شکر گزاری ایسی انسانی صفت اور جذبہ ہے جو انسان کو اندر سے خوش و خرم اور مطمئن رکھتا ہے اور جب یہ جذبہ معدوم ہونے لگتا ہے یا اس میں کمی آنے لگتی ہے تو انسان کے اندر سے اطمینان کی کیفیت کم یا ختم ہونے لگتی ہے،بے چینی بڑھ جاتی ہے، حزن و ملال اور احساسِ محرومی دل و دماغ میں جگہ بنانے لگتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اس کے اندر حرص اور موجود سے زیادہ پانے کا جذبہ بڑھنے لگتا ہے۔ شکر گذاری خواہ وہ اللہ کے لیے ہو یا بندوں کے لیے، ایک مثبت طرز عمل ہے۔اس کے برخلاف ناشکری انسانی فطرت کا وہ منفی رویہ ہے جس سے اکثر اوقات انسان کا اپنا سکون و چین تو متاثر ہوتا ہی ہے، دوسروں کو بھی اس سے بعض اوقات تکلیف پہنچتی ہے۔انسان ناشکری حزن و ملال، تفکر اور اندیشہ ہائے دور درازمیں مبتلا ہوکر ایک طرف تو خود کو ایک ذہنی بے چینی اور عذاب میں مبتلا رکھتا ہے، دوسری طرف وہ زندگی کی بے شمار لذتوں اور خیر کے بہت سے مواقع سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے؛
’’اگر تم شکر کا رویہ اپناؤ گے تو میں مزید نوازوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو جان لو کہ میرا عذاب شدید ہے۔‘‘ (ابراہیم)
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بعض سخت مصائب اور مسائل میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اپنی مشکلوں، تکلیفوں اور آزمائشوں سے گھبراکر نا شکری کے الفاظ بول جاتا ہے۔ لیکن بہت توجہ سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ عام طور پر ناشکری کا جذبہ احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا پھر دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کی کیفیت کو نفسیاتی بیماری سے بھی تعبیر کیا جاسکتاہے۔ بیماری نفسیاتی، جسمانی، یا روحانی ہو وہ بہرحال انسان کے لیے مضر ہوتی ہے اس لیے اسے دور کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔اس کے برخلاف شکر گزاری انسان کے لیے بے شمار نعمتوں اور اچھائیوں کے دروازے کھولتی ہے۔ اللہ کی شکر گزاری اس کی نعمتوں میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اور بندوں کے احسانات پر ان کی شکرگزاری بندوں کی نظر میں انسان کی عظمت و عزت کو بڑھاتی اور لوگوں کے دلوں کو ہمارے لیے کھولنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
شکر گذاری کا جذبہ عمدہ اور بہترین صحت کا راز بھی ہے۔ اس جذبے کی وجہ سے انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، اور سچ پوچھیے تو جذبۂ شکر سے ہمارے بہت سارے مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں۔ خدا اور خدا کے بندوں سے ہمارے تعلقات کی نوعیت بھی خوشگوار بن جاتی ہے۔ جن لوگوں کے اندر شکرگذاری کا مادہ ہوتا ہے اس کے اندر صبر و تحمّل بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے پاس اللہ کی دی ہوئی جو نعمتیں اور قوّتیں ہوتی ہیں وہ اس پر مطمئن ہوتا ہے اور اس کے لیے اللہ کا شکر گذار ہوتا ہے۔ وہ ان نعمتوں کی قدر کرتا ہے۔ اس کے استعمال میں کفایت شعاری اور قناعت سے کام لیتا ہے۔ جس کی برکت سے اس کی خواہشوں کا بوجھ کم ہوجاتا ہے اس کے علاوہ بھی اگر مزید نعمتیں یا مزید مواقع میسر آجاتے ہیں تو وہ شکرگذاری کے جذبے سے لبریز ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنا موازنہ کبھی کسی دوسرے سے نہیں کرتے ہیں یہی عادت انہیں ایک الگ پہچان بخشتی ہے۔ اس کی شخصیت کی انفرادیت کو واضح کرتی ہے۔
ناشکرے لوگ کبھی بھی اپنی ترقی اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے مطمئن نہیں ہوتے۔ وہ اکثر شکوہ شکایت کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ہزار طرح کی نعمتیں ملنے کے باوجود ھل من مزید کے غم میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور جب بھی انہیں لگتا ہے کہ مزید کا سلسلہ کم یا ختم ہوتا جارہا ہے تو وہ ناشکری کے گناہ اور بے چینی کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اپنی ذات کا دوسروں سے موازنہ کرنے کی لت پڑجاتی ہے وہ اپنی زندگی کا سکون اور راحت دوسروں کی تکلیف اور شکست میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر حسد کی آگ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خیالات پراگندہ اور منتشر ہونے لگتے ہیں۔ وہ بہ یک وقت ایک ہی انسان کی تعریف اور تنقیص کے مخمصے میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اضطراب اور گھبراہٹ کی وجہ سے پرسکون نیند سے محروم ہوجاتے ہیں۔
شکر گذار لوگوں میں تواضع، خاکساری اور انکساری ہوتی ہے، وہ بات بات پر لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ’جزاک اللہ‘ اور ’شکریہ‘ جیسے الفاظ ان کی زبان پر جاری رہتے ہیں۔ جبکہ ناشکرے لوگوں میں ایک خاص طرح کی اکڑ پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ لوگوں کا شکریہ ادا کرنے میں توہین محسوس کرتے ہیں۔ایمان والوں سے کہا گیا ہے کہ شکر کا سب سے بڑا حقدار ہمارا رب ہے، جس نے بغیر مانگے ہمیں بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے:
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، بے شک انسان بڑابے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘ (ابراہیم)
ہمارے نبیﷺ نے جہاں ہمیں رب کا شکرگذار ہونے کا درس دیا ہے وہیں انسانوں کے لیے بھی شکرگذاری کے جذبے کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ انسان ہمارے شکریے کا حقدار ہے جو ہمارے ساتھ کسی بھی قسم کا احسان کرتا ہے، اللہ کے رسولؐ نے بندوں کے لیے جذبۂ شکر گذاری کو براہ راست اللہ کی شکرگذاری سے جوڑاہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ؛’’جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکربھی ادا نہیں کرے گا۔ناشکری ایمان والوں کو زیب نہیں دیتی ، مومن تو ہر حال میں اللہ کا شکرگذار ہوتا ہے۔ شکرگذاری ایمان کا حصّہ ہے۔ ایمان جتنا مضبوط ہوگا بندہ اتنا ہی زیادہ شکرگذار بھی ہوگا۔
اگر انسان شعوری طور پر شکر گزاری کے جذبے کو فروغ دینا چاہے تو قدم قدم پر اور لمحہ لمحہ اسے اس کے مواقع میسر ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ کسی مادی نعمت یا بڑی دولت ملنے پر ہی رب کا شکر ادا نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم چلتے پھرتے بے شمار مواقع ایسے دیکھتے ہیں کہ اپنے اندر سے شکر الٰہی کے جذبات سے جھک جائیں۔
ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بزرگ کے پاس جوتے نہیں تھے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ کاش ان کے پاس بھی جوتے ہوتے۔ کچھ دور چلے تو انھیں ایک شخص نظر آیا جس کے دونوں پر کٹے ہوئے تھے اور وہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا تھا۔ بزرگ نے فوراً اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس کے پیر سلامت ہیں۔
یہ ایک مثال کے طور پر حکایت بیان کی گئی ہے ورنہ قدم قدم پر ہمارے لیے رب اور بندوں دونوں کے لیے شکر گزاری کے مواقع موجود ہیں۔ شاعر نے اس طرف توجہ دلائی:
بے طلب ہی دینے والے نے مجھے کیا کیا دیا
عقل بخشی، چشم روشن دی، دلِ بینا دیا
آئیے ہم بھی اپنے اندر شکر گزاری کا جذبہ پیدا کریں۔ اپنے رب کے لیے شکر گزاری اور ان تمام بندوں کے لیے بھی جنھوں نے ہمارے ساتھ کوئی بھی اچھائی کی ہو۔ ان میں ہمارے والدین اور اساتذہ سے لے کر وہ تمام لوگ شامل ہیں جو ہماری خدمت اور ہمارے کاموں میں معاون ہوتے ہیں خواہ وہ ہمارے نوکر چاکر ہوں، یا وہ لوگ جو ہمیں زندگی میں مادی فوائد کا ذریعہ بنتے ہیں۔