں کہ ملکی وعالمی سطح پر ایسے نیٹ ورک موجود ہیں جو منشیات کی اسمگلنگ کرتے اور ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ وقت وقت سے ایسی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ نشہ کے سوداگروں کا بھانڈا پھوٹا،گرفتاریاں ہوئیں اور نیٹ ورک کا پتہ چلا۔ گزشتہ سال اڈانی کی ملکیت والے گجرات کے مندرا پورٹ سے 3 ہزار کلوگرام نشہ آور مادہ کی مقدار پکڑی گئی تھی، جو ’آشی ٹریڈنگ کمپنی‘‘ وجے واڑہ کی تھی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ نشہ مافیا دنیا بھر میں اور ملک میں کس قدر فعال ہے۔
نارکو ٹکس کنٹرول بیورو(NCB) کے نام سے ہمارے ملک میں ایک ادارہ قائم ہے۔ اس کی ایک ویب سائٹ بھی ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف ریاستوں میں مختلف انتظامی ایجنسیوں کے ذریعہ منشیات پکڑنے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس ویب سائٹ پر آخری تفصیلات مارچ 2019 کی ہیں۔ اس کے بعد کی کوئی خبر نہیں ہے، تاہم اگر ان پرانی تفصیلات اور اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو وہ ہوش ربا ہیں۔ صرف ایک ماہ مذکور میں 28842 کلو گانجا، 33525 کلوافیم اور 22لاکھ74 ہزار 782 نشہ آور ادویات کی گولیاں ضبط کی گئیں۔ ویب سائٹ پر موجوداعداد و شمار میں ریاستوں کی بھی تفصیلات ہیں۔ ان تفصیلات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ریاست میں کوئی مادہ زیادہ مقدار میں پکڑا گیا اور کس ریاست میں کوئی اور مادہ۔ اس سے نشہ کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں کے ٹرینڈ کا بھی پتہ چلتا ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ نشہ مافیا کا آسان ہدف نوعمر بچے اور اسکول میں پڑھنے والے نوجوان ہیں، اس لیے وہی اس کا سب سے زیادہ شکار بھی ہورہے ہیں۔ اس میدان میں تحقیق کرنے والے افراد کی تحقیقات اس کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ’ہیروئن‘ کے عادی طلبہ میں سے 88فیصد ایسے ہیں جن کی عمریں 14-25 سال کے درمیان ہیں۔ ایسے والدین جن کے باہمی تعلقات اچھے نہیں ہوتے وہ آسانی سے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ Edecere – The BMC Journal of Social Work میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ’نشے کی لت میں گرفتار شہری ہندوستان کے 60 فیصد بچوں کی عمر 16 سال اور 40 فیصد بچوں کی عمر 17 سال ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں 40 فیصد بچوں کی عمر محض 15 سال ہے۔ 3فیصد کی عمر 16 سال، دو فیصد کی عمر 17 سال اور ایک فیصد کی عمر 18 سال ہے۔ اس سلسلے کی خطرناک بات یہ ہے کہ شہری علاقوں میں پہلی بار نشہ کا مزہ چکھنے والے بچوں کی عمر محض 12-9 سال تھی جبکہ دیہی علاقوں کے بچوں کی عمر 16-13 سال تھی۔ اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ نشہ کا رجحان کس قدر کچی عمر میں ہمارے سماج کے بچوں کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔
بچوں کو یہ نشہ آور اشیاء دستیاب کیسے ہوجاتی ہیں اور وہ ان کو کس طرح خریدپاتے ہیں، رپورٹ اس پر بھی اعداد و شمار اور تناسب پیش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں دیہی علاقوں کے 40فیصد بچوں نے بتایا کہ وہ دوستوں سے حاصل کرتے ہیں، 40فیصد اپنے سینئر ساتھیوں سے حاصل کرتے ہیں اور 20فیصد بچے نشہ مافیا کے ایجنٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ کیسے حاصل کرتے ہیں اس کے جواب میں بتایا کہ دیہی علاقوں کے 10فیصد بچے والدین سے چھپ کر محنت مزدوری کرتے اور اس کام کے لیے پیسے جٹاتے ہیں، 10فیصد بچے بہ طور ایجنٹ کام کرکے اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں، 40فیصد جز وقتی کام کرکے پیسہ حاصل کرتے ہیں اور بقیہ 40فیصد نے بتایا کہ والدین سے ملنے والے جیب خرچ کا وہ غلط استعمال کرتے ہیں جبکہ شہری علاقوں کے بچے دیہی علاقوں کے بچوں کے برعکس 40فیصد بچے اپنے گھروں سے چوری کرکے کام چلاتے ہیں، 30فیصد دوستوں سے قرض لیتے ہیں اور بقیہ اپنا جیب خرچ استعمال کرتے ہیں۔
جو اعداد و شمار یہاں پیش کیے گئے ہیں ان سے بہت سارے حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں اور وہ بہ حیثیت والدین ہمیں خبردار کرنے اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں والدین صرف اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں بھیجنے کے بعد مطمئن نہیں ہوسکتے بلکہ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اپنے بچوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے دوستوں پر بھی اور حلقۂ احباب پر بھی نظر رکھی جائے اوراس ضمن میں اپنے بچوں کو یہ اچھی طرح بتادیا جائے کہ ساتھیوں سے دوستی کرنے کا معیار کیا ہونا چاہیے اور یہ بھی ان کے ذہنوں میں پختہ کردیا جائے کہ دوستوں کی کن باتوں کو قبول کیا جانا چاہیے اور کن باتوں کو ہر حالت میں رد کردیا جانا چاہیے، خواہ اس سے دوستی اور تعلق ختم ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اچھی صحبت اور اچھے ساتھیوں سے دوستی کرنے کے بارے میں بتایا جائے اور دین و اخلاق کا وہ سانچہ ان کی سوچ اور فکر میں پختہ کردیا جائے جو اچھے اور برے کی تمیزان پر واضح کردے۔
اس سلسلے کی دوسری اہم بات ہمارے گھر کا ماحول ہے جسے ہمیں ہرحال میں پرسکون، محبت بھرا اور ایک دوسرے کے لیے ایثار اور خیرخواہی پر مبنی بنایا جائے اور بنانےکی کوشش کی جائے۔ وہ بچے جو اس کے برعکس گھریلو ماحول سے آتے ہیں اور محبت و خلوص کی تلاش میں ہوتے ہیں انہیں اس قسم کے بگڑے ہوئے ساتھی مخلص نظر آتے ہیں اور وہ ان کے خلوص کے دام میں پھنس کر تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اپنے گھر کے ماحول کی فکر جہاں ضروری ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کی صحبت اور حلقۂ احباب کا بھی جائزہ لیا جاتا رہے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ بچے کے دوست احباب کیسے اخلاق و کردار کے حامل ہیں۔
پروفیسر جاوید اقبال، جن کی ویڈیوز حجابِ اسلامی میں شائع ہوتی رہتی ہیں، کہتے ہیں کہ پیدا ہونے سے سات سال کی مدت تک ہم بچوں کے غلام ہوتے ہیں اور ہم وہی کرتے ہیں جو بچہ کے لیے خوشی کا باعث ہو ۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ بچہ کو پیار و محبت مل سکے۔ اس کے بعد کی مدت سے لے کر بارہ تیرہ سال کی مدت تک ہمیں بچوں کا آقا بن جانا چاہیے۔ آقا بننے کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اندر اچھی عادات کو فروغ دینا ہے اور اپنے دین و اخلاق کے مطابق ان کی شخصیت کی تعمیر کرنی ہے۔ بارہ تیرہ سال کے بعد جب بچہ ٹین ایج میں پہنچتا ہے تو ہمیں ان کا دوست بن جانا چاہیے۔ ایسا دوست جس سے بچہ اپنی ہر بات شیئر کرسکے۔ اگر آپ اپنے بچے کے دوست ہوں گے تو وہ غلط دوستوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوگا کیونکہ اس کے والدین اس کے سب سے مخلص اور سب سے بڑے دوست ہوں گے۔ اگر والدین بچہ کا سب سے بڑا دوست بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ نہ صرف کسی کی جعلی محبت سے متاثر نہیں ہوگا بلکہ گھر آکر ان سب کے بارے میں آپ کو بتائے گا اور اس طرح آپ کا بچہ غلط صحبت اور برے ساتھیوں سے محفوظ ہوجائے گا۔
بہ حیثیت والدین ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور ہم سے زیر نگرانی لوگوں کے بارے میں اللہ کے یہاں سوال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی اولاد پر نگرانی کرنے کی اور ان کے دین واخلاق کو اعلیٰ بنانے کی ذمہ داری دی ہے اور اگر ہم اس ذمہ داری کو اچھی طرح ادا نہیں کرتے تو ہماری دنیا و آخرت دونوں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔ ہم نے نشہ کے عادی بچوں کے والدین کو دیکھا ہے کہ ان کی دنیا جہنم بن گئی، زندگی کا چین و سکون غارت ہوگیا اور آخرت میں کیا ہوگا، اس کا علم تو بس اللہ کو ہے۔