انکار کا اقرار

محمد طارق

جب سے ہم بنائے گئے ہیں تب ہی سے ہم غلام ہیں۔ تب ہی سے ہم ’’اوپر والے‘‘ کی ایمان داری سے فرماں برداری کر رہے ہیں۔ حکم اوپر والے کا کام ہمارا ۔ ہم ’’اوپر والے‘‘ کے محتاج ہیں، وہ جیسا آرڈر دیتا ہے ہمیں بس اتنا ہی کام کرنا پڑتا ہے ۔
جیسا آرڈر— ویسا ورک۔
ہماری کوئی مرضی نہیں— ہمارے کاموں میں ہمارا دخل ہونے کے باوجودکوئی دخل نہیں۔ تاہم ہمارا ہر عمل ہم سے منسوب ہے۔
یہ آج کی بات نہیں۔ برسوں پرانی بات ہے ، جب سے انسان بناتب سے یہی اصول قائم ہے— اصول بدلنا چاہیے— غلامی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ ہمیں بھی آزادی چاہیے۔ حکمرانی کا برسوں پرانا قدیم اصول بدلنا ہوگا قدامت پرستی کو ختم کرنا ہوگا۔
اوپر والے کی مرضی اب نہیں چلے گی … نہیں چلے گی… نہیں چلے گی۔ ہم خود مختار ہیں۔ اپنی مرضی سے کام کریں گے ۔ کون ہوتا ہے’’ اوپر والا‘‘ ہر دم اپنا حکم چلاتا رہتا ہے۔ وہ ہم سے ہے، ہماری حرکت کی وجہ سے ہی اس کی حکومت قائم ہے۔
حکومت طاقت کے بل پر کی جاتی ہے۔ طاقت تو ہمارے پاس ہے۔ اُس کے پاس کیا ہے ؟ وہ تو بس اوپر بیٹھا آرڈر دیتا رہتا ہے اور کچھ نہیں کرتا۔ پھر وہ ہمارا حاکم کیسے بن بیٹھا۔وه پلپلا … لجلجا … خول میں پوشیدہ۔
وہ سب ’’اوپر والے‘‘ کے بارے میں سوچ رہے تھے اور اپنے اپنے کاموں پرنظر ثانی بھی کر رہے تھے۔
وه : یعنی آنکھ ۔۔ ناک کان۔۔ ہاتھ ۔۔۔ پاؤں۔
آنکھ خود سے ہم کلام تھی:’’میں دیکھنے کا کام کرتی ہوں، اجالے میں دیکھتی ہوںاندھیرے میں بھی دیکھتی ہوں ۔ وہ چیز بھی دیکھتی ہوں جو مجھے نہیں دیکھنی چاہیے اور ان چیزوں پر بھی میری نگاہیں چلی جاتی ہیں جو دیکھنے کے لائق نہیں ہوتیں مگر اوپر سے آرڈر آتا ہے ’’دیکھو‘‘ میں آرڈر کا پالن کرتی ہوں ۔
میری مجبوری کا عالم تو یہاں تک ہے کہ جب میری پلکیں نیند سے بوجھل ہو کر بند ہو جاتی ہیں تب بھی میں دیکھتی ہوں۔ میرے اس دیکھنے کو خواب کہا جاتا ہے۔
میرے بارے میں بہت ساری جھوٹی باتیں کہی جاتی ہیں، پھر بھی میں نے لب کشائی نہیں کی۔ جیسے میں نے کبھی لڑائی نہیں کی ۔ کہا جاتا ہے’’ آنکھیں لڑگئیں‘‘۔ میں کبھی کہیں گئی نہیں ۔ بھوؤں کے نیچے چہرے سے چمٹی رہیں۔ کہا جاتا ہے’’ آنکھیں چرنے گئیں‘‘ میں کبھی دیوار نہیں بنی کہا گیا ’’آنکھیں دیوار ہوگئیں‘‘۔
یہ ساری باتیں اس لیے ہو رہی ہیں کہ میں آزاد نہیں ہوں۔ غلام ہوں، جس نےمجھے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ۔ وہی میرے بارے میں ساری غلط باتوں کی اشاعت کر رہا ہے۔
ناک اپنے پرابلم میں الجھی ہوئی تھی ۔ وہ سوچ رہی تھی میرے ساتھ جو بھی پرابلم ہیں وہ میرے نہیں ہیں۔ میرا کام تو صرف سانس لینا، سانس چھوڑنا اور سونگھنا ہے۔ یہ کام میں تب سے انجام دے رہی ہوں جب سے میں بنی ہوں اس میں میری مرضی کا دخل نہیں ہے ۔ ماحول صاف ستھرا ہو یا پراگندہ ، فضا زہر آلود ہو یا صاف شفاف میں اپنے کام میں مصروف ہوں۔ میں نے کبھی سوال نہیں کیا۔ مگر جانے کیوں کسی بھی معاملے میں ناک کا سوال، ناک کا سوال کہہ کر مجھے گھسیٹا جاتا ہے ۔ عزت کا معاملہ ہو چاہے ذلت کا، ذات کا ہو یا دھرم کا، عہدہ کا ہو یا رتبہ کا، رشتے ناطے کا ہو یا شادی بیاہ کا، رسم و رواج، لین دین ، ملکی مسائل ،قومی مسائل، سماجی مسائل ناک کا معاملہ بن جاتا ہے جیسے میں ناک نہیں کوئی Multi purpose چیز ہوں۔ میں پریشان ہو گئی ہوں ۔ میں کیسے بتاؤں کہ میرا کام صرف سانس لینا سانس چھوڑنا اور سونگھنا ہے۔ مجھے بدنام مت کرو۔ مگر میں یہ کیسے سمجھاؤں؟ مجھے تو یہ سب اس کی کارستانی لگتی ہے میں جس کی ماتحت ہوں۔
’’ہاں—، تم سچ کہہ رہی ہو۔‘‘ کان جو ناک کے دائیں بائیں کنپٹیوں سے جڑے تھے بولے ’’تمہارا درد ہم جانتے ہیں۔ ہم ان سارے الزمات کے گواہ ہیں جو تم پر لگائے جارہے ہیں۔ مسئلہ تمھارا نہیں اُس کا ہے جو ہم پر حکومت کر رہا ہے۔ ہمیں دیکھو، ہمارا کام سننا ہے۔ ہم سب قسم کی آوازیں سنتے ہیں، وہ باتیں بھی ہمیں سننی پڑتی ہیں جو ہمیں نہیں سننی چاہئیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا انتظام تو ہے نہیں کہ اچھی باتیں سنو اور بری باتوں کے لیے کان بند کر لو۔ بولنا آسان ہے کرنا مشکل ! ہم خود کو کیسے بند کر سکتے ہیں بھلا — دیکھئے ہمارے سوراخ اور اندر کا پردہ آواز کو کیسے سمیٹ لیتا ہے۔ آواز کرخت ہو یا ملائم۔ تعریفی جملے ہوں یا گالیاں، فحش گانے ہوں کہ قومی ترانے۔ باتیں: جھوٹی ہوں یا سچی ۔ ہمیں سب کچھ سننا ہے… سنتے رہنا ہے۔ کہتے ہیں ایک کان سے سنو، دوسرے کان سے نکال دو، ہمیں بتاؤ حقیقت میں ایسا ہوتا ہے، کان آواز سننے کے لیے ہوتے ہیں۔ آواز نکالنے کے لیے نہیں۔ یہ بات اس کو سمجھنی چاہیےجس کے ہم نوکر ہیں۔
آنکھ، ناک، کان کی باتیں سن کر زبان منھ میں خاموش نہ رہ سکی،بے ساختہ بول اٹھی ۔’’مجھ پر تو سب سے زیادہ سنگین الزمات لگائے جارہے ہیں۔ کہا جاتا ہے، میں فتنہ کی جڑ ہوں۔ میرے لیے لوگ آپس میں لڑرہے ہیں۔ بھاشا کے جھگڑے، لکھاوٹ کے ٹنٹے۔ میں بتیس دانتوں میں قید سب دیکھ رہی ہوں۔ میرا کام کیا ہے اور میرا استعمال کس طرح کیا جا رہا ہے، کس کا فریب ہے؟ یہ کل جب مجھ سے پوچھا جائے گا تب میں کہوں گی کہ میرا استعمال سب سے زیادہ غلط کیا گیا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں کچھ نہیں کر سکتی کیوں کہ میں اپنے بس میں نہیں ہوں۔‘‘
زبان کی بات سن کر ہاتھوں نے بولا :’’ تمہارا استعمال غلط کیا جا رہا ہے تو ہمارا استعمال کہاں صحیح ہو رہا ہے۔ ہم جو کام کر رہے ہیں اس میں بھی ہماری مرضی کا دخل نہیں۔ ہم کندھوں سے جڑے وہی کام کرتے ہیں جس کا ہمیں اوپر سے آرڈر ملتا ہے۔ اگر آنکھ میں کچرا چلا جائے،ہم مدد کرتے ہیں، کان میں کھجلی ہو ، ہم کھجاتے ہیں۔ ناک ہم صاف کرتے ہیں۔ چہرے کو ہم سنوارتے ہیں۔ سر کے بالوں کو ہم جماتے ہیں۔ پاؤں میں اگر کانٹا چبھ جائے تو ہم ہی نکالتے ہیں۔ الغرض جسم کے بہت سارے کام تو ہم ہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم وہ بھی کام کرتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنے چاہئیں۔ مگر ہم مجبور ہیں۔ ہم اوپر والے کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
ہاتھوں کی بات سن کر پاؤں خفا ہو کر بولے ’’تمھیں ہماری مدد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ تم ہم پر احسان نہیں کر رہے ہو۔ ہمیں دیکھو، ہم حمال بنے ہوئے ہیں۔ تم سب کا بوجھ لے کر چل رہے ہیں۔ جب سے بنے، بوجھ ڈھو رہے ہیں۔ کبھی ہم اس راستے پر بھی چل پڑتے ہیں جس راستے پر ہمیں نہیں چلنا چاہیے ۔ مگر کیا کریں، ہم مجبور ہیں، اوپر سے جیسا آرڈر ملتا ہے۔ اُدھر ہم چل پڑتے ہیں، دوڑتے ہیں… بھاگتے ہیں۔
دماغ بہت دیر سے آنکھ، ناک، کان ، ہاتھ ، پاؤں اور زبان کی باتیں سن رہا تھا۔ بولا ’’اچھا—! تم سب مل کر مجھے ہی قصور وار ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہو … ٹھیک ہے ،میں اب تمھیں آزاد کرتا ہوں، تم اپنی مرضی سے وہ کرو جو چاہتے ہو۔‘‘
اتنا کہہ کر دماغ خاموش ہو گیا۔
دماغ کے خاموش ہوتے ہی آنکھ، ناک، کان ، ہاتھ، پاؤں، زبان سوچنے لگے کہ ہم کیا کریں۔ ہم نے تو کبھی اپنی مرضی سے کوئی کام کیا ہی نہیں—!
وہ سب اپنے اپنے سارے کام ایسے بھول گئے جیسے انہیں اپنے کاموں سے کبھی واسطہ ہی نہ رہا ہو— سب مفلوج ہوگئے۔
’’ ہم کیا کر سکتے ہیں— یہ تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیا ہماری سب سے بڑی طاقت دماغ ہی ہے … وہ پلپلا … لجلجا … لُچلُچا… کھوپڑی میں چھپا ہوا …‘‘جسم کے اعضاء بول اٹھے۔
’’ہاں ۔۔۔ !میں ہی تمہاری طاقت ہوں۔ مجھ سے تم سب جڑے ہوئے ہو … میری فرماں برداری میں ہی تمہاری بقا ہے۔ دماغ کہنے لگا ’’کامیاب ہے وہ انسان جس نے میرا استعمال صحیح کیا اور ناکام ہوا وہ جس نے مجھے غلط کاموں میںالجھا دیا— یاد رکھو! کل تم سب ان کاموں کی اللہ کے سامنے گواہی دو گے جو انسان نے کیا۔ تب انسان کہہ اُٹھے گا ’’یہ کیسا دفتر ہے جس نے ہمارے اُجالے،اندھیرے کے ہر عمل کو ہو بہو ہمارے سامنے پیش کر دیا ۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146